کلاؤڈ برسٹ (بادل کا پھٹنا) کیا ہے اور ایسا گلگت بلتستان میں بار بار کیوں ہو رہا؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
گلگت بلتستان(نیوز ڈیسک) گلگت بلتستان کے علاقے سکردو اور ملک کے دیگر بالائی علاقوں میں بار بار ہونے والے ’کلاؤڈ برسٹ‘ نے تباہی مچا رکھی ہے۔ لیکن جو پہلے اس تواتر سے نہ ہوا وہ اب کیوں ہو رہا ہے؟ آئیے اسے سمجھتے ہیں۔
”کلاؤڈ برسٹ“، یا بادل کا پھٹ جانا، ایک ایسا قدرتی واقعہ ہے جسے سن کر ایسا لگتا ہے جیسے آسمان پھٹ پرا ہو۔ لیکن یہ ایک مختصر وقت میں ہونے والی بہت زیادہ بارش ہوتی ہے، جو عام طور پر کسی ایک مخصوص علاقے تک محدود رہتی ہے۔ ذرا تصور کریں، آپ باہر کھیل رہے ہوں اور ایک لمحے میں آسمان سے ایسا پانی برسے جیسے ہزاروں بالٹیاں ایک ساتھ انڈیلی جا رہی ہوں—یہی کلاؤڈ برسٹ ہے۔ خاص طور پر اگر ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر سے زیادہ بارش صرف 10 کلومیٹر کے علاقے میں ہو، تو سائنسدان اسے کلاؤڈ برسٹ کہتے ہیں۔
یہ عجیب و غریب بارش زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب گرم ہوا پہاڑ سے اوپر جاتی ہے تو وہ ٹھنڈی ہو کر بارش برسانے لگتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار وہ بارش رُک جاتی ہے اور ہوا میں ہی جمع ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اچانک وہ تمام پانی ایک دھماکے کی طرح زمین پر گرتا ہے۔
یہ نہ صرف حیرت انگیز ہوتا ہے بلکہ خطرناک بھی! پہاڑوں میں جب ایسا ہوتا ہے تو پانی تیزی سے نیچے بہتا ہے، نالوں میں آ جاتا ہے، اور ساتھ میں لینڈ سلائیڈ یا مٹی کے تودے بھی آ سکتے ہیں۔ شہروں میں یہ پانی گلیوں کو ندی میں بدل دیتا ہے اور لوگ پریشان ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے ہو گیا۔
کلاؤڈ برسٹ کے ساتھ اکثر بجلی کی چمک، زور دار آوازیں، تیز ہوائیں اور کبھی کبھار اولے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ایسے خطرناک موسمی واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ جب زمین یا سمندر زیادہ گرم ہو جاتے ہیں، تو پانی زیادہ بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، آسمان میں بڑے اور گہرے بادل بنتے ہیں، جو پھر اچانک برس پڑتے ہیں۔ اور جب پہاڑوں میں بغیر منصوبہ بندی کے سڑکیں، ہوٹل، یا کالونیاں بنائی جائیں اور درخت کاٹ دیے جائیں، تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایسے وقت میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیں۔ محکمہ موسمیات یا مقامی انتظامیہ کی بات سنیں، اگر خطرے کی وارننگ دی جائے تو فوراً کسی اونچی جگہ چلے جائیں۔
یاد رہے، کلاؤڈ برسٹ کو روکنا ہمارے ہاتھ میں نہیں، لیکن تھوڑی سی سمجھداری اور احتیاط سے ہم اپنی جان اور دوسروں کی حفاظت ضرور کر سکتے ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کلاؤڈ برسٹ
پڑھیں:
دیامر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری، نظامِ زندگی مفلوج
گلگت بلتستان کا ضلع دیامر شدید سیلاب کی لپیٹ میں آگیا ہے، جہاں مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ چلاس کے علاقوں تھور، نیاٹ اور تھک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تھور میں سیلاب کے باعث ایک مسجد شہید ہو گئی، رابطہ پل بہہ گیا اور پانی واپڈا کالونی میں داخل ہو چکا ہے۔
ترجمان حکومت گلگت بلتستان فیض اللّہ فراق کے مطابق تھک میں صورتحال مزید سنگین ہے جہاں سیلابی ریلوں نے کم و بیش 50 مکانات بہا دیے، متعدد علاقے جھل تھل کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اسی علاقے میں ایک خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جن میں ایک مقامی باشندہ شامل ہے جبکہ باقی 4 کا تعلق دیگر صوبوں سے بتایا گیا ہے۔ مزید 4 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 15 سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔ سیلابی ریلے میں تقریباً 15 گاڑیاں بھی بہہ گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان، شاہراہ تھک بابوسر پر سیلابی ریلے کی تباہ کاریاں، 3 سیاح جاں بحق، 15 سے زائد لاپتا
شاہراہ بابوسر پر ایک گرلز اسکول، 2 ہوٹل، ایک پن چکی، گندم ڈپو، پولیس چوکی اور ٹورسٹ پولیس شلٹر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ سیلاب سے شاہراہ سے متصل 50 سے زائد مکانات ملیا میٹ ہوچکے ہیں، 8 کلومیٹر سڑک شدید متاثر ہے اور کم از کم 15 مقامات پر روڈ بلاک ہوچکی ہے۔ تھک بابوسر میں 4 اہم رابطہ پل بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
???? دنیور، گلگت بلتستان_
سیلاب نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے
دنیور میں سیلاب گھروں میں داخل ہو گیا!
گلگت شہر اور گردونواح میں سیلابی خطرہ
گلگت کے نواحی علاقوں دنیور اور ملحقہ دیہی گاؤں میں گزرنے والی ندیوں میں اچانک پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے، اور کئی مقامات پر سیلاب کی… pic.twitter.com/Q1kVyrMm9i
— Gilgit Baltistan Tourism. (@GBTourism_) July 22, 2025
سیلاب سے نہ صرف رہائشی املاک متاثر ہوئی ہیں بلکہ ہزاروں فٹ عمارتی لکڑی بھی پانی میں بہہ گئی ہے، جبکہ 2 مساجد بھی شہید ہوچکی ہیں۔ تھک بابوسر میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے جس کے باعث کئی سیاحوں کا اپنے خاندانوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ لاپتا سیاحوں کی تلاش کا عمل جاری ہے، جبکہ اب تک 200 سے زائد سیاحوں کو ریسکیو کرکے چلاس پہنچایا گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے اہلخانہ سے دوبارہ رابطے میں آچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دیامر: ’حقوق دو ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز، مظاہرین نے قرآن پاک پر حلف کیوں اٹھایا؟
متاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت دیامر کی جانب سے میڈیکل کیمپ قائم کر دیا گیا ہے اور چلاس جلکھڈ روڈ کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔ تتا پانی اور لال پڑی سمیت دیگر مقامات پر قراقرم ہائی وے کو چھوٹی گاڑیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کو ممکن بنایا جاسکے۔ تاہم بابوسر روڈ پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور تمام تر ٹریفک معطل کردی گئی ہے۔
#سیلاب
ترجمان حکومت #گلگت_بلتستان فیض اللہ فراق کے مطابق ضلع دیامر چلاس شہر کے گردو نواح میں شدید بارشوں کے باعث ندی نالوں میں طغیانی اور واپڈا کالونی زیر آب گئی ہے، جہاں کئی افراد موجود ہیں۔
ترجمان کے مطابق چھوٹی گاڑیوں کے لیے شاہراہِ قراقرم کھول دی گئی، تاہم بابوسر کا راستہ… pic.twitter.com/MGD5SZxw2z
— Abdul Jabbar Nasir (عبدالجبارناصر) (@ajnasir) July 22, 2025
ڈپٹی کمشنر دیامر عطا الرحمٰان کاکڑ نے بتایا کہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرے گا، اور عوام کو کسی بھی ایمرجنسی میں فوری مدد کے لیے فراہم کردہ نمبرز پر رابطے کی ہدایت کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news تھک بابو سر چلاس دیامر سیلاب گلگت بلتستان