Juraat:
2025-11-04@05:27:58 GMT

اندرکی تاریکیاں

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

اندرکی تاریکیاں

ایم سرورصدیقی

اس نے کہا ان دنوں میری عجیب حالت ہے سمجھ میں نہیں آتاکیاکروں؟ چہرے مہرے سے سنجیدہ لیکن حددرجہ پریشان ،باوقار اور کھاتے پیتے گھرانے کا ایک نوجوان درویش کے روبرو بیٹھا ،اپنا مسئلہ بیان کررہا تھا ۔میراکوئی کام کرنے کو جی نہیں کرتاجیسے جذبات مرگئے ہوں وہ بات کرتے کرتے رک گیا جیسے کسی خیال سے سراسیمہ ہوگیا ہو۔ درویش نے بڑی محبت سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا اور نرمی سے کہا اپنی بات مکمل کرلو نوجوان نے ادھر ادھر د یکھا شرما کرکہا کسی نازنیں، مہ جبیں کو بھی دیکھ کر کوئی حس بیدارنہیں ہوتی ۔ایک وقت تھا دل کے تار کھڑک کھڑک جاتے تھے ،اب ایسا نہیں ہے۔ شاید اسی کو بے حسی کہاجاسکتاہے یاپھر یا مردہ دلی اسی کیفیت کا نام ہے۔ میں تو اس بات سے بھی پریشان ہوں کہ کئی برسوںسے دل میں کسی ارمان نے انگڑائی نہیں لی، کوئی خواہش نہیں جاگی حالانکہ سناہے کہ ساون بھادوںاور برسات کے دنوںمیں جب بارش چھما چھم برستی ہے بجلی چمکتی ہے تو جذبات جوان ہوجاتے ہیں ،ارمان جاگتے ہیں دل کو محسو س ہوتاہے جیسے فضا میں ہرطرف جل ترنگ بج رہے ہوں ۔ میں نے ہر جذبے ہر احساس سے عمری ہوگیاہوں۔ ایسی زندگی کا کیا فائدہ ؟میاں جی میرے دکھ کا مداوا کریں۔ وہ چپ ہواتو درویش نے اپنے سامنے بیٹھے حاضرین پر ایک نظردوڑائی اور کہا بیشترلوگ جانتے ہوںگے کہ انسان کو اللہ رب العزت نے بہت سے رویے عطاکررکھے ہیں۔ محبت،نفرت، حسد ،رشک ،انتقام، لالچ، خوف، غصہ ،یہ رویے ہی انسانی جذبات کا ترجمان ہوتے ہیں ان میں ایک کیفیت کا نام اضطراب ۔۔ غور سے جان لو کہ اضطرابی کیفیت ہر جذبے پر حاوی ہوسکتی ہے کبھی کبھار اس کا الٹ بھی ہوجاتاہے اس صورت میں ہرجذبے کااحساس جاتارہتاہے ۔اس نوجوان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواہے آسان لفظوںمیںیہ سمجھ لیں کہ کوئی ایم لیس aim less ہوجائے تو اس کی یہ والی کیفیت ہوجاتی ہے بہت زیادہ حساس لوگ اس مرض کا شکارہوتے ہیں جو دنیا سے الگ تھلک ہوکر اسی کو اپنی دنیا سمجھ لیتے ہیں، کسی کو ملنا جلنا پسندنہیں کرتے جیسے کوئی مردم بیزار ہو جائے زیادہ تر یہ ان معاشروںمیں ہوتاہے جہاں اخلاقی اقدار دم توڑرہی ہوں،لوگوںمیں دولت کی ہوس ہر جذبے ہر رشتے پر حاوی ہوجائے یا پھر ان ملکوںکا خاصاہے جہاںپر قانون کو اشرافیہ نے موم کی ناک بناکررکھ دیاہو حساس لوگ اس صورت ِ حال میں سوچ سوچ کر کڑھتے، جلتے اور سسکتے رہتے ہیں اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جذبات پر بے بسی اس قدر غالب آجاتی ہے کہ انسان بے حس ہوجاتاہے جیسے ماہرین ِ نفسیات نے سراغ لگایاہے کہ نفرت بھی محبت کی ایک قسم ہے انسان جس سے جتنی محبت کرتاہے اگر اس کے جذبات سے کھیلا جائے یا اسے اپنے مقاصدکیلئے بے رحمی سے استعمال کیا جائے ،اس انسان سے اس سے زیادہ شدید نفرت ہوسکتی ہے پھر حالات اس مقام پر لے آتے ہیں،ایسے لوگوںکے ذہن میں یہ خیال جم جاتاہے کہ میری زندگی کا کوئی مقصدنہیں ،یہ انتہائی خطرناک ہے ایسے لوگ اپنے آپ کو بیکار جان کرخودکشی کر لیتے ہیں ۔درویش نے آہ بھرکرکہا شایدتم نہیں جانتے کہ اضطراب کتنی بڑی نعمت ہے بیشتر سے زیادہ تو اسے زحمت ہی خیال کرتے ہوں گے، یقینا وہ غلطی پرہیں ، اضطراب ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو بوڑھانہیں ہونے دیتی جس سے جذبے جوان رہتے ہیں یہ الگ بات کہ انسان جذبوںکی دھیمی آنچ میں سلگتارہتاہے وہ انپے متعلق کم اپنے پیاروں کے متعلق زیادہ سوچتاہے جان لو کہ محبوب کی یاد میں تڑپنا اضطراب ہے اور یہ جذبہ قسمت والوںکا نصیب ہے ،ویسے تو ایم لیسaim less باکمال لوگ ہوتے ہیںانتہائی حساس!جو معاشرے کی عد م توجہی یا حالات کے رحم وکرم پر وقت کے دھارے پر بہتے ہوئے احساسات سے عاری ہوجاتے ہیں چونکہ ان لوگوںکے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا اس لئے وہ اپنے آپ کو بیکار سمجھناشروع کردیتے ہیں۔
