یوکرین روس کے ساتھ تیس روزہ جنگ بندی کے لیے تیار
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ روس کو "مثبت" تجویز سے اتفاق کرنے پر راضی کرے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ وہ روس کو پیشکش کریں گے اور یہ کہ "گیند ان کے کورٹ میں ہے"۔
اوول آفس میں زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان غیر معمولی جھڑپ کے بعد جدہ میں منگل کی بات چیت دونوں ممالک کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔
یوکرین کی جزوی جنگ بندی کی تجویز'امید افزا'، امریکہ
امریکہ-یوکرین مشترکہ بیان میں، امریکہ نے یہ بھی کہا کہ وہ یوکرین کو فوری طور پر انٹیلی جنس شیئرنگ اور سکیورٹی امداد دوبارہ شروع کر دے گا، جسے واشنگٹن نے گزشتہ ماہ کے ناخوشگوار واقعے کے بعد معطل کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
امریکہ: یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے کا حکم جاری
بیان میں کہا گیا ہے، "دونوں وفود نے اپنی مذاکراتی ٹیموں کو نامزد کرنے اور ایک پائیدار امن کے لیے فوری طور پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا جو یوکرین کی طویل مدتی سلامتی کو فراہم کرتا ہے"۔
روبیو نے منگل کو دیر گئے جدہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ روس اس تجویز کو قبول کر لے گا۔
روس سے مثبت جواب کی امید، روبیوروبیو نے کہا کہ یوکرین "حملے بند کرنے اور بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے" اور اگر روس نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تو "ہمیں بدقسمتی سے معلوم ہو جائے گا کہ امن کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے"۔
انہوں نے کہا، "آج ہم نے ایک پیشکش کی جسے یوکرینیوں نے قبول کر لیا ہے، جس سے جنگ بندی اور فوری مذاکرات میں داخل ہونے کا راستہ کھل گیا ہے"۔
زیلنسکی کا یورپ کے ساتھ امن معاہدے کی شرائط طے کرنے کا اعلان
انہوں نے مزید کہا، "ہم اس پیشکش کو اب روسیوں کے پاس لے جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ وہ امن کے لیے ہاں میں جواب دیں گے۔
گیند اب ان کے کورٹ میں ہے۔"ایک ویڈیو پیغام میں زیلنسکی نے کہا کہ روس کو "جنگ روکنے یا جنگ جاری رکھنے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کرنی ہو گی"۔ انہوں نے مزید کہا،" یہ مکمل سچائی کے ساتھ سامنے آنے کا وقت ہے۔"
خیال رہے کہ روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا۔ اور ماسکو اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔
ٹرمپ نے کیا کہا؟وائٹ ہاؤس میں، صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ صدر پوٹن سے بات کریں گے، جو "امید ہے" اس تجویز سے اتفاق کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں اس معاہدے پر اتفاق ہو جائے گا۔
ٹرمپ نے کہا، "ہم جلد ہی روس کے ساتھ ایک بڑی ملاقات کر رہے ہیں، اور امید ہے کہ کچھ اچھی بات چیت ہو گی۔
"انہوں نے مزید کہا کہ وہ زیلینسکی کو واشنگٹن واپس بلانے کے لیے تیار ہیں۔
ایک نامہ نگار کے پوچھنے پر کہ کیا ٹرمپ اور زیلنسکی کے تعلقات "پٹری پر واپس آ گئے ہیں"، روبیو نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ "امن" ہے جو واپس ٹریک پر آ گیا ہے۔
روس کے ردعمل کا انتظارماسکو نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
کریملن نے پہلے منگل کو کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے نتائج کے بارے میں واشنگٹن کی طرف سے بریفنگ کے بعد ایک بیان جاری کرے گا۔روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ روس نے آئندہ چند دنوں میں امریکی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کو مسترد نہیں کیا ہے۔
جدہ میں امریکی وفد میں شامل مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف اگلے چند دنوں میں روس کا سفر کرنے والے ہیں۔
خیال رہے کہ جمعہ کے روز، ٹرمپ نے امن معاہدے کے لیے روس پر دباؤ ڈالنے کے خاطر ماسکو کے خلاف مزید پابندیوں کی غیر معمولی دھمکی جاری کی۔ امریکہ کی طرف سے روس پر پہلے ہی جنگ کی وجہ سے سخت پابندیاں عائد ہیں۔
عالمی رہنماؤں کا ردعملعالمی رہنماؤں نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی ایک 'اہم موڑ' ہو سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا، "سعودی عرب میں امریکہ اور یوکرینی حکام کی طرف سے تیار کردہ جنگ بندی کا منصوبہ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔" انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "جرمنی، اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر، یوکرین کے عوام کی اس راستے پر مزید مدد کرے گا۔"
انہوں نے مزید کہا، "اب یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی جارحیت کو ختم کرے۔
"فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے روس کے ساتھ جنگ میں ممکنہ جنگ بندی پر یوکرین اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات میں ہونے والی 'پیش رفت‘ کا خیرمقدم کیا۔
برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر نے بھی اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اسے "قابل ذکر پیش رفت" قرار دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیر لائن اور یورپی کونسل کے سربراہ انتونیو کوسٹا نے ایکس پر لکھا، "یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو یوکرین کے لیے ایک جامع، منصفانہ اور دیرپا امن کی طرف ایک قدم ثابت ہو سکتی ہے۔"
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے اسے امن کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "یورپ ایک منصفانہ اور دیرپا امن تک پہنچنے میں مدد کے لیے تیار ہے۔
" حملے اب بھی جاریروس اور یوکرین کے درمیان منگل کو بھی جنگ جاری رہی۔
ماسکو کے علاقے میں تین افراد مارے گئے جسے جنگ کے آغاز کے بعد سے روسی دارالحکومت پر ہونے والا سب سے بڑا ڈرون حملہ قرار دیا گیا۔ وزارت صحت کے حکام نے روسی میڈیا کو بتایا کہ مزید 18 افراد زخمی ہوئے جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ روس میں 337 ڈرونز کو ناکام بنادیا گیا اور ان میں سے 91 کو ماسکو کے علاقے میں مار گرایا گیا۔
یوکرینی حکام نے دارالحکومت کییف اور کئی دیگر علاقوں پر روسی ڈرون حملوں کی اطلاع دی ہے۔ یوکرین کی فضائیہ نے کہا کہ اس نے روس کی طرف سے لانچ کیے گئے 126 ڈرونز میں سے 79 کو مار گرایا ہے اور ساتھ ہی اسکندر ایم بیلسٹک میزائل کو بھی مار گرایا ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے مزید کہا کے لیے تیار امید ہے کہ کے درمیان یوکرین کے نے کہا کہ کی طرف سے روبیو نے بات چیت کے ساتھ پیش رفت روس کے کہ روس کے بعد
پڑھیں:
روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے طاقتور حملہ، 5 ہلاکتیں اور 20 زخمی
روس نے یوکرین کے مختلف شہروں پر میزائلوں، ڈرونز اور بموں سے اب تک کے سب سے شدید حملے کیے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق رات بھر جاری رہنے والے حملوں میں روس نے 215 میزائل اور ڈرونز یوکرین پر داغے۔
یوکرینی دفاعی نظام نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 87 ڈرونز اور 7 میزائلوں کو فضا میں تباہ کرکے ناکارہ بنا دیا۔
یوکرین کے شہر خارکیف کے میئر نے بتایا کہ شہر پر حملہ روس کی جانب سے 2022 میں شروع کی گئی مکمل جنگ کے بعد سے اب تک کا سب سے طاقتور حملہ تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خارکیف پر 48 ایرانی ساختہ ڈرونز، دو میزائل اور چار گائیڈڈ بم فائر کیے گئے۔
خیال رہے کہ یوکرین کا شہر خارکیف، روسی سرحد سے صرف 50 کلومیٹر دور واقع ہے اور گزشتہ شب حملے کا مرکز رہا۔
روس کے یوکرین پر ان حملوں میں رہائشی عمارتیں اور دیگر شہری انفرا اسٹریکچر بری طرح متاثر ہوئے جب کہ 5 ہلاکتیں ہوئیں اور 25 زخمی بھی ہوئے۔
روس نے ان حملوں کو یوکرین کے دہشت گردانہ اقدامات کا جواب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب پچھلے ہفتے یوکرین نے ڈرون حملوں میں روس کے حساس عسکری ہوائی اڈوں پر نیوکلیئر صلاحیت والے طیاروں کو نقصان پہنچایا تھا۔
جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ان حملوں کا سخت جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔
یوکرین نے جنگ بندی کے لیے 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز دی ہے جس پر بات چیت پیر کے روز استنبول میں ہوئی تھئی۔
تاہم روس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ مسئلہ ملک کی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہمارے قومی مفاد، سلامتی اور مستقبل کا معاملہ ہے۔
صدر پیوٹن نے یوکرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چار متنازع علاقوں سے دستبردار ہو، نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرے اور مغربی فوجی تعاون کو ختم کرے۔
تاہم یوکرینی صدر نے ان تجاویز کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اس کے برعکس تین طرفہ سربراہی اجلاس کی تجویز دی جس میں وہ پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہوں۔
تاہم اس پر بھی روس کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا گیا۔