گردشی معیشت سے معاشی، سماجی، ماحولیاتی بحرانوں سے نمٹنا ممکن، معاشی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
کراچی:
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گردشی معیشت کو فروغ دینے سے پاکستان کو معاشی، ماحولیاتی اور سماجی مسائل اور بحرانوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں کاروباری بڑھ سکیں اور معیشت ترقی کرسکے، ترقی یافتہ ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک آج لینیئر معیشت سے نکل کر گردشی معیشت کی طرف جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گردشی معیشت سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، جیسا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ شدید ہوتا جارہا ہے، لیکن اگر فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے ایوی ایشن فیول اور ڈیزل میں تبدیل کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف آلودگی کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ نئی ملازمتیں بھی جنم لیں گی، کئی نئی صنعتوں کا جنم ہوگا، تحقیق اور تخلیق کے نئے میدان جنم لیں گے، جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
ممتاز سائنسدان اور گردشی معیشت کے ماہر ڈاکٹر عدیل غیور نے اس حوالے سے کہا کہ ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی نگرانی میں کثیر شعبہ جاتی، پالیسی پر مبنی نقطہ نظر کے ذریعے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سرکلر اکانومی سے اسٹریٹجک طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جس کیلیے بنیادی توجہ سیکٹر وائز ہونا چاہیے، جیسا کہ خاص طور پر زراعت، ٹیکسٹائل، تعمیرات، پیٹرو کیمیکلز اور قابل تجدید توانائی جیسے سیکٹر تاکہ پالیسی سے بہترین فائدہ اٹھایا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ اس صلاحیت کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیوں کو ہموار کیا جائے اور سرمایہ کاری کو قابل تجدید اور سبز ٹیکنالوجیز میں منتقل کیا جائے، جو اقتصادی خود انحصاری کے حصول کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) کے ڈائریکٹر یاسر حسین نے کہا کہ گردشی معیشت ابھرتی ہوئی سبز معیشت کا حصہ ہے، گردشی معیشت مواد کی گردش ہے جب وہ صنعت سے صنعت اور مصنوعات کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور فطرت کی حفاظت/دوبارہ تخلیق کرتے ہوئے فضلہ، آلودگی اور کاربن کے اخراج کی پیداوار کو کم کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
گردشی قرض کا خاتمہ، بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض کیلئے بات چیت جاری ہے، اسٹیٹ بینک
اسلام آباد:اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے ایک ہزار 275 ارب روپے کے قرض کے لیے بینکوں سے بات کر رہی ہے،اس میں سے 658 ارب روپے پاور سیکٹر کے قرض ادائیگی کیلئے استعمال ہونگے، 400 ارب روپے سکوک بانڈ اور باقی رقم دیگر قرض کی ادائیگی کیلئے استعمال ہوگی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہوا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کے لیے بینکوں سے 1275 ارب روپے کا قرض لے رہی ہے جب کہ دیگر ضروریات کیلئے حکومت 670 ارب روپے کا مزید قرض لے گی حکومت اور بینکوں کے درمیان اس وقت مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت گردشی قرض کو ختم کرنے کیلئے قرض لے گی یہ قرض کتنی مدت کیلئے ہو گا پہلے قرض پر سود حکومت ادا کرتی تھی اب سود عوام ادا کریں گے؟ اس طرح معاملہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اصل مسائل حل ہی نہیں کیے گئے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اجلاس میں پاور ڈویژن موجود نہیں ہے اس لیے کوئی جواب نہیں دے سکے گا حکومت صرف گردشی قرض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ سولر پینل کی درآمد کی آڑ میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے قائم ذیلی کمیٹی نے مزید وقت مانگا ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ذیلی کمیٹی 6 جنوری کو قائم کی گئی تھی اور 23 اپریل تک کام مکمل نہیں ہوا، آج کمیٹی اجلاس میں محسن عزیز اور دیگر ممبران موجود نہیں ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ کنوینر ذیلی کمیٹی محسن عزیز نے تجویز کیا ہے کہ معاملہ کیلئے نئی کمیٹی قائم کی جائے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کمیٹی نے کافی کام کیا ہے ایف بی آر نے کافی تحقیقات کی ہیں اس کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دے کر ایک ماہ کا مزید وقت دے دیا جائے۔
اجلاس میں سینیٹر ذیشان خانزادہ کے انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کے بل پر غور کیا گیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو ایف بی آر نے منی بل قرار دیا ہے اس پر فنانس بل کے ذریعے ترمیم ہو سکتی ہے۔
وزارت قانون کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ کیا پرائیویٹ ممبر کی انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کا بل منی بل ہے یا نہیں یہ اسپیکر فیصلہ کرے گا۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو اسپیکر کو بھیج دیتے ہیں۔
اجلاس میں وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ سے متعلق بریفنگ دی گئی اجلاس کو بتایا گیا کہ 32 ہزار سرکاری اسامیاں ختم کی جا چکی ہیں ، 50 سرکاری محکموں کو چار مراحل میں تحلیل ، ضم یا ختم کیا جا رہا ہے۔