”تم بھی ایسا ہی خیال کررہے ہو ؟” درویش نے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔نوجوان نے مردہ دلی سے اثبات میں سرہلایا!
یقینا ایسی سوچ سنگین غلطی ہے۔درویش نے دور خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا قادر ِمطلق نے کوئی چیز بے کارپیدانہیں کی۔ انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے۔ یہی سمجھنے والا فلسفہ ہے اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدانہیں کی تو ہم کون ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو فضول اوربے کار سمجھنا شروع کردیں۔ یہ بھی کفران ِ نعمت ہے،دوسروں سے الگ تھلک رہنا یا معاشرے کٹ کررہ جانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔اس طرز ِ عمل کو رہبانیت کہاگیا ہے ۔ویسے بھی زندگی زندہ د لی کا نام ہے ۔یہ وحدہ’ لاشریک کا کتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب ۖ کا امتی بنایا ۔جسمانی معذوروں کو دیکھ کرسوچیں تو قدم قدم پر سجدے کریں تو یہ بھی کم ہے۔ اللہ نے انسان کو اتنا پرفیکٹ بنایا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔آپ سب تصورکی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھیں ۔آپ کی جسمانی ساخت ہر لحاظ سے مکمل ہو صرف ایک ہاتھ کی ایک انگلی نہ ہو توآپ کیسا محسوس کریں گے؟یاآپ کی چال متوازن نہ ہو،زبان میں لکنت ہو دونوں آنکھیں ہوںایک آنکھ محض تھوڑی سی تیڑھی ہو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقین جانو انسان ہروقت اللہ کا شکر اداکرے تب بھی اس کی دی ہوئی نعمتوںکا شکرانہ ادا نہیں ہوسکتا جو لوگ احساسات سے عاری ہورہے ہیںیا جن کے دلوںمیں اضطراب دم توڑرہاہے ۔ان کیلئے مخلصانہ مشورہ ہے وہ اپنے معامالات پر ازسرنو غورکریں۔ وہ اپنے آپ کو مصروف کرلیں ۔اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی ذات کو سماجی کاموںکیلئے وقف کردیں جس کے پاس وسائل نہیں ہے پھر بھی وہ انسانیت کی خدمت کرسکتاہے ۔اپنی گلی محلے میںلوگوںکے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کریں یا کسی سماجی تنظیم میںشامل ہوجائیں بہت سے لوگ آ پ کی توجہ کے منتظرہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں اپنا دل لگانے کی کوشش کریں اورخودکو ایک اچھا انسان بنانے کی تحریک پیداکریں ۔اس ضمن میں ایک نسخہ یہ ہے کہ وعظ و تلقین کی بجائے اپنے کردار سے دوسروںکیلئے مثال بنیں۔ یقین کریں ان اعمال سے آپ کے اندرکی تاریکیاں چھٹ جائیں گی ۔دل و دماغ جگمگ جگمگ روشن روشن ہوجائیں تو پھر نفرتیں،کدورتیں،لالچ ، خوف نہ جانے کہاں تحلیل ہوجاتے ہیں پھر انسان اپنے مفادات کیلئے انسانیت کیلئے جینے کی کوشش کرتاہے ۔یہی انسانیت کی معراج ہے ۔یہی آج کا درس ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کا حل بھی،کوشش تو کرکے دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اپنے آپ کو درویش نے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • کوئی محکمہ کیسے اپنے نام پر زمین لے سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • تلاش
  • محمد آصف عالمی اسنوکر چیمپئن شپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کریں گے
  • محمد آصف عالمی اسنوکر چیمپئن شپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرینگے