ایم سرورصدیقی
اس نے کہا ان دنوں میری عجیب حالت ہے سمجھ میں نہیں آتاکیاکروں؟ چہرے مہرے سے سنجیدہ لیکن حددرجہ پریشان ،باوقار اور کھاتے پیتے گھرانے کا ایک نوجوان درویش کے روبرو بیٹھا ،اپنا مسئلہ بیان کررہا تھا ۔میراکوئی کام کرنے کو جی نہیں کرتاجیسے جذبات مرگئے ہوں وہ بات کرتے کرتے رک گیا جیسے کسی خیال سے سراسیمہ ہوگیا ہو۔ درویش نے بڑی محبت سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا اور نرمی سے کہا اپنی بات مکمل کرلو نوجوان نے ادھر ادھر د یکھا شرما کرکہا کسی نازنیں، مہ جبیں کو بھی دیکھ کر کوئی حس بیدارنہیں ہوتی ۔ایک وقت تھا دل کے تار کھڑک کھڑک جاتے تھے ،اب ایسا نہیں ہے۔ شاید اسی کو بے حسی کہاجاسکتاہے یاپھر یا مردہ دلی اسی کیفیت کا نام ہے۔ میں تو اس بات سے بھی پریشان ہوں کہ کئی برسوںسے دل میں کسی ارمان نے انگڑائی نہیں لی، کوئی خواہش نہیں جاگی حالانکہ سناہے کہ ساون بھادوںاور برسات کے دنوںمیں جب بارش چھما چھم برستی ہے بجلی چمکتی ہے تو جذبات جوان ہوجاتے ہیں ،ارمان جاگتے ہیں دل کو محسو س ہوتاہے جیسے فضا میں ہرطرف جل ترنگ بج رہے ہوں ۔ میں نے ہر جذبے ہر احساس سے عمری ہوگیاہوں۔ ایسی زندگی کا کیا فائدہ ؟میاں جی میرے دکھ کا مداوا کریں۔ وہ چپ ہواتو درویش نے اپنے سامنے بیٹھے حاضرین پر ایک نظردوڑائی اور کہا بیشترلوگ جانتے ہوںگے کہ انسان کو اللہ رب العزت نے بہت سے رویے عطاکررکھے ہیں۔ محبت،نفرت، حسد ،رشک ،انتقام، لالچ، خوف، غصہ ،یہ رویے ہی انسانی جذبات کا ترجمان ہوتے ہیں ان میں ایک کیفیت کا نام اضطراب ۔۔ غور سے جان لو کہ اضطرابی کیفیت ہر جذبے پر حاوی ہوسکتی ہے کبھی کبھار اس کا الٹ بھی ہوجاتاہے اس صورت میں ہرجذبے کااحساس جاتارہتاہے ۔اس نوجوان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواہے آسان لفظوںمیںیہ سمجھ لیں کہ کوئی ایم لیس aim less ہوجائے تو اس کی یہ والی کیفیت ہوجاتی ہے بہت زیادہ حساس لوگ اس مرض کا شکارہوتے ہیں جو دنیا سے الگ تھلک ہوکر اسی کو اپنی دنیا سمجھ لیتے ہیں، کسی کو ملنا جلنا پسندنہیں کرتے جیسے کوئی مردم بیزار ہو جائے زیادہ تر یہ ان معاشروںمیں ہوتاہے جہاں اخلاقی اقدار دم توڑرہی ہوں،لوگوںمیں دولت کی ہوس ہر جذبے ہر رشتے پر حاوی ہوجائے یا پھر ان ملکوںکا خاصاہے جہاںپر قانون کو اشرافیہ نے موم کی ناک بناکررکھ دیاہو حساس لوگ اس صورت ِ حال میں سوچ سوچ کر کڑھتے، جلتے اور سسکتے رہتے ہیں اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جذبات پر بے بسی اس قدر غالب آجاتی ہے کہ انسان بے حس ہوجاتاہے جیسے ماہرین ِ نفسیات نے سراغ لگایاہے کہ نفرت بھی محبت کی ایک قسم ہے انسان جس سے جتنی محبت کرتاہے اگر اس کے جذبات سے کھیلا جائے یا اسے اپنے مقاصدکیلئے بے رحمی سے استعمال کیا جائے ،اس انسان سے اس سے زیادہ شدید نفرت ہوسکتی ہے پھر حالات اس مقام پر لے آتے ہیں،ایسے لوگوںکے ذہن میں یہ خیال جم جاتاہے کہ میری زندگی کا کوئی مقصدنہیں ،یہ انتہائی خطرناک ہے ایسے لوگ اپنے آپ کو بیکار جان کرخودکشی کر لیتے ہیں ۔درویش نے آہ بھرکرکہا شایدتم نہیں جانتے کہ اضطراب کتنی بڑی نعمت ہے بیشتر سے زیادہ تو اسے زحمت ہی خیال کرتے ہوں گے، یقینا وہ غلطی پرہیں ، اضطراب ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو بوڑھانہیں ہونے دیتی جس سے جذبے جوان رہتے ہیں یہ الگ بات کہ انسان جذبوںکی دھیمی آنچ میں سلگتارہتاہے وہ انپے متعلق کم اپنے پیاروں کے متعلق زیادہ سوچتاہے جان لو کہ محبوب کی یاد میں تڑپنا اضطراب ہے اور یہ جذبہ قسمت والوںکا نصیب ہے ،ویسے تو ایم لیسaim less باکمال لوگ ہوتے ہیںانتہائی حساس!جو معاشرے کی عد م توجہی یا حالات کے رحم وکرم پر وقت کے دھارے پر بہتے ہوئے احساسات سے عاری ہوجاتے ہیں چونکہ ان لوگوںکے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنے آپ کو بیکار سمجھناشروع کردیتے ہیں۔
”تم بھی ایسا ہی خیال کررہے ہو ؟” درویش نے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔نوجوان نے مردہ دلی سے اثبات میں سرہلایا!
