ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئر پرسن اور ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ پاک امریکا حالیہ تعلقات میں جدت آئی ہے اور یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے اور یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حل بھی بن سکتا ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے نزدیک پاکستان خود ایک مسئلہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں امریکا پاکستان کے نیوکلیئر نظام کی حفاظت سے مطمئن

واضح رہے کہ حال ہی میں 2021 ایبی گیٹ حملے میں امریکا کو مطلوب ملزم شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا تو امریکی صدر نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ اس سے عالمی طور پر ایک ایسا منظر نامہ سامنے آیا جیسے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اور خاص طور پر دفاعی تعاون کے معاملے میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اسپوکس پرسن پاکستان کے انتخابی عمل اور پاکستان میں جمہوریت پر بھی تبصرے کرتے رہے جسے پاکستانی دفتر خارجہ نے مسترد کیا اوراس کے بعد پاکستان کے میزائل پروگرام پر عالمی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔

دوسری طرف پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ امریکا میں لابنگ کے ذریعے سے پاکستان کا منفی چہرہ سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن 6 مارچ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کیا جانا پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا اشارہ دیتا ہے۔

اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کی حوالگی (ایکسٹراڈیشن) کا کوئی معاہدہ تو نہیں لیکن امریکا اور افغانستان کے درمیان یہ معاہدہ ہے اور کابل ایبی گیٹ حملے کا ملزم داعش کا لیڈر شریف اللہ ایک افغان شہری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس بین الاقوامی قانون کے تحت شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کیا اس کے پیچھے سلامتی کونسل کی قراردادیں 1373 اور 1267 ہیں۔ پاکستان نے شریف اللہ کی حوالگی کے لیے دہشتگردی کے خلاف اقوام متحدہ کا فریم ورک استعمال کیا ہے جس کے مطابق ان قراردادوں پر دستخط کرنے والے ممالک بین الاقوامی طور پر قرار دیے گئے دہشتگردوں کو پناہ فراہم نہیں کر سکتے۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بنیادی طور پر دوحہ معاہدے میں یہ کہا گیا تھا افغان سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی تو اسی تناظر میں پاک امریکا فوجی تعاون آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریپبلیکن جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

پاکستان کے تحفظات کیا ہیں؟

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ امریکا نے جس طرح سے افغانستان سے انخلا کیا اور جدید امریکی ہتھیار جو وہاں رہ گئے وہ ٹھیک نہیں ہوا اور صدر ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں یہی بات کی۔ پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز نہ بنے اور ہم یہاں پاکستان کی سرزمین میں کسی دہشتگرد کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔

کیا پاک امریکا تعلق امریکا بھارت تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بھارت کا امریکا کے ساتھ تزویراتی معاہدہ ہے اور بھارت امریکا کا تزویراتی شراکت دار ہے۔ پاک امریکا دفاعی تعاون مضبوط ہونے سے بھارت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان جو ’بیکا کم کاسا ایس ٹی اے ون‘ جیسے معاہدے ہیں، ان معاہدوں کے تحت بھارت پر کچھ وضاحتیں لازم ہو گئی تھیں جو وہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت نہیں کرتا رہا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ بھارت سے کہے گی کہ وہ ’میک اِن انڈیا‘ تحت امریکا سے ٹیکنالوجی بھی خریدیں اور امریکی دفاعی صنعت کو وہ اسپیس بھی دیں جو ان معاہدوں کے تحت انہیں دینی تھی۔ یہ چیلنج بھارت کے لیے ضرور آئے گا۔

صدر ٹرمپ دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کثیرالجہتی کی بجائے دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ان کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ امریکا کی اندرونی سیاست کو دیکھتے ہیں تو صدر ٹرمپ کا فوکس یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ امریکا کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بطور صدر امریکا وہ نئی جنگوں کے لیے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کر سکتے تھے لیکن اس کے برعکس امریکا ماضی میں جہاں جہاں دوسرے ملکوں میں جنگوں میں ملوث رہا صدر ٹرمپ وہاں سے انخلا چاہتے ہیں، ماضی عراق، شام، پاکستان کے لوگوں سے جو وعدے کیے گئے تھے کہ جو کوئی امریکا یا سی آئی اے کو مدد فراہم کرے گا انہیں ویزے دیے جائیں گے تو امریکا نے اب وہ مراعات ختم کی ہیں۔

پاکستان کس طرح سے موجودہ صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا فوکس امریکا کی تجارت کو آگے لے کر جانا ہے اور اگر پاکستان کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدات ہوتے ہیں تو یہ پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے خوش آئند ہوگا۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ ہم امریکا میں اپنے کوٹہ بیسڈ سسٹم میں وسعت لے کر آئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں افغانستان کے اندر رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی بچوں کے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔

’ٹرمپ انتظامیہ سوشل انجینیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی‘

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے برخلاف ڈیموکریٹس سوشل انجینیئرنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر کے ممالک میں 700 ارب ڈالر سوشل انجینیئرنگ میں صرف کیے ہیں۔ ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی مفادات کو آگے لے کر جانا ہے تو اُس کے لیے ہمیں مختلف ممالک کے اندر مقامی سطح کی مزاحمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں سی آئی اے نے سوشل انجینیئرنگ کے حوالے سے اگر ایسے کام کیے ہیں تو یہ کسی ریاست کا کام نہیں ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر اُنہوں نے ایسے تمام تارکین وطن جو شام، عراق یا افغانستان میں امریکہ کے لیے کام کرتے رہے ہیں ان کے ویزوں پر پابندی لگائی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ امریکا آنا ہے تو تعلیم اور سرمایہ کاری کے لیے آئیں۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس سے قبل کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت کہا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے اندر امریکا کی شراکت داری کو بڑھانا ہے تو اُس کے لیے امریکا پاکستان کے اندر 22 شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ پیسے پاکستانی حکومت کو نہیں دیے جائیں گے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذریعے سے یہ پیسے یہاں مختلف افراد کو دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں امریکی قومی سلامتی مشیر کا اسحاق ڈار کو ٹیلیفون، دہشتگردی کے خلاف اقدامات پر صدر ٹرمپ کی جانب سے شکریہ

انہوں نے کہا کہ اسی کیری لوگر ایکٹ کے تحت جارج سورس کو فنڈنگ کی گئی جو یہاں لاہور میں رہتے بھی رہے اور اسی ایکٹ کے تحت پاکستان کو 36 ملین ڈالر دیے گئے جبکہ آپ کو ملے صرف 11 ملین ڈالر، 24 ملین ڈالر کا حساب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جب ایسے معاملات پر جواب طلبی کر رہے ہیں تو اس سے بہت ساری اور چیزیں بھی کھلیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغان دہشتگردی گرفتار امریکی صدر پاک امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان دہشتگردی گرفتار امریکی صدر پاک امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور پاکستان کا پاک امریکا سے پاکستان کہ پاکستان اور امریکا پاکستان کے امریکا کے شریف اللہ کہ امریکا کے درمیان ہے کہ پاک انہوں نے کے حوالے کے لیے ا کے اندر کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے ہے اور کے تحت ہیں تو

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے، اور دونوں ممالک نے چین کے تعاون سے باہمی تجارت کو فروغ دینے اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سفارتی پیشرفت کے بعد نہ صرف سیاسی تعلقات میں بہتری آئی ہے، بلکہ سرحدی تجارتی سرگرمیوں میں بھی واضح بہتری دیکھی جا رہی ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر مال بردار گاڑیاں بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ پاکستانی حکام نے طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں پر سہولیات کی فراہمی کے لیے نئے اقدامات کیے ہیں۔

سفارتی کوششوں کے مثبت اثرات

پاک افغان امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق، پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق خان کی کوششوں اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہوئی ہے۔ ان سفارتی کوششوں میں چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو وسعت دینے میں معاونت کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک افغان طورخم بارڈر سے تجارتی سرگرمیاں بحال

تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تجارت کو وسعت دے کر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کی جائے، اور سی پیک روٹ کو افغانستان تک بڑھایا جائے۔

طورخم میں تجارت کا نیا منظرنامہ

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں واقع اہم گزرگاہ طورخم بارڈر پر تجارتی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت میں حائل رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں اور ڈرائیوروں کو خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا رہے ہیں، جس سے تجارت میں روانی پیدا ہوئی ہے۔

