پاک امریکا تعلقات میں نیا موڑ آیا ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئر پرسن اور ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ پاک امریکا حالیہ تعلقات میں جدت آئی ہے اور یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے اور یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کا شکریہ ادا کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان مسئلے کا حل بھی بن سکتا ہے جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے نزدیک پاکستان خود ایک مسئلہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں امریکا پاکستان کے نیوکلیئر نظام کی حفاظت سے مطمئن
واضح رہے کہ حال ہی میں 2021 ایبی گیٹ حملے میں امریکا کو مطلوب ملزم شریف اللہ عرف جعفر کو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا تو امریکی صدر نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ اس سے عالمی طور پر ایک ایسا منظر نامہ سامنے آیا جیسے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اور خاص طور پر دفاعی تعاون کے معاملے میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اسپوکس پرسن پاکستان کے انتخابی عمل اور پاکستان میں جمہوریت پر بھی تبصرے کرتے رہے جسے پاکستانی دفتر خارجہ نے مسترد کیا اوراس کے بعد پاکستان کے میزائل پروگرام پر عالمی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔
دوسری طرف پاکستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ امریکا میں لابنگ کے ذریعے سے پاکستان کا منفی چہرہ سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن 6 مارچ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کیا جانا پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا اشارہ دیتا ہے۔
اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کی حوالگی (ایکسٹراڈیشن) کا کوئی معاہدہ تو نہیں لیکن امریکا اور افغانستان کے درمیان یہ معاہدہ ہے اور کابل ایبی گیٹ حملے کا ملزم داعش کا لیڈر شریف اللہ ایک افغان شہری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس بین الاقوامی قانون کے تحت شریف اللہ کو امریکا کے حوالے کیا اس کے پیچھے سلامتی کونسل کی قراردادیں 1373 اور 1267 ہیں۔ پاکستان نے شریف اللہ کی حوالگی کے لیے دہشتگردی کے خلاف اقوام متحدہ کا فریم ورک استعمال کیا ہے جس کے مطابق ان قراردادوں پر دستخط کرنے والے ممالک بین الاقوامی طور پر قرار دیے گئے دہشتگردوں کو پناہ فراہم نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بنیادی طور پر دوحہ معاہدے میں یہ کہا گیا تھا افغان سرزمین دوسرے ملکوں کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی تو اسی تناظر میں پاک امریکا فوجی تعاون آگے بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریپبلیکن جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کے تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
پاکستان کے تحفظات کیا ہیں؟ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہی رہا ہے کہ امریکا نے جس طرح سے افغانستان سے انخلا کیا اور جدید امریکی ہتھیار جو وہاں رہ گئے وہ ٹھیک نہیں ہوا اور صدر ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں یہی بات کی۔ پاکستان یہی چاہتا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز نہ بنے اور ہم یہاں پاکستان کی سرزمین میں کسی دہشتگرد کو پناہ دینے کو تیار نہیں۔
کیا پاک امریکا تعلق امریکا بھارت تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ بھارت کا امریکا کے ساتھ تزویراتی معاہدہ ہے اور بھارت امریکا کا تزویراتی شراکت دار ہے۔ پاک امریکا دفاعی تعاون مضبوط ہونے سے بھارت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت اور امریکا کے درمیان جو ’بیکا کم کاسا ایس ٹی اے ون‘ جیسے معاہدے ہیں، ان معاہدوں کے تحت بھارت پر کچھ وضاحتیں لازم ہو گئی تھیں جو وہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت نہیں کرتا رہا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ بھارت سے کہے گی کہ وہ ’میک اِن انڈیا‘ تحت امریکا سے ٹیکنالوجی بھی خریدیں اور امریکی دفاعی صنعت کو وہ اسپیس بھی دیں جو ان معاہدوں کے تحت انہیں دینی تھی۔ یہ چیلنج بھارت کے لیے ضرور آئے گا۔
