Islam Times:
2025-07-26@00:44:51 GMT

بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

اسلام ٹائمز: جرج بش جونیئر کے زمانے سے امریکی حکمران ایران کو یہ کہہ کر دھمکی دیتے آئے ہیں کہ Military option is on the table، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ بیس یا تیس سال پہلے والی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس زمانے کی رائے عامہ ہے۔ دنیا آج پوری طرح جاگ چکی ہے اور وائٹ ہاوس کے حکمرانوں کی پلید اور گھٹیا اصلیت کو پہچان چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور دیگر انسان سوز جرائم کے بعد اس کا اصل چہرہ دنیا والوں پر مزید عیاں ہو چکا ہے۔ شجاع اور فاتح غزہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی طاقت کس قدر کھوکھلی ہے جو پندرہ ماہ تک بربریت اور قتل عام کے باوجود آخر میں اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور غزہ کی لاحاصل جنگ کا واحد نتیجہ 50 ہزار بے گناہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام نکلا ہے۔ تحریر: علی رضا ملکیان
 
امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام خط لکھا ہے۔ بالفرض یہ دعوی صحیح بھی ہو تو ٹرمپ کی شخصی خصوصیات اور ذہنی حالات کے پیش نظر اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نرگسیت کا شکار ہے اور اس کے بیانات اور رویے میں تعادل اور استحکام نہیں پایا جاتا۔ پہلی مدت صدارت میں بھی اور موجودہ مدت صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاوس میں موجودگی حتی امریکہ کے محققین، دانشوران اور عام شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی اور نہ ہے۔ تکبر آمیز اور دوسروں کی تحقیر کرنے والا انداز، دوسروں پر برتری حاصل کرنے کا جذبہ، ہمیشہ تعریف کی طلب ہونا، دوسروں پر حکم چلانے اور انہیں استعمال کرنے کی خواہش، خود کو حق بجانب سمجھنا وغیرہ وہ اہم خصوصیات ہیں جو نرگسیت کا شکار شخص میں پائی جاتی ہیں۔
 
یہ تمام خصوصیات عجیب حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے ایک بار 2019ء میں بھی اپنی قسمت آزمائی تھی اور جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے کے ہاتھ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے لیے ایک خط بھیجا تھا۔ شینزو آبے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے ایک ہفتے بعد 13 جون 2019ء کے دن ایران آئے اور رہبر معظم انقلاب سے ملاقات کی۔ جاپانی وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس ٹرمپ کی جانب سے ایک خط ہے تو رہبر معظم انقلاب نے جواب دیا: "ہمیں آپ کی نیک نیتی اور سنجیدگی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن جو کچھ آپ امریکی صدر کے بقول کہہ رہے ہیں میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس سے خط و کتابت کی جائے۔ میرے پاس اس کے خط کا کوئی جواب نہیں ہے اور جواب نہیں دوں گا۔" آبے شینزو نے یہ سن کر چپ چاپ خط اپنے نیچے دبا لیا۔
 
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسی سال 2019ء میں جب ٹرمپ ایران سے مذاکرات اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے نیک نیتی ظاہر کرنے کی بجائے مفروضہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے 12 شرطیں پیش کر دیں۔ یہ اقدام سفارتی آداب کے بالکل خلاف تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب غیر مشروط طور پر ان کے بدمعاشی پر مبنی موقف کو قبول کر کے ان کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ماضی کی طرح ایران کو خط لکھنے کا عمل دہرایا ہے۔ وہ ایک طرف جوہری معاہدے کے حصول کے لیے مذاکرات کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباو کے لیے پابندیوں کا تازیانہ بلند کر رکھا ہے اور ایران کو فوجی حملے کی دھکمیاں دینے میں مصروف ہے۔
 