طورخم پر تعینات ایک افسر نے بتایا کہ حکومت پاکستان افغان تجارت کو سہل بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نمائندہ خصوصی محمد صادق نے طورخم کا دورہ کیا اور افغان تاجروں سے ملاقات کر کے ان کے مسائل سنے، جس کے بعد واضح بہتری دیکھنے میں آئی۔

روزانہ 300 سے زائد گاڑیاں افغانستان میں داخل

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں طورخم بارڈر سے روزانہ 300 سے زائد مال بردار گاڑیاں افغانستان میں داخل ہو رہی ہیں، جبکہ قریباً اتنی ہی تعداد میں گاڑیاں افغانستان سے واپس پاکستان آتی ہیں۔ ان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز، درآمدی مال اور خالی گاڑیاں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:25 دنوں سے بند پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا، تجارتی سرگرمیاں بحال

گزشتہ روز کے ریکارڈ کے مطابق 369 گاڑیاں افغانستان میں داخل ہوئیں، جن میں 34 افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، 288 درآمدات اور 13 دیگر اشیا شامل تھیں، جبکہ 164 خالی گاڑیاں افغانستان سے واپس آئیں۔ یہ اعداد و شمار تعلقات کی بہتری کے بعد تجارت میں واضح اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

کرم میں خرلاچی بارڈر دوبارہ کھول دیا گیا

دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو مزید آسان بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے قبائلی ضلع کرم میں واقع خرلاچی بارڈر کو بھی تجارت کے لیے کھول دیا ہے۔ اس موقع پر ’پاک افغان دوستی اسپتال‘ کا بھی افتتاح کیا گیا، جس میں جدید طبی سہولیات بشمول لیبارٹری، فارمیسی، بلڈ پریشر، شوگر اور امراضِ قلب کی ابتدائی تشخیص کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ اسپتال سرحدی علاقوں کے مکینوں اور افغان شہریوں کے لیے اہم طبی مرکز ثابت ہوگا۔

تجارت کو 3 گنا بڑھانے پر اتفاق

افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے حالیہ دنوں کابل میں چین کے خصوصی نمائندے یو شیاؤیونگ اور پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ہمراہ وفود سے ملاقات کی، جس میں سی پیک کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔

چین میں ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں تینوں ممالک نے تجارت کو 3 گنا بڑھانے، روٹ کو خیبر پختونخوا کے 7 اضلاع سے گزارنے، اور افغانستان میں نئی راہداریوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کی۔

مزید پڑھیں: طورخم بارڈر پر کسٹم عملے نے کام روک دیا، وجہ کیا ہے؟

ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورے کے دوران اس حوالے سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی، اور پاکستان سے تاجکستان و دیگر وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی راستے بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔

پاک افغان تجارت کا نیا دور

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہاب یوسفزئی کے مطابق، پاکستان اور افغانستان ایک نئے تجارتی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اب تجارت کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور پاکستان بھی ویزا پالیسی اور بارڈر مینجمنٹ میں نرمی لا کر افغان شہریوں کو سہولیات دے رہا ہے۔

شہاب یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کو اب یہ سمجھ آ گیا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کے ساتھ تجارت زیادہ مفید ہے، اور بھارت کے ساتھ براہ راست تجارت فی الحال ان کے لیے ممکن یا سودمند نہیں۔

پاکستان افغانستان سے کیا درآمد و برآمد کرتا ہے؟

پاکستان، افغانستان کے لیے ایک اہم تجارتی روٹ ہے۔ پاکستان سے افغانستان سیمنٹ، سریا، ادویات، سبزیاں، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ برآمد کی جاتی ہیں، جبکہ افغانستان سے پاکستان کو پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات درآمد کیے جاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تعلقات پاکستان چائنا سی پیک طورخم بارڈر

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا نیا مرحلہ لندن میں شروع
  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • وزیراعظم کاعمان کے سلطان کو فون، عید کی مبارکباد اور دورہ پاکستان کی دعوت دی
  • وزیراعظم کا عمان کے سلطان کو فون، دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور
  • آلائشوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • چین امریکا تجارتی مذاکرات پیر کو لندن میں ہوں گے