چیئرمین سے محروم سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں ریٹائرڈ رجسٹرار اور کنٹرولر تعینات ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
---فائل فوٹو
سندھ بورڈ آف ٹینکیکل ایجوکیشن صوبے کا وہ واحد بورڈ ہے جو گزشتہ 3 ہفتوں سے بغیر چیئرمین کے کام کر رہا ہے جبکہ بورڈ میں رجسٹرار اور کنٹرولر بھی ریٹائرڈ ہونے کے باوجود اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔
رجسٹرار زاہد علی خان اور کنٹرولر عذرا ریٹائر ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر اپنے عہدوں پر تاحال کام کر رہے ہیں اور سیکریٹری بورڈ کی اسامی پر گریڈ 18 کا افسر تعینات ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ قائم مقام چیئرمین مظفر بھٹو کی مدت گزشتہ ماہ 18 فروری کو مکمل ہوگئی تھی جس کے بعد نہ تو ان کی مدت میں توسیع کی گئی اور نہ ہی ٹیکنیکل بورڈ میں کسی بھی افسر کو اضافی چارج دیا گیا۔
اس وقت ٹیکنیکل بورڈ میں کوئی بھی چیئرمین نہیں جبکہ ریٹائرڈ ہونے والے رجسٹرار اور کنٹرولر مزے سے کام کر رہے ہیں۔
سبکدوش ہونے والے چیئرمین مظفر بھٹو نے کنٹریکٹ میں توسیع نہ ہونے کے باعث دفتر آنا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے بورڈ کے روز مرہ کے امور بری طرح متاثر ہیں۔
سیکریٹری بورڈز و جامعات عباس بلوچ سے جب اس معاملے پر رابطہ کیا تو انہوں نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اور کنٹرولر
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