Express News:
2025-11-03@18:00:47 GMT

الزامی تکرار کب تک؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جو موجودہ پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک میں دوبارہ شفاف الیکشن ہونے چاہئیں۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورمحمود خان اچکزئی بھی الزام لگا رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ میں فارم 47 کے ذریعے کامیاب قرار دیے گئے ارکان کی اکثریت ہے۔ سندھ میں جی ڈی اے بھی سندھ کی موجودہ حکومت کو فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ پنجاب میں اپنے امیدواروں کو پی ٹی آئی فارم45 کے ذریعے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو فارم47 کی حکومت قرار دیتی ہے ۔

بلوچستان کے انتخابات کو بی این پی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل جعلی قرار دیتے ہیں جب کہ وہ اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر ان کا بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں جیتنے والوں کو ناکام قرار دے کر ہارنے والوں کو جتوایا گیا ہے۔

اختر مینگل نے رکن قومی اسمبلی کا حلف بھی اٹھایا تھا مگر بعد میں وہ مستعفی ہو کر دبئی چلے گئے تھے اور ان کا استعفیٰ کہیں لٹکا ہوا ہے جو اب تک منظور نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی صرف کے پی کے انتخابات کو جعلی قرار نہیں دیتی کیونکہ وہاں سے اس کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے جہاں دو بار پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور 8 فروری کے الیکشن میں کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو جتنی زیادہ نشستیں ملیں یا دلوائی گئیں اس پر بھی پی ٹی آئی مطمئن نہیں ہے جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہے۔

کے پی میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پر جے یو آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی شدید تحفظات ہیں اور کے پی میں مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف جیسی اہم شخصیات ہاریں اور پی ٹی آئی میں نئے آنے والے جیتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہاں بھی پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی کامیابی فارم47 کی مرہون منت ہے جن پر پی ٹی آئی مطمئن ہے مگر پی ٹی آئی سے نکالے گئے شیر افضل مروت کہتے ہیں کہ کے پی میں خفیہ سمجھوتے کے تحت پی ٹی آئی کے ہارے ہوئے بعض رہنماؤں کو فارم47 کے ذریعے جتوایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے تمام رہنما موجودہ قومی اسمبلی کو جعلی قرار دیتے ہیں مگر وہ خود قومی اسمبلی میں موجود بھی ہیں اور تمام مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ عمر ایوب قومی اسمبلی کو جعلی بھی کہتے ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں جب کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سمیت قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی بھی دے رکھی ہے، جن کے ذریعے پی ٹی آئی رہنما تمام سرکاری مراعات وصول کر رہے ہیں اور ارکان پارلیمنٹ کی جو تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں ان کے بڑھائے جانے میں پی ٹی آئی کے تمام ارکان شامل تھے۔

اس وقت کسی کو خیال نہیں آیا تھا کہ پارلیمنٹ جعلی ہے تو اس کے ذریعے تنخواہیں کیوں بڑھائی گئیں اور جعلی پارلیمنٹ کے ارکان کے طور پر تمام مراعات لی جا رہی ہیں۔ تمام اجلاسوں میں شرکت بھی کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے ایک ایک نشست کے حامی بھی پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیتے نہیں تھکتے مگر قومی اسمبلی سے مستعفی بھی نہیں ہو رہے۔

رانا ثنااللہ نے بھی کہا ہے کہ ہم بھی 2018 کی قومی اسمبلی کو آر ٹی ایس کی پیداوار قرار دیتے تھے اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نہ صرف آخر تک موجود رہے بلکہ تینوں پارٹیوں نے اسی قومی اسمبلی میں بانی پی ٹی آئی کو ہٹا کر میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرایا تھا۔ملک کے ہر الیکشن میں ہارنے والے دھاندلی کے الزام لگاتے آ رہے ہیں اور اپنی شکست کوئی تسلیم نہیں کرتا مگر مبینہ جعلی یا دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ سے چمٹا بھی رہتا ہے، مراعات بھی لیتا ہے ،اور اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرتا ہے۔

