امریکا مجسمہ آزادی فرانس کو واپس کرے، فرانسیسی رکن یورپی پارلیمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
پیرس: یورپی پارلیمنٹ کے فرانسیسی رکن رافیل گلکسمین نے کہا ہے کہ فرانس کو مجسمہ آزادی واپس لے لینا چاہیے کیونکہ امریکہ اب ان اقدار کی نمائندگی نہیں کرتا جن کی وجہ سے یہ تحفہ دیا گیا تھا۔
اپنی پلیس پبلک سینٹر لیفٹ موومنٹ کے کنونشن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں مجسمہ آزادی واپس دے دو۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں آزاد خیالی، سائنسی تحقیق اور انصاف کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے، اور وہاں محققین کو برطرف کیا جا رہا ہے۔
رافیل گلکسمین نے کہا کہ مجسمہ آزادی 1886 میں فرانسیسی عوام نے امریکہ کو تحفے کے طور پر دیا تھا، لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکومت ان اقدار سے منہ موڑ چکی ہے، اس لیے یہ مجسمہ فرانس میں زیادہ محفوظ رہے گا۔
انہوں نے خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی، جنہوں نے تحقیقی اداروں کے بجٹ میں کٹوتیاں کی ہیں اور ماحولیاتی اور صحت سے متعلق محققین کو نوکریوں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
فرانسیسی رہنما نے مزید کہا کہ اگر امریکہ اپنے بہترین سائنسدانوں اور محققین کو برطرف کرنا چاہتا ہے، تو فرانس ان کا خیر مقدم کرے گا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرسجرمن چانسلر فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ ماسکو کی یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ شرو ع ہونے والی جنگ میں ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ کے قیام سے روس کا حوصلہ آئندہ مزید بڑھے گا اور صدر پوٹن اپنے اگلے ہدف کی تلاش شروع کر دیں گے۔
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرس نے بدھ 17 ستمبر کے روز کہا کہ روسی یوکرینی جنگ میں ’’کوئی ایسا امن، جس کی شرائط کییف کو لکھائی گئی ہوں اور جس میں یوکرین کی آزادی کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو، روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی اس حد تک حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ اپنے اگلے ہدف کی تلاش شروع کر دیں گے۔
(جاری ہے)
‘‘
اس کے علاوہ جرمن سربراہ حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کی طرف سے پولینڈ اور رومانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے حالیہ واقعات اس طویل المدتی رجحان کا حصہ ہیں، جس کے تحت روسی صدر پوٹن سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی برداشت کی حد کا امتحان بھی لیتے رہتے ہیں۔
دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے قدامت پسندوں کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے چانسلر میرس نے جرمن پارلیمان کے بنڈس ٹاگ کہلانے والے ایوان زیریں سے اپنے خطاب میں مزید کہا، ’’روس اپنی ایسی کوششوں کے درپردہ ہمارے آزاد معاشروں کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتا ہے۔‘‘
فریڈرش میرس نے جرمن پارلیمان کے ارکان کو بتایا کہ یوکرین میں قیام امن کے لیے کوئی بھی ایسا معاہدہ طے نہیں کیا جا سکتا، جس کی کییف حکومت کو قیمت اپنے ملک کی سیاسی خود مختاری اور علاقائی وحدت کی صورت میں چکانا پڑے۔
ادارت: شکور رحیم، کشور مصطفیٰ