ابوظہبی(نیوز ڈیسک)متحدہ عرب امارات کی کونسل برائے فتویٰ نے رواں سال رمضان کے مہینے کے لیے مختلف حالات میں قضا کیے جانے والے روزوں کے کفارے کی رقم کے ساتھ صدقہ فطر کی رقم بھی جاری کی ہے۔خلیج ٹائمز کے مطابق صدقہ فطر فی کس 25 درہم (ایک ہزار 900 پاکستانی روپے) یا ڈھائی کلو گرام چاول کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔

صدقہ فطر رمضان ختم ہونے سے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے، یہ تمام مسلمان مردوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں پر واجب ہے، جو مالی یا کھانے کی شکل میں زکوٰۃ دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

کونسل نے مختلف حالات میں روزہ نہ رکھنے والے افراد کے کفارے کی رقم بھی مقرر کی ہے، جو درج ذیل ہے۔جو لوگ جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھتے، انہیں 60 مسکینوں کو 15 درہم ادا کرنے ہوں گے، اس کی مجموعی قدر 900 درہم (پاکستانی 68 ہزار 588 روپے) بنتی ہے، جو لوگ ادائیگی کے بجائے کھانا کھلانا چاہتے ہیں، ان کے لیے ہر شخص کو سوا 3 کلو گرام گندم دینے کے برابر قیمت مقرر کی گئی ہے۔

جو لوگ روزہ رکھنے سے قاصر ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے ضائع ہونے پر فی کس 15 درہم ادا کریں، جو لوگ ادائیگی کے بجائے کھانا کھلانا چاہتے ہیں، ان کے لیے 60 افراد میں سے ہر شخص کو دینے کے لیے سوا 3 کلو گرام گندم کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔

اگر کوئی شخص روزہ چھوڑتے ہوئے فوت ہو جائے اور اس کے روزے ضائع ہو جائیں تو کفارہ یا تو 3.

25 کلو گرام روزانہ کے حساب سے کھانا کھلانے یا 15 درہم ادا کرنے کا ہے، یہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ ادا کیا جانا چاہیے۔

جو لوگ بغیر کسی عذر کے روزے کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں، انہیں ہر روز کے لیے فی کس 15 درہم ادا کرنے ہوں گے، جو لوگ ادائیگی کے بجائے کھانا کھلانا چاہتے ہیں، ان کے لیے ہر شخص کے لیے سوا 3 کلو گرام گندم کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔

اگر کسی نے روزے کے دوران قسم کھالی (حلف اٹھایا) اور اسے معلوم ہو کہ یہ سچ نہیں تھا تو اس پر لازم ہے کہ وہ 10 مسکینوں کو 15 درہم ادا کرے گا، جو مجموعی طور پر 150 درہم کی رقم بنتی ہے، ہر شخص کو کھلانے کے لیے سوا 3 کلو گرام گندم کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔

میکسیکو میں المناک بس حادثہ، 18 افراد ہلاک

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کی قیمت مقرر کی گئی ہے سوا 3 کلو گرام گندم جو لوگ کی رقم کے لیے

پڑھیں:

ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا

وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرینوں میں بغیر ٹکٹ سفر کرنیوالے مسافروں کو لاکھوں روپے جرمانہ
  • کوہستان کرپشن اسکینڈل کے مرکزی ملزم قیصر اقبال اور انکی اہلیہ کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، امارات میں نمایاں کمی ریکارڈ
  • سرکاری ملازمین کیلئے رینٹل سیلنگ کا نیا ریٹ جاری
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • پنجاب میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے نئے قوانین اور جرمانوں میں اضافہ
  • پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے
  • ملک بھر میں اسمارٹ میٹرنگ اصلاحات کا آغاز کردیا گیا
  • خیبرپختونخوا: انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست تیار,سر کی قیمت 3 کروڑ تک مقرر