صدر ٹرمپ دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیںڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کثیرالجہتی کی بجائے دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ان کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ امریکا کی اندرونی سیاست کو دیکھتے ہیں تو صدر ٹرمپ کا فوکس یہی نظر آ رہا ہے کہ وہ امریکا کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بطور صدر امریکا وہ نئی جنگوں کے لیے اپنے صدارتی اختیارات استعمال کر سکتے تھے لیکن اس کے برعکس امریکا ماضی میں جہاں جہاں دوسرے ملکوں میں جنگوں میں ملوث رہا صدر ٹرمپ وہاں سے انخلا چاہتے ہیں، ماضی عراق، شام، پاکستان کے لوگوں سے جو وعدے کیے گئے تھے کہ جو کوئی امریکا یا سی آئی اے کو مدد فراہم کرے گا انہیں ویزے دیے جائیں گے تو امریکا نے اب وہ مراعات ختم کی ہیں۔
پاکستان کس طرح سے موجودہ صورتحال سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا فوکس امریکا کی تجارت کو آگے لے کر جانا ہے اور اگر پاکستان کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدات ہوتے ہیں تو یہ پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے خوش آئند ہوگا۔ ہمارے لیے چیلنج یہ ہو گا کہ ہم امریکا میں اپنے کوٹہ بیسڈ سسٹم میں وسعت لے کر آئیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں افغانستان کے اندر رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی بچوں کے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔
’ٹرمپ انتظامیہ سوشل انجینیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی‘ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے برخلاف ڈیموکریٹس سوشل انجینیئرنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے دنیا بھر کے ممالک میں 700 ارب ڈالر سوشل انجینیئرنگ میں صرف کیے ہیں۔ ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی مفادات کو آگے لے کر جانا ہے تو اُس کے لیے ہمیں مختلف ممالک کے اندر مقامی سطح کی مزاحمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں سی آئی اے نے سوشل انجینیئرنگ کے حوالے سے اگر ایسے کام کیے ہیں تو یہ کسی ریاست کا کام نہیں ہے۔ پہلے اقدام کے طور پر اُنہوں نے ایسے تمام تارکین وطن جو شام، عراق یا افغانستان میں امریکہ کے لیے کام کرتے رہے ہیں ان کے ویزوں پر پابندی لگائی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ امریکا آنا ہے تو تعلیم اور سرمایہ کاری کے لیے آئیں۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس سے قبل کیری لوگر برمن ایکٹ کے تحت کہا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے اندر امریکا کی شراکت داری کو بڑھانا ہے تو اُس کے لیے امریکا پاکستان کے اندر 22 شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ پیسے پاکستانی حکومت کو نہیں دیے جائیں گے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذریعے سے یہ پیسے یہاں مختلف افراد کو دیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں امریکی قومی سلامتی مشیر کا اسحاق ڈار کو ٹیلیفون، دہشتگردی کے خلاف اقدامات پر صدر ٹرمپ کی جانب سے شکریہ
انہوں نے کہا کہ اسی کیری لوگر ایکٹ کے تحت جارج سورس کو فنڈنگ کی گئی جو یہاں لاہور میں رہتے بھی رہے اور اسی ایکٹ کے تحت پاکستان کو 36 ملین ڈالر دیے گئے جبکہ آپ کو ملے صرف 11 ملین ڈالر، 24 ملین ڈالر کا حساب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جب ایسے معاملات پر جواب طلبی کر رہے ہیں تو اس سے بہت ساری اور چیزیں بھی کھلیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان دہشتگردی گرفتار امریکی صدر پاک امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان دہشتگردی گرفتار امریکی صدر پاک امریکا تعلقات ڈونلڈ ٹرمپ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان وی نیوز ٹرمپ انتظامیہ پاکستان اور پاکستان کا پاک امریکا سے پاکستان کہ پاکستان اور امریکا پاکستان کے امریکا کے شریف اللہ کہ امریکا کے درمیان ہے کہ پاک انہوں نے کے حوالے کے لیے ا کے اندر کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے ہے اور کے تحت ہیں تو
پڑھیں:
کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔
کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔
اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔
کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔
اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔
کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔
اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔
نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔
2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔
سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔
ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔
بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔
عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔
آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