مسلسل ہارنے والے ٹیم کو دوبارہ موقع ملنے پر احمد شہزاد شدید برہم
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
پشاور:
قومی کرکٹر احمد شہزاد نے کہا ہے کہ جو ٹیم مسلسل ہار رہی تھی وہی اب نیوزی لینڈ بھیج دی گئی ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں احمد شہزاد نے کہا کہ غلط سلیکشن کی وجہ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی میں شکست ہوئی، ٹیم اگلے راؤنڈ میں کوالیفائی ہی نہیں کر پائی، باقی ٹیمیں چار چار اسپنرز ساتھ لائی تھیں اور ہمارے پاس صرف ایک اسپنر تھا۔
احمد شہزاد نے کہا کہ بار بار ہارنے کے باوجود وہی ٹیم برقرار ہے، اب انہی کھلاڑیوں کو دوبارہ دوسرے فارمیٹ میں موقع دیا جا رہا ہے، ایک فارمیٹ میں پرفارمنس دے کر یہی کھلاڑی دوبارہ ٹیم میں آ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم میں تبدیلی نہ لانے کی ضد کی جا رہی ہے۔ یہ وہی کھلاڑی ہیں جو سات آٹھ مرتبہ ناکام ہو کر بھی ٹیم میں شامل کیے جا رہے ہیں۔ یہی ٹیم اب دورہ نیوزی لینڈ پر بھی جا رہی ہے، جو سات آٹھ سالوں سے کھیل رہے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں نوجوانوں کو میرٹ پر مواقع دیے جائیں۔
احمد شہزاد نے کہا کہ بار بار شکست کے باوجود وہی سلیکشن کمیٹی، وہی کوچنگ اسٹاف برقرار ہے۔ سب کی جوابدہی ہونی چاہیے۔ تجربے کی کمی کے باعث انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کرکٹ ٹیم کا حال بھی ہاکی ٹیم جیسا ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھارت کی ٹیم پاکستان کے قریب آنے سے بھی گھبراتی تھی، لیکن اب وہی بھارت ہمیں آرام سے شکست دے دیتا ہے کیونکہ بھارت کی ٹیم میں کسی کے بچے، بھانجے، بھتیجے شامل نہیں کیے جاتے، بلکہ ٹیم مکمل طور پر میرٹ پر سلیکٹ کی جاتی ہے۔
احمد شہزاد نے کہا کہ پاکستان میں نیپوٹزم بڑھ چکا ہے۔ ہماری ٹیم میں کئی کھلاڑی سفارش پر شامل کیے گئے ہیں۔ اگر اوپر لیول پر یہی حال ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں کیا ہو رہا ہوگا؟، جب تک نظام درست نہیں کیا جائے گا، پرفارمنس میں بہتری نہیں آئے گی۔
احمد شہزاد نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں کچھ لوگ گزشتہ دس بارہ سالوں سے موجود ہیں، لیکن ناکامی کے باوجود انہیں تبدیل نہیں کیا جا رہا۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کے پاس دو سے تین اہم عہدے موجود ہیں، ایک ساتھ تمام چیزوں کو مینیج نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سال سے کوشش کی جا رہی ہے لیکن کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی سی بی نے آتے ہی بابر اعظم کو دوبارہ کپتان مقرر کیا، لیکن وہ ناکام ثابت ہوئے۔ کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہو رہی، ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ٹیم سپر مین کوالیفائی نہیں کر سکی، آئی سی سی ایونٹ میں ٹیم کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔
قبل ازیں احمد شہزاد نے الخدمت فاؤنڈیشن کے ادارہ آغوش میں اپنی فلاحی تنظیم "احمد شہزاد فاؤنڈیشن" کے تحت 100 مستحق و غریب خاندانوں میں رمضان فوڈ پیکیج تقسیم کیا، جس میں آٹا، گھی، دالیں، چائے کی پتی اور دیگر اشیائے خوردنی شامل تھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احمد شہزاد نے کہا کہ ٹیم میں
پڑھیں:
ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
ریاستی انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست آسام کے گولپاڑہ ضلع کے ہسیلا بیلا گاؤں میں مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اس کارروائی سے متاثرہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع، قانونی کارروائی یا متبادل بندوبست کے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل عدیل احمد نے عدالت کو بتایا کہ 13 جون 2025ء کو انتظامیہ نے ایک عمومی نوٹس جاری کیا تھا، جس میں 15 جون تک علاقہ خالی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاہم نہ تو کسی کو ذاتی طور پر مطلع کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنوائی کا موقع دیا گیا۔ 667 خاندانوں کے گھروں اور 5 اسکولوں کو منہدم کر دیا گیا، جس سے بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
وکیل نے مزید کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے 13 نومبر 2024ء کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں بلڈوزر کارروائی سے قبل قانونی ضابطوں کی مکمل تعمیل پر زور دیا گیا تھا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 60 برسوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور ان کے آبا و اجداد دریائے برہم پتر کے کٹاؤ کے سبب اپنی زمینیں کھو چکے تھے۔ لہٰذا وہ سبھی بے دخل شدہ افراد "پرانے باشندے" اور بازآبادکاری کے مستحق ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے آسام کے چیف سکریٹری کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا اور آئندہ سماعت میں جواب طلب کیا۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جن افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ اور متبادل رہائش فراہم کی جائے، نیز منہدم شدہ اسکولوں کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا جائے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہے اور آئندہ سماعت میں حکومت آسام کو اس کارروائی کی وضاحت دینی ہوگی کہ آخر کس بنیاد پر بغیر مناسب ضابطے کی تکمیل کے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ اس کارروائی کو لے کر انسانی حقوق کے ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور سیاسی سطح پر بھی اس پر تنقید جاری ہے۔