جرج بش جونیئر کے زمانے سے امریکی حکمران ایران کو یہ کہہ کر دھمکی دیتے آئے ہیں کہ Military option is on the table، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ بیس یا تیس سال پہلے والی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس زمانے کی رائے عامہ ہے۔ دنیا آج پوری طرح جاگ چکی ہے اور وائٹ ہاوس کے حکمرانوں کی پلید اور گھٹیا اصلیت کو پہچان چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور دیگر انسان سوز جرائم کے بعد اس کا اصل چہرہ دنیا والوں پر مزید عیاں ہو چکا ہے۔ شجاع اور فاتح غزہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی طاقت کس قدر کھوکھلی ہے جو پندرہ ماہ تک بربریت اور قتل عام کے باوجود آخر میں اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور غزہ کی لاحاصل جنگ کا واحد نتیجہ 50 ہزار بے گناہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام نکلا ہے۔
 
اب وائٹ ہاوس ایران کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اسے خود بھی معلوم ہے کہ ان دھمکیوں کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ امریکی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کو جنگ کی دھمکی دے کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور ان کی یہ کوشش بین الاقوامی تعلقات عامہ اور دنیا کے دیگر ممالک کی نظر میں ایک بچگانہ کھیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے مشیروں کا اصل مقصد صرف اور صرف نفسیاتی جنگ کے ذریعے ایران کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ یوں ایرانی معاشرے کو مذاکرات کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کر سکے۔ اسی طرح امریکی حکام دنیا والوں پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں جبکہ ایران مذاکرات سے کترا رہا ہے۔
 
خوش قسمتی سے ایران کے تمام سیاسی حلقے اور گروہ اس امریکی ہتھکنڈے کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ سے مذاکرات کے بارے میں ایرانی معاشرے سے واحد موقف سامنے آیا ہے اور ایرانی عوام نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایرانی عوام اپنے ملک کی خودمختاری اور وقار کو پہلی ترجیح سمجھتے ہیں اور اسے کسی بھی چیز پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حتی ایران سے باہر انقلاب مخالف دھڑے بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی حکمرانوں کا رویہ بدمعاشی اور دھونس پر مبنی ہے اور اس کے سامنے گھٹںے ٹیک دینا ایران کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی میراث کی بدولت منطق اور گفتگو کا حامی ہے اور اس نے بارہا دیگر ممالک سے برتاو میں اپنی نیک نیتی ثابت کی ہے۔ ایران ہمیشہ سے دوطرفہ احترام پر مبنی مذاکرات اور معاہدوں کا خیر مقدم کرتا آیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس اور اس کے ہے اور اس ایران کے ایران کو ہے کہ اس ٹرمپ کی قتل عام چکی ہے کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ حماس، غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور اب ان کے رہنما شکار کیے جائیں گے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ (حماس رہنما) مرنا چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے رہنما اب شکار کیے جائیں گے۔

ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی دھمکی دی ہے کہ غزہ جنگ بندی نہ ہونے کے بعد اسرائیل اب ’’متبادل راستے‘‘ اپنائے گا تاکہ باقی مغویوں کی بازیابی اور غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات سے اپنے نمائندے واپس بلالیے ہیں۔

دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما باسم نعیم نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کی اصل نوعیت کو مسخ کر رہے ہیں۔

حماس رہنما نے الزام عائد کیا کہ غزہ جنگ بندی پر امریکی موقف میں تبدیلی دراصل اسرائیل کی حمایت اور صیہونی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ دوحہ میں مجوزہ غزہ جنگ بندی کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، امداد کی بحالی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی مغوی رہائی پر اتفاق کرنا تھا۔

تاہم اسرائیل کے فوجی انخلا اور 60 دن بعد کے مستقبل پر اختلافات ڈیل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، اسحاق ڈار
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • استنبول: ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات دوبارہ شروع
  • یورینیم کی افزودگی جاری رہیگی، استنبول مذاکرات کے تناظر میں سید عباس عراقچی کا بیان
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، امریکی صدر نے بڑی دھمکی دیدی
  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، ٹرمپ
  • واشنگٹن ایرانی جوہری منصوبے کو مکمل تباہ کرنے سے قاصر ہے، سابق امریکی وزیر دفاع
  • امریکہ کی ایکبار پھر ایران کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش