Islam Times:
2025-04-25@09:29:43 GMT

بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

بدمعاشی کے مقابلے میں ایران کی اکیلی آواز

اسلام ٹائمز: جرج بش جونیئر کے زمانے سے امریکی حکمران ایران کو یہ کہہ کر دھمکی دیتے آئے ہیں کہ Military option is on the table، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ بیس یا تیس سال پہلے والی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس زمانے کی رائے عامہ ہے۔ دنیا آج پوری طرح جاگ چکی ہے اور وائٹ ہاوس کے حکمرانوں کی پلید اور گھٹیا اصلیت کو پہچان چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور دیگر انسان سوز جرائم کے بعد اس کا اصل چہرہ دنیا والوں پر مزید عیاں ہو چکا ہے۔ شجاع اور فاتح غزہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی طاقت کس قدر کھوکھلی ہے جو پندرہ ماہ تک بربریت اور قتل عام کے باوجود آخر میں اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور غزہ کی لاحاصل جنگ کا واحد نتیجہ 50 ہزار بے گناہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام نکلا ہے۔ تحریر: علی رضا ملکیان
 
امریکی صدر ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اس نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام خط لکھا ہے۔ بالفرض یہ دعوی صحیح بھی ہو تو ٹرمپ کی شخصی خصوصیات اور ذہنی حالات کے پیش نظر اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نرگسیت کا شکار ہے اور اس کے بیانات اور رویے میں تعادل اور استحکام نہیں پایا جاتا۔ پہلی مدت صدارت میں بھی اور موجودہ مدت صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاوس میں موجودگی حتی امریکہ کے محققین، دانشوران اور عام شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی اور نہ ہے۔ تکبر آمیز اور دوسروں کی تحقیر کرنے والا انداز، دوسروں پر برتری حاصل کرنے کا جذبہ، ہمیشہ تعریف کی طلب ہونا، دوسروں پر حکم چلانے اور انہیں استعمال کرنے کی خواہش، خود کو حق بجانب سمجھنا وغیرہ وہ اہم خصوصیات ہیں جو نرگسیت کا شکار شخص میں پائی جاتی ہیں۔
 
یہ تمام خصوصیات عجیب حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے ایک بار 2019ء میں بھی اپنی قسمت آزمائی تھی اور جاپان کے وزیراعظم شینزو آبے کے ہاتھ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے لیے ایک خط بھیجا تھا۔ شینزو آبے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے ایک ہفتے بعد 13 جون 2019ء کے دن ایران آئے اور رہبر معظم انقلاب سے ملاقات کی۔ جاپانی وزیراعظم نے کہا کہ ان کے پاس ٹرمپ کی جانب سے ایک خط ہے تو رہبر معظم انقلاب نے جواب دیا: "ہمیں آپ کی نیک نیتی اور سنجیدگی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن جو کچھ آپ امریکی صدر کے بقول کہہ رہے ہیں میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس سے خط و کتابت کی جائے۔ میرے پاس اس کے خط کا کوئی جواب نہیں ہے اور جواب نہیں دوں گا۔" آبے شینزو نے یہ سن کر چپ چاپ خط اپنے نیچے دبا لیا۔
 
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسی سال 2019ء میں جب ٹرمپ ایران سے مذاکرات اور بات چیت کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے نیک نیتی ظاہر کرنے کی بجائے مفروضہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے 12 شرطیں پیش کر دیں۔ یہ اقدام سفارتی آداب کے بالکل خلاف تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب غیر مشروط طور پر ان کے بدمعاشی پر مبنی موقف کو قبول کر کے ان کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ماضی کی طرح ایران کو خط لکھنے کا عمل دہرایا ہے۔ وہ ایک طرف جوہری معاہدے کے حصول کے لیے مذاکرات کی بات کرتا ہے جبکہ دوسری طرف زیادہ سے زیادہ اقتصادی دباو کے لیے پابندیوں کا تازیانہ بلند کر رکھا ہے اور ایران کو فوجی حملے کی دھکمیاں دینے میں مصروف ہے۔
 
جرج بش جونیئر کے زمانے سے امریکی حکمران ایران کو یہ کہہ کر دھمکی دیتے آئے ہیں کہ Military option is on the table، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو امریکہ بیس یا تیس سال پہلے والی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس زمانے کی رائے عامہ ہے۔ دنیا آج پوری طرح جاگ چکی ہے اور وائٹ ہاوس کے حکمرانوں کی پلید اور گھٹیا اصلیت کو پہچان چکی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی اور دیگر انسان سوز جرائم کے بعد اس کا اصل چہرہ دنیا والوں پر مزید عیاں ہو چکا ہے۔ شجاع اور فاتح غزہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی طاقت کس قدر کھوکھلی ہے جو پندرہ ماہ تک بربریت اور قتل عام کے باوجود آخر میں اسلامی مزاحمت سے جنگ بندی معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور غزہ کی لاحاصل جنگ کا واحد نتیجہ 50 ہزار بے گناہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام نکلا ہے۔
 
