مذہبی سیاسی اہداف، معاشرتی تقسیم کا نقطہ آغاز(2)
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: خواہ پاکستان ہو یا ہندوستان، دس یا تیس لاکھ انسانوں کے قاتلوں، ہزروں خواتین کی عصمت ریزی کرنے والوں، لوٹ مار کرنے والوں کا تعین کیے بغیر ہم کسی طور اپنے معاشرے کو مہذب معاشرہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں اونچی اونچی پگڑیوں اور لمبی لمبی داڑھیوں کے پیچھے درندے چھپے ہوئے ہیں، جن کے اجداد کے ہاتھ انسانی خون اور غصب شدہ اموال سے آلودہ ہیں۔ ہم جب تک اس اندوہناک جرم کے حقیقی مجرموں کا تعین نہیں کرتے، اس وقت تک پورا معاشرہ مجرم ہے۔ سکھوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو ظلم کیا، وہ قابل مذمت ہے، تاہم رحمت للعالمین کی امت کی پیشانی پر ناحق خون کے دھبے، لوٹ مار، عصمت ریزی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ تحریر: سید اسد عباس
برصغیر میں ہند و مسلم، مسلم سکھ فسادات کے چند بڑے واقعات
تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک ترک موالات جو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں برپا ہوئیں اور اپنے ظاہری اہداف یعنی خلافت عثمانیہ کے دفاع کے مقصد کو نہ پا سکیں، ان کے بعد برصغیر کا معاشرہ واضح طور پر عقیدتی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہوگیا۔ 1896ء سے 1947ء کے درمیان مذہبی بنیادوں پر فسادات اور قتل و غارت کے بہت سے واقعات رونما ہوئے۔ 1926میں مسلم اکثریتی علاقے کلکتہ میں ایک تحریک چلی، جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی مساجد کے سامنے سے ہندوؤں اور سکھوں کے جلوس نہیں گزرنے چاہییں، اگر گزریں تو مذہبی وعظ نہ کریں۔ یہ آواز پورے برصغیر میں پھیل گئی اور جہاں جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے، وہاں اس طرح کے مطالبے سامنے آنے لگے۔ راولپنڈی باغ سرداراں مسجد کا سانحہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل و غارت کو ہم نے قبل ازیں بیان کیا ہے۔
47 کے فسادات اور مذہبی تصادم جس میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے، کروڑوں کو بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرنی پڑی، ہزاروں کو جبری طور پر اپنا دین بدلنا پڑا، اس کا آغاز ہندوستان کے مشرق میں مسلم اکثریتی علاقے کلکتہ میں فسادات سے ہوا۔ مسلم لیگ کا راست اقدام کا اعلان ان فسادات کا نقطہ آغاز قرار پایا۔ مشرقی بنگال کا علاقہ نواکھلی 10 اکتوبر 1946ء کو فسادات کی لپیٹ میں آیا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی بھی مسلم تھی۔ ملحقہ صوبے بہار میں فسادات 25 اکتوبر 1946ء کو شروع ہوئے، جہاں ہندو آبادی اکثریت میں تھی۔ پنجاب کے شمال مغربی علاقوں مثلاً راولپنڈی، ٹیکسلا، واہ، کہوٹہ، جہلم اور گوجر خان وغیرہ میں فسادات 4 مارچ 1947ء کو شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ مرکزی پنجاب کی طرف بڑھتے گئے۔ مشرقی پنجاب میں فسادات اواخر جولائی 1947ء میں شروع ہوئے اور ستمبر بلکہ اکتوبر 1947ء کے وسط تک جاری رہے۔ مشرقی پنجاب میں مسلمان اقلیت میں تھے۔
وسطی ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان تہذیبی اور معاشی طور پر بالادست، لیکن عددی اقلیت میں تھے، (مثلاً دہلی، پانی پت، گڑگاؤں، لکھنو، میرٹھ، بلند شہر، بدایوں، مظفر نگر) میں فسادات جولائی، اگست 1947ء میں شروع ہوئے۔ یہ امر معنی خیز ہے کہ ہندوستان کے متعدد جنوبی صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد بے حد کم تھی، مثلاً کیرالہ، گجرات، کرناٹک وغیرہ، وہاں بالکل فسادات نہیں ہوئے۔ امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست1946ء کی رپورٹ کے مطابق کلکتہ کے فسادات کے دوران اس شہر کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہوچکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی، ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہوگیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔
یوم راست اقدام سے شروع ہونے والی چنگاری سلگتی رہی۔ فسادات کا اگلا اہم واقعہ نواکھلی میں پیش آیا (جو اب بنگلہ دیش کا حصہ ہے)۔ 10 اکتوبر 1946ء کو اس مسلم اکثریتی علاقے میں شروع ہونے والے فسادات کو اخبارات میں ”مسلم ہجوم کا منظم غیظ و غضب“ قرار دیا گیا۔ جلد ہی فسادات کی یہ آگ رائے پور، لکشمی پور، بیگم گنج، سندیپ، فرید گنج، چاند پور میں پھیل گئی۔ ہندو اخبارات نے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کی۔ مسلم اخبارات نے سرے سے فسادات ہی سے انکار کر دیا۔ سرکاری طور پر 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی، تاہم فسادات کے بعد نواکھلی میں کوئی ہندو شہری نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا تھا۔ دو ہفتے بعد بہار کے مسلم اقلیتی صوبے میں یوم نواکھلی منایا گیا۔ اس روز یعنی 25 اکتوبر 1946ء کو بہار کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بہار میں مذہب کے نام پر مسلمان باشندوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس کا ذکر بھی انسانیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ پٹنہ، مونگر اور بھاگل پور کے اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ہندو مسلم، مسلم سکھ فسادات اور قتل و غارت کے تمام واقعات کو اس مختصر تحریر میں لکھنا ممکن نہیں، تاہم ان تمام واقعات کی وجہ کو جاننا نہایت اہم ہے۔
برصغیر نسلی تصادم اور فسادات پر ہونیوالی چند تحقیقات
تقسیم ہند سے قبل اور اس کے دوران میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے بہت سی شخصیات نے تحقیقی کام کیا ہے، جس میں انگریز، سکھ، مسلمان محققین اور لکھاریوں کا کام شامل ہے۔ اس میں ایک اہم رپورٹ Muslim League Attack on Sikhs and Hindus in the Punjab 1947 گربچن سنگھ طالب کی ہے۔ پنجاب کی تقسیم کے دوران ہونے والے واقعات کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتاب پاکستانی نژاد سویڈش پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی ہے، جو انگریزی زبان میں تحریر کی گئی اور اس کا اس وقت تک اردو، ہندی اور گرمکھی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ سیاسیات کے پروفیسر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب The Punjab Bloodied Partitioned And Cleansed کو اس انداز سے تحریر کیا ہے کہ اگر مولف کا نام معلوم نہ ہو تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مصنف مسلمان ہے، ہندو ہے یا سکھ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ "پنجاب کا بٹوارہ: ایک المیہ ہزار داستان" کے عنوان سے ہوچکا ہے اور پاکستان کے بڑے کتاب خانوں میں دستیاب ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کے علاوہ ایک پاکستانی صحافی اور مصنف سجاد اظہر بھی پنجاب میں فسادات پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے راولپنڈی ڈویژن میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے ایک کتاب مرتب کی ہے، جو شائع ہونے والی ہے۔ اس حوالے سے ایک اور اہم دستاویز پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ ہے، جو انھوں نے وزیراعظم پاکستان کو ہندوستان سے روانہ کیا۔ جو گندرناتھ منڈل لکھتے ہیں: "کلکتہ کی خونریزی اکتوبر 1946ء میں ”نواکھلی کے بلوہ“ پر منتج ہوئی، جہاں ہندوؤں کو بشمول اچھوت ذاتوں کے قتل کیا گیا اور سینکڑوں کو مسلمان بنا لیا گیا۔ ہندو عورتیں ریپ اور اغوا کی گئیں۔ میری برادری کے افراد کو بھی زندگی اور املاک سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ہندوؤں پر پڑی خوفناک بپتا نے مجھے ماتم زدہ کر دیا، لیکن اس کے باوجود میں نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی پالیسی جاری رکھی۔"
برصغیر نسلی تصادم پر ہونے والی تحقیقات کے حوالے سے اہم سوالات
تقسیم ہند سے قبل اور دوران میں ہونے والا تصادم، قتل و غارت، لوٹ مار اور جلاؤ گھراؤ کا عمل اتنا وسیع ہے کہ اس کا ایک یا دو جلدوں میں احاطہ ممکن نہیں ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل، ہزاروں خواتین کی آبروریزی، جبری مذہب کی تبدیلی، اغواء، لوٹ مار کے واقعات اس قدر ہیں کہ محقق ان واقعات کے حقیقی عامل، اسباب اور نتائج کو کوشش کے باوجود بیان نہیں کرسکتا۔ تقسیم ہند کے وقت ہونے والے فسادات کے حوالے سے یہ سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔
• برصغیر میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم اقلیت کو خطرہ کے طور پر کیوں دیکھا گیا اور ان کے خاتمے کو لازم کیوں گردانا گیا۔؟
• غیر مسلم اقلیت مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان ریاست کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کو اپنے لیے خطرہ کیوں سمجھتی تھی، کیا مسلم قیادت غیر مسلموں کو مذہبی آزادی، جان و مال کا تحفظ دینے کی یقین دہانی نہ کروا سکی۔؟
• کیا مسلم لیگ اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت تقسیم ہند کے نتائج یعنی قتل و غارت، لوٹ مار، عصمت ریزی، جبری منتقلی سے آگاہ تھی اور یہ قتل و غارت تقسیم ہند کے منصوبے کا حصہ تھا۔؟ اگر ایسا نہیں تو یہ قیادت معاشرے کے مذہبی فہم کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہوئی۔؟
• اگست 1946ء اور مارچ 1947ء میں مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والے شدت پسندانہ اقدامات حادثاتی تھے یا ان کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔؟
• اگست 1946ء اور مارچ 1947ء میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے غیر مسلم آبادی کے قتال، لوٹ مار، اغواء اور جبر میں مذہبی تنظیموں، اہم مذہبی و سیاسی شخصیات، گدی نشینوں، مساجد، مدارس اور صوفی سلسلوں کا کیا کردار تھا۔؟
• مشرقی پنجاب میں ہونے والے مسلمان آبادی کے قتل و غارت سے ایک برس قبل، مسلم اکثریتی علاقوں میں بسنے والے غیر مسلموں کی املاک، جان و مال، آبرو کو کون سے اسلامی احکام کے تحت مباح قرار دیا گیا اور کیا مشرقی پنجاب میں ہونے والے قتل و غارت کے بدلے کے طور پر غیر مسلموں کا خون، املاک اور آبرو مباح ہو جاتا ہے۔؟
• برصغیر میں ہونے والے نسلی تصادم کو کنڑول کرنے میں انگریز حکومت کا کیا کردار تھا۔؟
• نسلی تصادم اور قتل و غارت گری کے واقعات کے ذمہ داران کے خلاف کیا اقدامات کیے گئے، کیا کسی مجرم کو پاکستان یا ہندوستان کے قانون کے مطابق سزا دی گئی۔؟
• ایک ذیلی سوال یہ بھی ہے کہ صدیوں سے بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ رہنے والی برصغیر کی مسلم و غیر مسلم آبادی اچانک مذہبی بنیادوں پر ریاستوں کے حصول کی جدوجہد میں کیونکر مشغول ہوگئی۔ اس مذہبی سیاست کے پس منظر میں کیمونزم کے برصغیر پر اثرات اور انگریزوں کی جانب سے کمیونزم کے برصغیر میں رسوخ سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی کا کیا کردار ہے۔؟
خواہ پاکستان ہو یا ہندوستان، دس یا تیس لاکھ انسانوں کے قاتلوں، ہزروں خواتین کی عصمت ریزی کرنے والوں، لوٹ مار کرنے والوں کا تعین کیے بغیر ہم کسی طور اپنے معاشرے کو مہذب معاشرہ نہیں کہہ سکتے۔ ہم ایک ایسے جنگل میں رہ رہے ہیں، جہاں اونچی اونچی پگڑیوں اور لمبی لمبی داڑھیوں کے پیچھے درندے چھپے ہوئے ہیں، جن کے اجداد کے ہاتھ انسانی خون اور غصب شدہ اموال سے آلودہ ہیں۔ ہم جب تک اس اندوہناک جرم کے حقیقی مجرموں کا تعین نہیں کرتے، اس وقت تک پورا معاشرہ مجرم ہے۔ سکھوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو ظلم کیا، وہ قابل مذمت ہے، تاہم رحمت للعالمین کی امت کی پیشانی پر ناحق خون کے دھبے، لوٹ مار، عصمت ریزی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
