امریکا اور ایران میں 45 سال کشیدگی رہی ہے، کامران بخاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
لاہور:
رہنما مسلم لیگ (ن) خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جو سیاسی تاریخ ہے اس میں پارلیمان بڑی واضح وجوہات کی بنا پر سب سے کمزور ستون ہے ہمارے آئین کا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حالیہ سالوں میں آپ کو تو معلوم ہے کہ جوڈیشری نے بھی جن کو سیاسی جماعتوں بشمول میری جماعت کے ہم نے امپاور کیا وہ بھی ایک طاقتور حلیف بن کر سامنے آ گئے ہیں۔
لیکن پارلیمان بطور ادارہ ایگزیکٹو اگرچہ پارلیمان سے ہی نکلتی ہے لیکن اس کے علاوہ پارلیمان خود جو ہے اس پہ تو بہت کام ہونا ہے، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں اپنی ذاتی دے رہا ہوں جو فرق ہے وہ حکومت کو دور کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر کامران بخاری نے کہا کہ ایران کی اس وقت جو اندرونی اور بیرونی صورت حال ہے خاص طور پر ان کی جو مالی پوزیشن ہے وہ ان کی بارگینگ پاور کو کمزور کرتی ہے۔
جہاں تک بیانات کا تعلق ہے ظاہر ہے کوئی بھی فریق یہ نہیں کہے گا کہ ہم آپ کی شرائط پر راضی ہیں،45 سال کا ایک عرصہ ہے جس میں امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی رہی ہے، خاص طور پر اس انتظامیہ کے ساتھ تو بہت زیادہ کشیدگی رہی ہے کیونکہ اس نے 2015 والا معاہدہ ختم کر دیا ہے، تو وقت لگے گا دیکھتے ہیں کہ آگے چل کہ کیا حالات سامنے آتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے، جنگ بندی جاری رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے استنبول میں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سردست اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک جنگ بندی جاری رکھیں گے۔ چھے روزہ مذاکرات کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس کے مطابق 25 سے 30 اکتوبر تک پاک افغان مذاکرات کا اول مقصد دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی معاہدے کو مزید مستحکم بنانا تھا۔
استنبول اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ جنگ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا مشترکہ نظام تشکیل دیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے ملک پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ جنگ بندی کے قواعد و ضوابط طے کرنے اور دو طرفہ امن کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور 6 نومبر سے استنبول میں ہوگا جس میں معاملات کو حتمی شکل دیے جانے کا امکان ہے۔
افغان طالبان کے ساتھ دوحہ قطر سے استنبول ترکیہ تک ہونے والے دو مذاکراتی دورکے بعد بھی معاملات کا طے نہ پانا، اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ افغان طالبان دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے جائز مطالبات پر بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف موثر، ٹھوس اور عملی اقدام کے حوالے سے پوری طرح سنجیدہ نہیں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے دو ٹوک لفظوں میں افغان حکومت پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کی گئی تو پاکستان کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور اپنی سلامتی و دفاع کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
باخبر اطلاعات کے مطابق پاک افغان مذاکرات کے دوران اگرچہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے واضح موقف اختیار کیا جب کہ افغان مذاکرات کار اپنے رویوں، لہجے اور موقف میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مذاکراتی عمل کے دوران ٹھوس بات کرنے سے گریزاں نظر آئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ افغان طالبان معاہدہ کرنے کے باوجود اس کی تمام شقوں پر کماحقہ عمل درآمد کرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں جس کا اندازہ طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے اس بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں انھوں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کو حل کرے۔ افغان سفیر نے بھی ایک غیر سنجیدہ بیان دے کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی جس پر پاکستان نے احتجاج کیا جو ناقابل فہم نہیں۔
6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ مذاکرات کے باوجود جنگ بندی تو ہو گئی لیکن پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ چار روز پیشتر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے اہم کمانڈر سمیت 24 دہشت گرد ہلاک ہو گئے، اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ عسکری قیادت کا یہ دو ٹوک اعلان ہے کہ ملک کے دونوں اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرکے دونوں صوبوں کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے گا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کے پی کے عوام کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور صوبے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے میں سب کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ افغان طالبان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھارتی پشت پناہی میں اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا کر خود اپنی راہ میں مشکلات کھڑی کر رہا ہے بعینہ خطے کے امن کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، قطر اور ترکیہ کی ثالثی قابل تعریف لیکن خطے کے امن کے لیے چین، ایران، روس اور امریکا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا پاکستان اور دنیا اس کی معترف ہے۔ ٹرمپ کو پاک افغان جنگ بندی میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