Islam Times:
2025-06-09@15:58:57 GMT

یورپ کا دفاع امریکا کیوں کرے؟ ایلون مسک

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

یورپ کا دفاع امریکا کیوں کرے؟ ایلون مسک

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کی جانب سے نیٹو اور یورپی یونین کے خلاف زبانی بیانات کے باوجود یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ بلاک اب بھی امریکا کو اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینیئر مشیر ایلون مسک نے نیٹو سے امریکی انخلا کی حمایت کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا ہے کہ امریکا کے لیے یورپ کے دفاع کی قیمت ادا کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کی جانب سے نیٹو اور یورپی یونین کے خلاف زبانی بیانات کے باوجود یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ بلاک اب بھی امریکا کو اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر ایکس پر ایک پوسٹ کا جواب دے رہے تھے کہ امریکا کو اب نیٹو سے نکل جانا چاہیے، ٹیسلا کے ارب پتی چیف ایگزیکٹو افسر نے کہا کہ ہمیں واقعی ایسا کرنا چاہیے۔

مسک کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) جو اپریل میں اپنی 76 ویں سالگرہ منائے گا، اس کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ٹرمپ نے بارہا یورپی یونین پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی، اور یوکرین کے معاملے پر روس کے ساتھ ان کی صف بندی نے یورپی حکام کو شدید پریشان کیا ہے۔ امریکی رہنما نے نیٹو کی چھتری تلے یورپ کے ساتھ امریکی سلامتی کے وعدوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ارسلا وان ڈیر لیئن سے ایک نیوز کانفرنس میں پوچھا گیا کہ کیا وہ واشنگٹن کے بارے میں برسلز کے نقطہ نظر کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں؟، انہوں نے کہا واضح نہیں ہے، ہاں، ہمارے مشترکہ مفادات ہمیشہ ہمارے اختلافات سے بالاتر ہیں۔

ارسلا وان ڈیر لیئن نے عام الفاظ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں ہر چیز لین دین بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے اندر فوری طور پر ضرورت کا احساس بڑھ رہا تھا کیونکہ کچھ بنیادی تبدیلی آئی ہے، ہماری یورپی اقدار، جمہوریت، آزادی، قانون کی حکمرانی خطرے میں ہیں۔ امریکا کے ساتھ نیٹو ممالک کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں خاص طور پر پوچھے جانے پر ارسلا وان ڈیر نے کہا کہ اگرچہ اتحادی تعلقات برقرار ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس آخری پیٹرن تھا، 25 سے 30 سال یہ اب بھی صحیح ہے امریکا کے تعلقات کا بدلتا ہوا لہجہ ایک بہت مضبوط ویک اپ کال ہے اور اب یورپ اپنے آپ کو وہ پوزیشن دے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

یورپی یونین کے سربراہ نے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے ہی واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، جمعرات کو یورپی یونین کے سربراہ اجلاس میں دفاعی اخراجات کو بڑھانے کے لیے تقریبا 800 ارب یورو جمع کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، جس پر واشنگٹن طویل عرصے سے زور دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتحادی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اتحادیوں کو اپنی ذمہ داریاں اٹھانی ہوں گی۔ وان ڈیر لیئن نے مزید کہا کہ اگلے ہفتوں کے اندر، وہ یورپی یونین کے کمشنرز کا پہلا اجلاس طلب کریں گی جس میں بیرونی اور داخلی سلامتی، توانائی، دفاع اور تحقیق‘ اور سائبر سیکیورٹی، تجارت اور غیر ملکی مداخلت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ارسلا وان ڈیر لیئن وان ڈیر لیئن نے یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایلون مسک نے کہا کہ

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • نیٹو کے سربراہ کا فضائی دفاعی صلاحیت میں 400 فیصد اضافے پر زور
  • چینی وزارت  دفاع کا تائیوان کی ڈی پی پی انتظامیہ کے لئے انتباہ
  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • اسپین میں نیٹو مخالف مظاہرے ، اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان  تین ” اہم معاملات ” میں پیش رفت
  • جوہری معاہدے پر بڑھتی کشیدگی، ایران کی یورپ اور امریکہ کو وارننگ
  • یورپی حکام بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے روکیں، علی رضا سید
  • انکار کیوں کیا؟