اب وائٹ ہاوس ایران کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اسے خود بھی معلوم ہے کہ ان دھمکیوں کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ امریکی حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کو جنگ کی دھمکی دے کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور ان کی یہ کوشش بین الاقوامی تعلقات عامہ اور دنیا کے دیگر ممالک کی نظر میں ایک بچگانہ کھیل سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے مشیروں کا اصل مقصد صرف اور صرف نفسیاتی جنگ کے ذریعے ایران کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہے تاکہ یوں ایرانی معاشرے کو مذاکرات کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کر سکے۔ اسی طرح امریکی حکام دنیا والوں پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات چاہتے ہیں جبکہ ایران مذاکرات سے کترا رہا ہے۔
 
خوش قسمتی سے ایران کے تمام سیاسی حلقے اور گروہ اس امریکی ہتھکنڈے کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ سے مذاکرات کے بارے میں ایرانی معاشرے سے واحد موقف سامنے آیا ہے اور ایرانی عوام نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایرانی عوام اپنے ملک کی خودمختاری اور وقار کو پہلی ترجیح سمجھتے ہیں اور اسے کسی بھی چیز پر قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حتی ایران سے باہر انقلاب مخالف دھڑے بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکی حکمرانوں کا رویہ بدمعاشی اور دھونس پر مبنی ہے اور اس کے سامنے گھٹںے ٹیک دینا ایران کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی میراث کی بدولت منطق اور گفتگو کا حامی ہے اور اس نے بارہا دیگر ممالک سے برتاو میں اپنی نیک نیتی ثابت کی ہے۔ ایران ہمیشہ سے دوطرفہ احترام پر مبنی مذاکرات اور معاہدوں کا خیر مقدم کرتا آیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس اور اس کے ہے اور اس ایران کے ایران کو ہے کہ اس ٹرمپ کی قتل عام چکی ہے کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری مذاکرات پر سفارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں اور اسی ضمن میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ماسکو کا دورہ کرنے والے عمان کے سربراہ سلطان ہیثم بن طارق السعید کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔

عمان ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری تنازعے پر ہونے والے مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بارے میں ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں، جس سے ایران کے جوہری پروگرام کو روکا جا سکے۔

اس سلسلے میں پہلے دور کے مذاکرات عمان میں ہوئے تھے، جبکہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اس پر روم میں مکالمت ہوئی تھی اور اب تیسرے دور کی بات چیت ہونے والی ہے۔

(جاری ہے)

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس کا مقصد جوہری ہتھیار تیار کرنا ہے، جبکہ ایران اس کی تردید کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ جوہری مذاکرات ’’تعمیری‘‘ رہے، ایران

روس نے اس بارے میں کیا کہا؟

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کے روز ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "اس موضوع پر عمان کی ثالثی کی کوششوں کے تناظر میں بات چیت کی گئی ہے۔"

انٹرفیکس کے مطابق کریملن کے خارجہ پالیسی کے معاون یوری اوشاکوف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں فریقوں نے "ایرانی اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

"

نئے امریکی ایرانی مذاکرات سے قبل سعودی وزیر دفاع تہران میں

اوشاکوف نے اس حوالے سے کہا، "ہم دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم اپنے ایرانی ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ جہاں ہم مدد کر سکتے ہیں، مدد کریں گے۔"

صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے معاہدہ طے نہیں پاتا ہے، تو ایران پر بمباری کی جائے گی۔

ادھر ایران نے کہا ہے کہ بمباری کی دھمکی کے تحت کوئی بھی معاہدہ نہیں ہو سکتا ہے۔

روس نے جنوری میں ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔

روس نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف کوئی بھی امریکی فوجی کارروائی غیر قانونی ہو گی۔

ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں ماسکو کا بھی اپنا ایک کردار ہے جس نے سن 2015 کے پچھلے تاریخی جوہری معاہدے پر امریکہ کے دستخط بھی کیے تھے۔

البتہ ٹرمپ نے 2018 میں امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران اس معاہدے کو ترک کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے بھی معاہدے کی شرائط پرعمل کرنا بند کر دیا۔

ایران جوہری بم بنانے سے ’بہت دور‘ نہیں، رافائل گروسی

عمان کے سلطان کا دورہ روس

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے تبصروں میں، پوٹن کو عمان کے سلطان کو یہ بتاتے ہوئے دکھایا گیا کہ روسی توانائی کمپنیاں عمان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

اس دوران پوٹن نے رواں برس کے اواخر میں عرب لیگ کے ممالک کے گروپ کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس منعقد کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ یوکرین میں فوج بھیجنے کے بعد سے روس مغربی پابندیوں کے بعد سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے لیے ایشیائی، افریقی اور عرب ممالک کا رخ کر رہا ہے۔

روسی صدر نے عمان کے سلطان سے کہا کہ "ہم اس سال روس اور عرب ممالک کے درمیان سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

"

امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران

انہوں نے تاریخ اور مقام کی وضاحت کیے بغیر سلطان ہیثم بن طارق السعید کو سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے مزید کہا،"عرب دنیا میں ہمارے بہت سے دوست اس خیال کی حمایت کرتے ہیں۔"

عمانی سلطان کا یہ دورہ اس وقت ہوا ہے، جب چند روز قبل ہی صدر پوٹن نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کی ماسکو میں میزبانی کی تھی۔

ادارت جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • بغداد، ایران-امریکہ مذاکرات کی حمایت کرتا ہے، فواد حسین
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • دھمکی نہیں دلیل
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر