اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام اس وقت دنیا میں سب سے مہنگی بجلی استعمال کررہے ہیں، ویسے تو ہماری قوم پریہ ظلم ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ وہ بہت سے ضروری اشیاء اوراجناس عالمی قیمتوں کے حساب سے خریدنے پرمجبور ہیں جب کہ اُن کی آمدنی عالمی سطح اورمعیارکے مطابق ہرگز نہیں ہے۔
انھیں پٹرول بھی دنیا کے دیگر ممالک کے داموں پر دیا جارہا ہے اورچینی اورضرورت کی دوسری چیزیں بھی۔قوم کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی پرمعذرت کرنے کے بجائے ہماری حکومت یہ عذر پیش کرتی ہے کہ ہم کیاکریں جب پٹرول اوردیگر اشیاء کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھیں گی توہم بھی انھیںاسی قیمت پردینے پر مجبور ہیںاورساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعویٰ کیاجاتاہے کہ یہ چیزیں اب بھی دیگر ممالک سے کم قیمت پردی جارہی ہیں۔
یہ کہتے ہوئے وہ ہمارے لوگوں کی تنخواہوں اورآمدنی کا تقابلی جائزہ کرنے سے نہ صرف اجتناب برتتے ہیں بلکہ جان بوجھ کرنظر انداز بھی کرتے ہیں۔ کسی ایک وزیر نے بھی آج تک یہ نہیں کہا کہ اِن چیزوں کی قیمتیں ہماری فی کس آمدنی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ہم وہ قوم ہیں جو ساری دنیا میںسب سے مہنگی بجلی استعمال کررہی ہے۔
60 روپے فی یونٹ شاید ہی کسی اورملک میں ہو۔ ذرا سوچیے! چار پانچ افراد پرمبنی ایک خاندان اگر ہرماہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرے تو اسے ان 200 یونٹ کا بل تقریباً 12000 ہزار روپے آتاہے جب کہ اس کی تنخواہ تیس سے چالیس ہزارروپے بمشکل ہوتی ہے۔ وہ اگر 12000 روپے بجلی پرخرچ کردے تو پھر باقی اخراجات وہ کیسے پورے کرے گا۔
بجلی اور توانائی کا بحران کوئی آج کا نہیں ہے ، 1990 سے یہ بحران چلتاآرہاہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے شروع شروع میں اس مسئلے کے لیے جو حل پیش کیاتھااور اس پرعمل کرتے ہوئے جو بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے تھے اُن کے اثرات سے ہم آج تک نکل نہیں سکے ہیں۔
یہ معاہدے میاں نوازشریف دور میں بھی تسلسل پاتے رہے اور اُن معاہدوں کی کڑی شرائط کے سبب انھیں ختم یا کالعدم بھی نہیں کیاجاسکا۔پھر پرویز مشرف کا دور آیا اوراس دور میں ایک یونٹ بھی بجلی بڑھانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اس زمانے میں ہمارا روپیہ کچھ مستحکم تھا اورہم یہ بوجھ برداشت کرتے رہے، لیکن رفتہ رفتہ ہمارا یہ بحران مزید بڑھتا گیااورایک وقت آیا کہ سارے دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہونے لگی ۔
پیپلزپارٹی کے وزیرتوانائی راجہ پرویز اشرف نے اس مسئلے کا حل رینٹل پاور پروجیکٹس میں تلاش کیااوراس مقصد سے ایک بہت بڑا جہاز پورٹ قاسم کی بندرگاہ پرلنگر انداز بھی ہوگیا۔ اس رینٹل پاور پروجیکٹ نے ہمیں بجلی تو کیا فراہم کی اُلٹا کئی ارب ڈالرز ہم سے ہرجانے کے طور پر وصول بھی کرلیے۔جس انداز میںاس معاہدے کو ترتیب دیا گیا تھا وہ کسی بھی طرح ہمارے لیے سود مند نہیںتھا۔کمپنی کو بجلی بنانے کے لیے ایندھن ہمیں فراہم کرنا تھا جو ہم وقت پرفراہم نہیں کرسکے اوریوں ہم پرمعاہدے کی خلاف ورزی کرنے پرکمپنی نے ہرجانہ لاگو کردیا۔رینٹل بجلی کا وہ جہاز بجلی بنائے بغیر ہی روانہ ہوگیا اور ہم بلاوجہ ایک بہت بڑے مالی نقصان کے متحمل ہوگئے۔
آج ہمیں مہنگی بجلی سے بچنے کے لیے سولرپینل لگانے کو کہاجارہا ہے اورساتھ ہی ساتھ یہ رونا بھی رویاجارہا ہے کہ اگر ساری قوم اپنے استعمال کی بجلی سولر پینلوں سے حاصل کرلیگی تو اس بجلی کا کیا ہوگاجو IPP کے کارخانے بنارہے ہیں اورجنھیں خریدنا ہماری مجبوری بھی ہے ۔ ہم وہ بجلی استعمال کریں یا نہ کریں مگر اس کی قیمت ہمیں اپنے قومی خزانے سے ہرصورت دینی ہی پڑے گی۔نتیجتاً اب حکومت سولرپینلوں کی حوصلہ شکنی پرغور کررہی ہے۔ایک طرف ہمیں اس جانب راغب کیاجاتاہے اورپھرفوراً ہی اس پرقدغنیں بھی لگادی جاتی ہیں۔
اسی طرح پرویز مشرف دور میں ہمیں سی این جی استعمال کرنے کے لیے بڑی شد ومد کے ساتھ راغب کیاگیا اورگاڑیوں میں سی این جی کٹس لگانے کے لیے تشہیری مہم بھی شروع کی گئی۔ عوام کو یہ کہاگیا کہ یہ گیس توہماری اپنی ہے اورہم اس کے استعمال سے پٹرول درآمد کرنے کے اخراجات سے بچ جائیںگے۔ ہمار ا زرمبادلہ بھی بچے گا اورہم ترقی وخوشحالی سے جلد ہی ہمکنار ہوجائیںگے۔ مگرپھرکیا ہوا، ہمیں اچانک پتا چلا کہ اس طرح توہمارے گیس کے ذخائر تو ختم ہونے لگے ۔
ہم نے اپنی ساری گیس گاڑیوں کے دھویں میں پھونک دی۔اس گیس سے اگر ہمارے کارخانے چلائے جاتے تو ہم زیادہ فائدے میں رہتے۔ آج ہمارے لوگ سولرپینل لگانے کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کررہے اور ہماری حکومت جس نے ہمیں اس جانب دھکیلاتھا وہ اب اپنے اس فیصلے سے پریشان ہے۔
بجلی چوری روکنے اورلائن لاسس کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کیاجارہا ہے ۔ IPPs سے ہونے والے پچیس سالہ معاہدوں سے رجوع کرنے کے بجائے عوام کو تسلیاں اوردلاسے دیے جارہے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں سستی بجلی کا پیکیج لایاجائے گا جس سے ہمارے لوگوں کو کچھ ریلیف ملے گا۔ یہ ریلیف شاید اسی طرح کا ہوگاجیسے سردیاں شروع ہونے پرحکومت کی جانب سے دیاگیاتھاکہ اگر آپ نے اِن تین مہینوں میںگزشتہ برس کی نسبت اضافی بجلی خرچ کی تواس اضافی بجلی پرکچھ ریلیف ملے گا۔یعنی کچھ ریلیف لینے کے لیے ہمیں مزید اضافی بجلی خرچ کرنا پڑے گی۔
یہ ریلیف زدہ تین ماہ بھی اب گزرچکے ہیںاورعوام کو معلوم ہے کہ اس نے اس اسکیم سے کتنا فائدہ اُٹھایا ہے۔لگتا ہے حکومت پھر ایسا ہی کوئی پیکیج اناؤنس کرنے والی ہے جو بظاہر دلکش اورپرکشش تو ضرور ہوگا لیکن عوام کو مہنگی بجلی سے نجات ہرگز دلا نہیں پائے گا۔ ہم جب تک مہنگی بجلی والے کارخانوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلینگے مہنگی بجلی کے عذاب سے اپنی جان نہیں چھڑا پائیںگے۔
حکومت سے ہماری درخواست ہے کہ جو 190 ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ نے قومی خزانے کے سپرد کردیے ہیںاُن میں ایک خطیررقم حکومت لائن لاسس کا ختم کرنے اور برقی لائنوں کو درست کرنے میں خرچ کردے تو ہمارا بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔القادر یونیورسٹی یا دانش اسکول یاکوئی اور یونیورسٹی بنانے سے زیادہ اس وقت قوم کو مہنگی بجلی سے نجات دلانا ضروری ہے۔بجلی اگر سستی ہوگی تو ہمارے کارخانے بھی چلیںگے اورہماری ایکسپورٹ بھی بڑھے گی۔
ورنہ معاشی بحران کی ساری کوششیں رائیگاں جائیںگی۔ہماری پروڈکٹس مہنگی بجلی ہونے کے سبب عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک سے مقابلہ نہیں کرپاتی ہیں۔ہم لاکھ کوشش کرلیں جب تک بجلی سستی نہیں ہوگی ہم یونہی خوار ہوتے رہیں گے۔IPPs سے ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی میں اگر کوئی چیز حائل اورمانع ہے قوم کو صاف صاف بتایا جائے اورمسئلہ کابنیادی حل تلاش کرنے کے بجائے گول مول باتوں سے پرہیز کیاجائے ۔ ہر تین ماہ بعد ایک نیاپیکیج متعارف کروانے کے بجائے مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر اس مسئلہ کا حل تلاش کیاجائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بجلی استعمال مہنگی بجلی کے بجائے عوام کو
پڑھیں:
برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی
برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دیدی سائز ویل سی منصوبے کی تعمیر پر 38 ارب پاؤنڈ کی لاگت آئے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ نے 38 ارب پاؤنڈ کی لاگت سے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی سائزویل سی کے نام سے بنایا جانے والا یہ منصوبہ مشرقی انگلینڈ کے علاقے سفوک میں قائم کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق سائزویل سی منصوبے سے 6 ملین گھروں کو بجلی فراہم کی جا سکے گی جبکہ اس منصوبے سے 10 ہزار نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔
سائزویل سی منصوبہ ابتدائی طور پر ای ڈی ایف اور چینی کمپنی نے پیش کیا تھا اور اس وقت اس کی لاگت 20 ارب پاؤنڈ تھی۔ حکومت نے تسلیم کیا کہ منصوبے کی لاگت تقریباً دگنی ہو کر 38 ارب پاؤنڈ ہو چکی ہے۔
برطانیہ کی حکومت نے سیکیورٹی خدشات کے باوجود 2022 میں چینی فرم کے حصص کو خرید لیا تھا اور تنقید کے باوجود اس منصوبے کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ برطانوی حکومت 44.9 فیصد کے ساتھ منصوبے میں سب سے بڑی سرمایہ کار ہوگی۔
اس منصوبے کی تکمیل 2030 تک متوقع ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ سیزویل منصوبے کی تعمیر کے دوران صارفین کے بجلی بلوں میں ماہانہ تقریباً ایک پاؤنڈ اضافہ ہوگا جبکہ یہ پلانٹ مستقبل میں کم کاربن بجلی کے نظام کی لاگت کو اوسطاً 2 بلین پاؤنڈ فی سال کم کر سکتا ہے۔
برطانوی وزیر توانائی ایڈملی بینڈ کا کہنا ہےکہ یہ منصوبہ نسلوں تک گھریلو صارف کو توانائی فراہم کرے گا۔ جبکہ وزیر خزانہ ریچل ریوز کا کہنا ہےکہ بجلی کی اگلی نسل تک فراہمی ہماری توانائی کی حفاظت اور ترقی کے لیے یہ منصوبہ بہت ضروری ہے۔