رمضان میں پرسکون رہنا ہے تو ان غذائی عادتوں کو چھوڑنا ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ماہ رمضان میں روزے داروں کو اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور کچھ بری غذائی عادات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ غذائی ماہرین کی ہدایات کے مطابق ان عادات سے پرہیز کرنا ضروری ہے:
عین سحری کے وقت (خاص طور پر آخری وقت) بہت زیادہ پانی پینے سے گردوں پر بوجھ پڑتا ہے اور جسم میں نمکیات کا توازن بگڑ سکتا ہے۔
روغنی کھانوں کا بے دریغ استعمال:
تلی ہوئی اور چکنائی والی غذائیں کھانے سے معدے میں تیزابیت اور بدہضمی ہو سکتی ہے۔
افطار میں ٹھنڈا پانی پینا:
روزہ کھولنے کے فوراً بعد بہت ٹھنڈا پانی پینے سے معدے میں تکلیف ہو سکتی ہے۔
افطار کے فوراً بعد میٹھی اشیا کھانا:
میٹھی اشیا کھانے سے خون میں شکر کی مقدار تیزی سے بڑھتی ہے اور پھر کم ہو جاتی ہے، جس سے کمزوری محسوس ہو سکتی ہے۔
مسالوں اور نمک کا زیادہ استعمال:
زیادہ مسالے اور نمک کھانے سے پیاس زیادہ لگتی ہے اور بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔
چکنائی سے بھرپور غذائیں:
چکنائی والی غذائیں کھانے سے وزن بڑھ سکتا ہے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
گیس والے مشروبات پینا:
گیس والے مشروبات پینے سے معدے میں گیس اور بدہضمی ہو سکتی ہے۔
سخت ورزش:
روزے کے دوران سخت ورزش کرنے سے جسم میں پانی کی کمی ہو سکتی ہے۔
صحت مند غذائی عادات جو اختیار کرنی چاہییں:
سحری میں ہلکی اور متوازن غذا کھائیں۔
افطار میں کھجور اور پانی سے روزہ کھولیں۔
افطار اور سحری کے درمیان مناسب مقدار میں پانی پیجیے۔
پھل، سبزیاں اور فائبر سے بھرپور غذائیں کھائیں۔
تلی ہوئی اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔
ہلکی ورزش کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہو سکتی ہے کھانے سے ہے اور
پڑھیں:
سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے، اسٹیٹ بینک
کراچی:حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کی معیشت کوقلیل مدتی طور پر متاثرکیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتارسست ہو سکتی ہے،جبکہ افراط زر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک نے پالیسی شرح سود کو 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب کے باوجود پاکستان کی معیشت گزشتہ بڑے سیلابوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مضبوط ہے۔
قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اورکرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال مستحکم رہی ہے۔ علاوہ ازیں امریکاکی جانب سے درآمدی محصولات میں ترمیم نے عالمی تجارتی بے یقینی میں کمی لائی ہے، جو پاکستان کیلیے مثبت پیش رفت ہے۔
سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق خریف کی فصل کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے، جس سے تجارتی خسارے میں اضافے کاامکان ظاہرکیاجا رہا ہے۔
اگرچہ امریکاسے بہتر مارکیٹ رسائی کی بدولت اس نقصان کاکچھ حد تک ازالہ متوقع ہے،تاہم زرعی اور صنعتی شعبوں کے ساتھ ساتھ خدمات کا شعبہ بھی متاثر ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ مالی سال 26-2025 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.25 فیصد سے 4.25 فیصدکی نچلی حدکے قریب رہنے کاامکان ہے۔
اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصدکے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سیلاب کے بعد ترسیلات زر میں اضافے کی امیدکی جا رہی ہے،جبکہ منصوبے کے مطابق اگر سرکاری آمدن مقررہ وقت پر موصول ہوگئی تو دسمبر 2025 تک زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
حکومتی اخراجات میں اضافے اور محصولات میں ممکنہ سست روی کے باعث مالی گنجائش محدود ہونے کاخدشہ ہے۔
اسٹیٹ بینک نے زور دیا ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینااور خسارے میں چلنے والے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔
دوسری جانب، سیلاب کے باوجود نجی شعبے میں قرضوں کی طلب میں موجودہ رفتار برقرار رہنے کی توقع ہے۔
مہنگائی کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کاکہنا ہے کہ جولائی 2025 میں افراط زر 4.1 فیصد جبکہ اگست میں 3 فیصد رہی، تاہم سیلاب کے بعدخوراک کی قیمتوں کے حوالے سے غیر یقینی میں اضافہ ہوگیاہے،رواں مالی سال میں مہنگائی 5 سے 7 فیصدکے ہدف سے تجاوزکر سکتی ہے۔