یقینا ایسی سوچ سنگین غلطی ہے۔درویش نے دور خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا قادر ِمطلق نے کوئی چیز بے کارپیدانہیں کی۔ انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے۔ یہی سمجھنے والا فلسفہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدانہیں کی تو ہم کون ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو فضول اوربے کار سمجھنا شروع کردیں۔ یہ بھی کفران ِ نعمت ہے،دوسروں سے الگ تھلک رہنا یا معاشرے کٹ کررہ جانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔اس طرز ِ عمل کو رہبانیت کہاگیا ہے ۔ویسے بھی زندگی زندہ د لی کا نام ہے ۔یہ وحدہ’ لاشریک کا کتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب ۖ کا امتی بنایا ۔جسمانی معذوروں کو دیکھ کرسوچیں تو قدم قدم پر سجدے کریں تو یہ بھی کم ہے۔ اللہ نے انسان کو اتنا پرفیکٹ بنایا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔آپ سب تصورکی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھیں ۔آپ کی جسمانی ساخت ہر لحاظ سے مکمل ہو صرف ایک ہاتھ کی ایک انگلی نہ ہو توآپ کیسا محسوس کریں گے؟یاآپ کی چال متوازن نہ ہو،زبان میں لکنت ہو دونوں آنکھیں ہوںایک آنکھ محض تھوڑی سی تیڑھی ہو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقین جانو انسان ہروقت اللہ کا شکر اداکرے تب بھی اس کی دی ہوئی نعمتوںکا شکرانہ ادا نہیں ہوسکتا جو لوگ احساسات سے عاری ہورہے ہیںیا جن کے دلوںمیں اضطراب دم توڑرہاہے ۔ان کیلئے مخلصانہ مشورہ ہے وہ اپنے معامالات پر ازسرنو غورکریں۔ وہ اپنے آپ کو مصروف کرلیں ۔اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی ذات کو سماجی کاموںکیلئے وقف کردیں جس کے پاس وسائل نہیں ہے پھر بھی وہ انسانیت کی خدمت کرسکتاہے ۔اپنی گلی محلے میںلوگوںکے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کریں یا کسی سماجی تنظیم میںشامل ہوجائیں بہت سے لوگ آ پ کی توجہ کے منتظرہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں اپنا دل لگانے کی کوشش کریں اورخودکو ایک اچھا انسان بنانے کی تحریک پیداکریں ۔اس ضمن میں ایک نسخہ یہ ہے کہ وعظ و تلقین کی بجائے اپنے کردار سے دوسروںکیلئے مثال بنیں۔ یقین کریں ان اعمال سے آپ کے اندرکی تاریکیاں چھٹ جائیں گی ۔دل و دماغ جگمگ جگمگ روشن روشن ہوجائیں تو پھر نفرتیں،کدورتیں،لالچ ، خوف نہ جانے کہاں تحلیل ہوجاتے ہیں پھر انسان اپنے مفادات کیلئے انسانیت کیلئے جینے کی کوشش کرتاہے ۔یہی انسانیت کی معراج ہے ۔یہی آج کا درس ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کا حل بھی،کوشش تو کرکے دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اپنے آپ کو درویش نے
پڑھیں:
دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
دعا ایک ایسی روحانی طاقت ہے جو ہر مذہب، ہر دور اور ہر دل کی گہرائیوں میں زندہ ہے۔ چاہے انسان کسی دین سے ہو، کسی خطے سے ہو، جب دل بیقرار ہوتا ہے، زبان سے نکلا ہوا ایک سادہ لفظ ’’اے خدا!‘‘ پورے آسمان کو ہلا دیتا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، احادیثِ نبویہ، رومی کی تعلیمات اور آج کے سائنسدان سب اس امر پر متفق ہیں کہ دعا میں ایک غیر مرئی طاقت ہے جو انسان کی روح، جسم اور کائنات کے ساتھ گہرے تعلقات پیدا کرتی ہے۔
-1 دعا قرآن کی روشنی میں:قرآن کریم دعا کو عبادت کی روح قرار دیتا ہے:’’وقال ربکم ادعونِی استجِب لکم(سورۃ غافر: 60)’’ اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
واِذا سالک عِبادِی عنیِ فاِنیِ قرِیب (سورۃ البقرہ: 186)
’’جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ) میں قریب ہوں۔‘‘
-2 احادیث کی روشنی میں:حضرت محمدﷺ نے فرمایا:’’الدعا ء ھو العِبادۃ‘‘ (ترمذی) دعا ہی عبادت ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا، اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔(ترمذی)
-3 تورات اور بائبل میں دعا:تورات میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعائوں کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، خصوصاً جب وہ بنی اسرائیل کے لیے بارش یا رہنمائی مانگتے ہیں۔بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں:مانگو، تمہیں دیا جائے گا؛ تلاش کرو، تم پا ئوگے؛ دروازہ کھٹکھٹا، تمہارے لیے کھولا جائے گا۔(متی 7:7)
-4 مولانا رومی کا نکتہ نظر:مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا وہ پل ہے جو بندے کو معشوقِ حقیقی سے جوڑتا ہے۔ایک اور مقام پر کہتے ہیں:تم دعا کرو، تم خاموشی میں بھی پکارو گے تو محبوب سنے گا، کیونکہ وہ دلوں کی آواز سنتا ہے، نہ کہ صرف الفاظ۔
-5 سائنسی اور طبی تحقیقات:جدید سائنسی تحقیقات بھی دعا کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں: ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک تحقیق کے مطابق، دعا اور مراقبہ دل کی دھڑکن کو کم کرتے ہیں، دماغی سکون پیدا کرتے ہیں اور قوتِ مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔
ڈاکٹر لاری دوسے ، جو کہ ایک معروف امریکی ڈاکٹر ہیں، نے کہا:میں نے اپنی میڈیکل پریکٹس میں ایسے مریض دیکھے ہیں جو صرف دعا کی طاقت سے بہتر ہو گئے، جب کہ دوا کام نہ کر رہی تھی۔
ڈاکٹر ہربرٹ بینسن کے مطابق‘ دعا جسم میں ریلیکسیشن رسپانس پیدا کرتی ہے، جو ذہنی دبائو، ہائی بلڈ پریشر، اور بے خوابی کا علاج بن سکتی ہے۔
-6 دعا کی روحانی قوت اور موجودہ دنیا: آج جب دنیا مادی ترقی کی دوڑ میں الجھی ہوئی ہے، انسان کا باطن پیاسا ہے۔ دعا وہ چشمہ ہے جو انسان کی روح کو سیراب کرتا ہے۔ یہ دل کی صدا ہے جو آسمانوں تک پہنچتی ہے۔ دعا صرف مانگنے کا نام نہیں، بلکہ ایک تعلق، ایک راستہ، ایک محبت ہے رب کے ساتھ۔
دعا ایک معجزہ ہے جو خاموشی سے ہماری دنیا کو بدل سکتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نہ صرف بیماریوں کا علاج ہے، بلکہ تنہائی، خوف، بے سکونی اور بے مقصد زندگی کا حل بھی ہے۔ اگر انسان اپنے دل سے اللہ کو پکارے، تو وہ سنتا ہے، اور جب وہ سنتا ہے، تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔
دعا ایک تحفہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں اور دعا کا تحفہ دوسروں کو دے کر اس کا اجروثواب بھی حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دعا حضور قلب و ذہن سے روح توانائی سے کی جائے یعنی پوری توجہ اور اللہ پر کامل توکل کے ساتھ کی جائے۔ دعا پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے ۔ اللہ ہمیں قلب و روح گہرائیوں سے دعا کرنے کی سمجھ اور توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے کو یہ عظیم اور مقدس تحفہ بانٹے رہیں۔
اے اللہ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری دعائیں قبول فرما اور ہمیں مستجاب دعا بنا ۔ یا سمیع الدعاء