ہمیں اپنے اسلامی ریاست کے تصور کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کونسی اسلامی ریاست ہے، جہاں رحمتوں کے مہینے یعنی رمضان المبارک میں ہزار سے زیادہ افراد کو فقط اس لیے قتل کر دیا جائے کہ ان کا عقیدہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے۔ عقیدے کے اختلاف کے سبب مخالف فرقے یا مذہب کی خواتین کو مجاہدین کے لیے مباح قرار دینا اور انھیں لونڈیاں بنا دینا کونسا اسلام ہے۔ اسلامی ریاست کا ایسا متشدادانہ تصور جو اقلیتوں یا مخالفین پر ظلم کو جائز سمجھے، غیر مسلم یا دوسرے مسلک کو انسانیت کے درجے سے گرا کر ان کی جان اور مال کو حلال جانے اسلام اور مسلم معاشرے کے لیے ایک وبال ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں مسلم اکثریتی ہونے والے فسادات اکتوبر 1946ء کو میں ہونے والے اسلامی ریاست ہندوستان کے کے حوالے سے کرنے والوں مسلم اقلیت میں فسادات نسلی تصادم قتل و غارت فسادات کے شروع ہوئے کا تعین لوٹ مار کے ساتھ کے لیے اور ان اور اس کی گئی
پڑھیں:
فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی مرضی ہے کہ ’’ وہ ہم سے اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، وہ خود مختار سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ہم کسی سے سیاسی اتحاد کے لیے زبردستی نہیں کر سکتے۔‘‘ موجودہ حکومت کی ایک اہم ترین سیاسی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’ خدا نہ کرے کہ ہم موجودہ حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں، ہمارا کوئی نیا سیاسی اتحاد نہیں ہو رہا، اگر ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی تو ملک میں نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور ملک ایسے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو ہمارے تحفظات دور کرنے چاہئیں اور ایسا نہ ہونے سے ہی شکایات پیدا ہوتی ہیں اور پیپلز پارٹی کے خلاف منفی بیانیہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں بھی بولنا پڑتا ہے۔‘‘
وفاق میں شامل دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہ ہونے سے پہلے سے ہی تحفظات چل رہے تھے کہ اب 6 نہریں نکالنے کے مسئلے نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور پی پی کے مخالفین نے سندھ میں نہروں کی بنیاد پر احتجاجی مہم شروع کی تھی جس کے بعد پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے بھی ایک سخت موقف اپنایا کہ نہریں نہیں بننے دیں گے اور سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کسی کو نہیں لینے دیں گے۔ وفاق نے کینالز کے مسئلے پر یہ معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش شروع کی تو سندھ کی تمام قوم پرست جماعتوں نے نہریں نکالنے کے خلاف بھرپور احتجاج، پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال شروع کردی جب کہ سندھ میں پیر پگاڑا کی سربراہی میں قائم جی ڈی اے پہلے ہی احتجاج کررہی تھیں اور صدر زرداری پر بھی الزامات لگا رہی تھی۔
سندھ بار ایسوسی ایشن بھی اب شہروں کے خلاف احتجاج میں شریک ہو چکی ہے اور سندھ بار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نہروں کے خلاف ہونے والے دھرنے کو سنجیدہ لے اور نہروں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن فی الفور واپس لے ورنہ احتجاج جاری رہے گا۔ پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پہلے بھی حیدرآباد کے جلسے میں سخت موقف اپنایا ہے جس کے بعد وفاق نے یہ مسئلہ پی پی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے رابطے شروع کیے مگر اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کا نہیں رہا سندھ کی تمام جماعتیں اور وکلا بھی احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی اس مسئلے پر سندھ میں ہونے والے احتجاج کی حمایت کر رہی ہے مگر ساتھ میں پیپلز پارٹی پر بھی کڑی تنقید کر رہی ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن اور وفاق میں (ن) لیگ کی اتحادی اور وفاقی حکومت میں شامل ہے مگر وفاقی حکومت سے اسے بھی شکایات ہیں کہ ان کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔
اس لیے ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکومت سے اتحاد ختم کر دیں گے۔وفاق میں پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ تیسرا اتحاد ہے۔ 2008 میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا تھا اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو اپنا نیا اتحادی بنا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی۔ ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جنرل پرویز کے باعث (ق) لیگ کی اتحادی رہی ہے مگر وہ (ن) لیگ اور پی پی حکومت کا اتحاد ختم بھی کرتی رہی ہے۔ پی پی نے 2008 کے الیکشن کے بعد سندھ میں اپنی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا اور سولہ برسوں میں پی پی حکومت کی سندھ میں اپوزیشن پی ٹی آئی 2018 میں رہی اور زیادہ تر ایم کیو ایم ہی سندھ میں حکومت سے باہر رہ کر سندھ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی اور اب بھی کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم پہلی بار 1988 میں بے نظیر دور میں وفاق اور سندھ میں پی پی حکومت کی اتحادی بنی تھی۔ پی پی اور ایم کیو ایم سندھ کی دو اہم پارٹیاں ہیں اور دونوں کا اتحاد فطری بھی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی دیہی سندھ اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمایندگی کرتی ہیں۔ دونوں کے حامیوں نے سندھ میں ہی رہنا ہے اور دونوں کا سیاسی اتحاد سندھ کے وسیع مفاد میں ہے مگر پی پی اپنی دیہی سیاست کے باعث ایم کیو ایم کے ساتھ چلنے پر رکاوٹ محسوس کرتی ہے جس کی وجہ سندھ میں 50 سال سے نافذ کوٹہ سسٹم ہے جو دس سال کے لیے بھٹو دور میں نافذ ہوا تھا جسے پیپلز پارٹی ختم نہیں ہونے دے رہی جب کہ ایم کیو ایم اس کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس پر مکمل عمل نہیں ہو رہا اور ایم کیو ایم کے مطابق سندھ میں پی پی کی حکومت شہری علاقوں کی حق تلفی کر رہی ہے۔
شہری علاقوں میں لوگوں کو بسا کر صرف انھیں ہی سرکاری ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ سندھ میں ان دونوں پارٹیوں کا اتحاد فطری ہو سکتا ہے مگر نہیں ہو رہا اور اب بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں اور پی پی، ایم کیو ایم کا موجودہ مینڈیٹ تسلیم بھی نہیں کرتی اور صدر آصف زرداری کے لیے یہ ووٹ لے بھی چکی ہے۔
وفاق میں (ن) لیگ اور پی پی کا سیاسی اتحاد ہے جو مجبوری کا اتحاد ہے۔ پی پی (ن) لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے جس کا جواب مسلم لیگ موثر طور نہ دینے پر مجبور ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف اور جے یو آئی میں سیاسی اتحاد ہونا بالکل غیر فطری ہے کیونکہ دونوں متضاد خیالات کی حامل ہیں جب کہ پی ٹی آئی تو (ن) لیگ اور پی پی کو اپنا سیاسی مخالف نہیں بلکہ اپنا دشمن قرار دیتی ہے جو ملک کی بدقسمتی اور ملکی سیاست اور جمہوریت کے خلاف ہے اور ملک میں فطری اتحاد برائے نام ہے۔