سندھ کے عوام کھوٹے سکوں کو قبول نہیں کریں گے، صدر الدین شاہ راشدی
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
فائل فوٹو صدر الدین راشدی
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سندھ کے سربراہ صدر الدین شاہ راشدی نے کہا ہے کہ سندھ کے عوام کھوٹے سکوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
کراچی میں صدرالدین راشدی نے حلیم عادل شیخ و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور کہا کہ جی ڈی اے عمرکوٹ کے ضمنی الیکشن میں مشترکہ امیدوار لائے گی۔
سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ جو لوگ کونسلر کی نشست تک نہیں جیت سکتے وہ پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لال مالہی جی ڈی اے کے مشترکہ امیدوار ہوں گے، وہ کامیاب ہو کر پہلی قرارداد 6 نئی کینالز کے خلاف لائیں گے۔
صدرالدین راشدی نے مزید کہا کہ ہم سندھ اور دریائے سندھ کو بچانے نکلے ہیں، لال مالہی امن و امان، بیروزگاری، کرپشن اور ناانصافی پر آواز بلند کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم سے متعلق بڑے پیرپگارا کا مؤقف واضح تھا، سندھ کی عوام کھوٹے سکوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
جی ڈی اے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ 6 نئی کینالز پر تحریک انصاف کا موقف سب کو معلوم ہے، ڈاکٹر عارف علوی نے بحیثیت صدر اس پر دستخط نہیں کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی صوبے پر قابض رہی تو نہ اسپتال، نہ دریا ،نہ ہی اسکول بچیں گے۔
اس موقع پر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ارسا ایکٹ پر عارف علوی نے سندھ کے مفادات کے باعث دستخط نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے سندھ کے پانی کا سودہ کیا ہے، پی ٹی آئی نے نہروں کی تعمیر کیخلاف پہلے سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جی ڈی اے سندھ کے کریں گے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت