اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے ایران-امریکہ تعلقات، نیوکلیئر ڈیل اور مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران کسی دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا اور وہ صرف باوقار اور ہوش مندانہ مذاکرات میں شریک ہوگا۔ ایران کی تاریخ اور عزم کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے گا۔ ڈاکٹر راشد عباس نقوی کے ساتھ ایران-امریکہ تعلقات اور نیوکلیئر ڈیل پر گفتگو

سوال: ڈاکٹر صاحب، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت کے حوالے سے کیا کہا جا رہا ہے؟ اور کیا ایران اس پر تیار ہے؟
ڈاکٹر راشد نقوی:
ڈونلڈ ٹرمپ کا اندازِ ڈپلومیسی منفرد بلکہ بیہودہ و غیر روایتی ہے اور اس کی حکمتِ عملی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ نئی نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت چاہتے ہیں۔ تاہم، ایرانی ذرائع ابلاغ نے ابھی تک ٹرمپ کے کسی خط یا پیغام کی تصدیق نہیں کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ، میڈیا میں اس کی بازگشت ضرور سنائی دے رہی ہے۔ رہبرِ انقلاب، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران صرف ان مذاکرات میں شریک ہوگا، جو عاقلانہ، شرافت مندانہ، باوقار اور ہوش مندانہ ہوں۔ ایران کسی دھمکی یا دباؤ کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا۔ امریکہ کی ماضی کی کارروائیوں، خاص طور پر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان (JCPOA) کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد، ایران کا امریکہ پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ٹرمپ کا نیا معاہدہ پیش کرنے کا طریقہ کار بھی ایران کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

سوال: ٹرمپ کا اندازِ کار غیر متوقع ہے۔ وہ کسی کو بھی خط لکھ دیتے ہیں یا کال کر دیتے ہیں۔ آخر امریکہ ایران سے کیا چاہتا ہے۔؟
ڈاکٹر راشد نقوی:
ٹرمپ کا ماضی بھی ایسے دعوؤں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر آپ گوگل پر سرچ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ٹرمپ نے کتنے جھوٹے دعوے کیے ہیں۔ ابھی تک نہ تو وائٹ ہاؤس نے اور نہ ہی ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ٹرمپ کے کسی خط یا پیغام کی تصدیق کی ہے۔ امریکہ ہمیشہ سے دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی ملک غلامانہ انداز میں امریکہ کی بات مان لے تو ٹھیک، ورنہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے۔ ایران نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک کے ساتھ مذاکرات کرسکتا ہے، لیکن امریکہ کی ڈکٹیشن کے تحت نہیں۔

سوال: ایران پر چار دہائیوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ نیوکلیئر ڈیل کے تناظر میں ایران کو کتنا نقصان ہوچکا ہے اور مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر راشد نقوی:
اقتصادی پابندیاں اور ناکہ بندی ایران کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ 1979ء کے انقلاب کے بعد سے جاری ہے۔ جب ایرانی طلباء نے تہران میں امریکی سفارتخانے (جاسوسی کے اڈے)پر قبضہ کیا، تو اس کے بعد سے امریکہ نے ایران پر مسلسل پابندیاں عائد کی ہیں۔ صدام حسین کے ذریعے مسلط کردہ اٹھ سالہ جنگ، اسرائیل کی دھمکیاں اور سیاسی مداخلتیں، یہ سب ایران کے خلاف امریکہ کی پالیسیوں کا حصہ رہی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں "میکزمم پریشر" کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں ایران کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، ایرانی قوم نے ان مشکلات کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی قابلِ تحسین مثال پیش کی ہے۔ البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ پابندیوں کے باعث ایران کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

سوال: مشرقِ وسطیٰ میں ایران ایک اہم کھلاڑی ہے۔ مصر اور اردن نے فلسطینیوں کے حوالے سے ایک پلان پیش کیا ہے۔ کیا یہ ایران کے لیے قابلِ قبول ہے۔؟
ڈاکٹر راشد نقوی:
ایران نے اس پلان کو مثبت نگاہ سے دیکھا ہے، خاص طور پر جبری نقل مکانی کے خلاف عرب رہنماؤں کے موقف کو سراہا گیا ہے۔ تعمیرِ نو کے لیے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی منظوری بھی ایک اچھا قدم ہے۔ ایران ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کھڑا رہا ہے اور وہ ایسے اقدامات کو سراہتا ہے، جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہوں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر راشد نقوی امریکہ کی ایران کے کے ساتھ ٹرمپ کا کے لیے

پڑھیں:

لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون

اپنی ایک تقریر میں لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارتکاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بیروت، لبنانی صدر "جوزف عون" نے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ اس وقت لبنان کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات اس وقت کئے جاتے ہیں جب دوسرا فریق، دوست یا اتحادی کی بجائے دشمن ہو۔ دوست کے ساتھ بات چیت کے لئے ثالثی یا معاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن دشمن کے ساتھ مذاکرات، افہام و تفہیم اور امن کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے لبنان کو درپیش گزشتہ چیلنجز کے نتائج کی جانب اشارہ کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ کا زمانہ دیکھا اور ہم جانتے ہیں کہ اس راستے کے انتخاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مذاکرات اور سفارت کاری کی زبان اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں بلکہ ملک کی خدمت کرنے والے ایک عام آدمی ہیں۔ بعض لوگ لبنان کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں، حالانکہ لبنان ہے تو ہم ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے كہ اسرائیلی وزیر جنگ نے لبنان کے صدر جوزف عون پر جنگ بندی كے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا الزام عائد کیا، حالانکہ صیہونی رژیم خود اسی معاہدے میں طے ہونے والی شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل پیرا نہیں۔ دوسری جانب جوزف عون نے بھی جمعے کے روز اسرائیل پر یہ الزام عائد کیا کہ تل ابیب نے مذاکرات کی دعوت کے جواب میں، اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی کشیدگی کئی ہفتوں سے جاری ہے، 2024ء کے آخر میں جنگ بندی کے اعلان کے باوجود، جنوبی لبنان پر روزانہ كی بنیاد پر صیہونی فضائی حملے جاری ہیں۔ اس صورت حال كے ساتھ ساتھ، امریکہ نے لبنانی حکومت پر حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنے کے لئے اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے، جس کی حزب‌ الله اور اس کے اتحادیوں نے سخت مخالفت کی۔ قبل ازیں صیہونی وزیر جنگ "یسرائیل کاٹس" نے خبردار کیا کہ اسرائیل، مستقبل میں حزب‌ الله کے خلاف اپنے حملے تیز کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھوک کا شکار امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی بے حسی
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • لبنان دشمن کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، جوزف عون
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایران اور امریکہ جوہری معاملے پر دوبارہ مذاکرات شروع کریں، بحرین
  • نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں: ایران
  • جوہری پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں‘ایران
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • سوڈان کی صورتحال پر سید عباس عراقچی کا تبصرہ