ڈاکٹر راشد عباس نقوی کے ساتھ ایران-امریکہ تعلقات اور نیوکلیئر ڈیل پر اہم گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے ایران-امریکہ تعلقات، نیوکلیئر ڈیل اور مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران کسی دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا اور وہ صرف باوقار اور ہوش مندانہ مذاکرات میں شریک ہوگا۔ ایران کی تاریخ اور عزم کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے گا۔ ڈاکٹر راشد عباس نقوی کے ساتھ ایران-امریکہ تعلقات اور نیوکلیئر ڈیل پر گفتگو
سوال: ڈاکٹر صاحب، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت کے حوالے سے کیا کہا جا رہا ہے؟ اور کیا ایران اس پر تیار ہے؟
ڈاکٹر راشد نقوی: ڈونلڈ ٹرمپ کا اندازِ ڈپلومیسی منفرد بلکہ بیہودہ و غیر روایتی ہے اور اس کی حکمتِ عملی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ نئی نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت چاہتے ہیں۔ تاہم، ایرانی ذرائع ابلاغ نے ابھی تک ٹرمپ کے کسی خط یا پیغام کی تصدیق نہیں کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ، میڈیا میں اس کی بازگشت ضرور سنائی دے رہی ہے۔ رہبرِ انقلاب، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران صرف ان مذاکرات میں شریک ہوگا، جو عاقلانہ، شرافت مندانہ، باوقار اور ہوش مندانہ ہوں۔ ایران کسی دھمکی یا دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا۔ امریکہ کی ماضی کی کارروائیوں، خاص طور پر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان (JCPOA) کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد، ایران کا امریکہ پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ٹرمپ کا نیا معاہدہ پیش کرنے کا طریقہ کار بھی ایران کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
سوال: ٹرمپ کا اندازِ کار غیر متوقع ہے۔ وہ کسی کو بھی خط لکھ دیتے ہیں یا کال کر دیتے ہیں۔ آخر امریکہ ایران سے کیا چاہتا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد نقوی: ٹرمپ کا ماضی بھی ایسے دعوؤں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ گوگل پر سرچ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ٹرمپ نے کتنے جھوٹے دعوے کیے ہیں۔ ابھی تک نہ تو وائٹ ہاؤس نے اور نہ ہی ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ٹرمپ کے کسی خط یا پیغام کی تصدیق کی ہے۔ امریکہ ہمیشہ سے دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی ملک غلامانہ انداز میں امریکہ کی بات مان لے تو ٹھیک، ورنہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے۔ ایران نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک کے ساتھ مذاکرات کرسکتا ہے، لیکن امریکہ کی ڈکٹیشن کے تحت نہیں۔
سوال: ایران پر چار دہائیوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ نیوکلیئر ڈیل کے تناظر میں ایران کو کتنا نقصان ہوچکا ہے اور مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر راشد نقوی: اقتصادی پابندیاں اور ناکہ بندی ایران کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ 1979ء کے انقلاب کے بعد سے جاری ہے۔ جب ایرانی طلباء نے تہران میں امریکی سفارتخانے (جاسوسی کے اڈے)پر قبضہ کیا، تو اس کے بعد سے امریکہ نے ایران پر مسلسل پابندیاں عائد کی ہیں۔ صدام حسین کے ذریعے مسلط کردہ اٹھ سالہ جنگ، اسرائیل کی دھمکیاں اور سیاسی مداخلتیں، یہ سب ایران کے خلاف امریکہ کی پالیسیوں کا حصہ رہی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں "میکزمم پریشر" کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں ایران کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، ایرانی قوم نے ان مشکلات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی قابلِ تحسین مثال پیش کی ہے۔ البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ پابندیوں کے باعث ایران کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سوال: مشرقِ وسطیٰ میں ایران ایک اہم کھلاڑی ہے۔ مصر اور اردن نے فلسطینیوں کے حوالے سے ایک پلان پیش کیا ہے۔ کیا یہ ایران کے لیے قابلِ قبول ہے۔؟
ڈاکٹر راشد نقوی: ایران نے اس پلان کو مثبت نگاہ سے دیکھا ہے، خاص طور پر جبری نقل مکانی کے خلاف عرب رہنماؤں کے موقف کو سراہا گیا ہے۔ تعمیرِ نو کے لیے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی منظوری بھی ایک اچھا قدم ہے۔ ایران ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کھڑا رہا ہے اور وہ ایسے اقدامات کو سراہتا ہے، جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہوں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈاکٹر راشد نقوی امریکہ کی ایران کے کے ساتھ ٹرمپ کا کے لیے
پڑھیں:
جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-20
تہران( مانیٹرنگ ڈیسک) ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران کو جوہری پروگرام پرامریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘نہ ہم جوہری پروگرام پر پابندی کو قبول کریں گے ۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابل قبول اور ناممکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ اور کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا۔ اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے اور اسے کہیں دوسری جگہ منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