2013 میں پی ٹی آئی نے چار حلقوں اور 35 پنکچرزکے الزامات لگائے تھے اور طویل دھرنا بھی دیا تھا۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کا ڈرامہ رچا کر بعد میں استعفے ہی واپس نہیں لیے تھے بلکہ اپنی غیر حاضری کی تنخواہیں بھی وصول کی تھیں۔ہارنے والے الزامات بھی لگاتے ہیں مگر منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے لیے قانون سازی بھی نہیں کرتے اور فائدے سب اٹھا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی میں میں پی ٹی آئی پی ٹی آئی کے قرار دیتے جعلی قرار کے پی میں کے ذریعے کو جعلی ہیں اور رہے ہیں

پڑھیں:

بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت

مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، تحفظ کیلئے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے،اسپیکرپنجاب اسمبلی
مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے،بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے پارلیمنٹ ہو ہی نہیں،ملک احمد خان کی پریس کانفرنس

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے، مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی، ایسی قرارداد جس میں سیاسی اورآئینی پیچیدگیاں ہوں اس کا متفقہ طور پر منظور ہونا اہمیت کی بات ہے، اپوزیشن کے 35اراکین نے متن میں حصہ لیا۔ملک احمد خان نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے بات کررہا ہوں، مقامی حکومتوں کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، مقامی حکومتوں کے ایک درجن کے قریب قوانین سے گزرے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت ہو لیکن مقامی حکومتوں کا تحفظ، انتخابات کا وقت طے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل کہتا ہے صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، کچھ مسائل اٹھارہویں ترمیم نے بھی حل کیے، جو مسائل درپیش آتے رہے، ان کا ذکر کررہا ہوں، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسی ترمیم ہوجو لوکل گورنمنٹ کو تحفظ دے۔ملک احمد خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتی، یہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، لازمی قراردیا جائے کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوں، ہم کہتے ہیں کہ آئینی اورانتظامی اختیارات گراس روٹ تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی سہولت کے تحت سیاسی جماعت ایسا نہ کرسکے کہ مقامی حکومت کی مدت کم کردی جائے، تقریباً ایک صدی سے معاملات طے نہیں پائے جاسکے،پنجاب کی 77سالہ تاریخ اٹھائوں تو 50سال مقامی حکومتوں کا وجود نہیں جوبہت بڑی الارمنگ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں پر بات ضروری ہے، بات چیت کا آغاز کرنے پر معزز اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اراکین کی جانب سے آنے والی آئینی وقانونی تجاویز پر تحسین پیش کرتا ہوں، توقع کرتا ہوں وزیر قانون، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اوردیگر جماعتیں اس کو اہمیت دیں کی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ تمام جماعتوں کے نمائندوں نے یہ معاملہ پنجاب اسمبلی سے وفاق کو بھیجا ہے، توقع ہے اس کو اہمیت دی جائے گی، لوکل گورنمنٹ کے ساتھ گزشتہ صورتحال سے آگاہ کیا،ا سپیڈ بریکر آتے رہے، یہ ٹوٹتی رہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ مقامی حکومتوں، لوکل گورنمنٹ کا گراس روٹ لیول پر نہ ہونا ریاست کے شہری سے معاہدے کو بالکل کمزور کرتا ہے، ریاست کا میرے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، ریاست نے بنیادی طور پر مجھے کچھ چیزیں لازمی دینی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے میری مقامی حکومت ٹیکس وصول کرے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ میرے علاقے میں خرچ ہوگا، کسی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے کے سامنے مسائل نہیں، متوسط طبقے کے ساتھ کئی مسائل ہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہئے، پارلیمان اس پر ضرور غور کرے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ ہم پارلیمان سے کہہ رہے ہیں اگر 27ویں ترمیم کرنی ہے تو شہریوں کے ساتھ ریاست کا معاہدہ مضبوط کریں، اگر آل پارٹیز کانفرنس بھی کرنا پڑتی ہے تو مہربانی کرکے فوری کرائیں، یہ شہری اورریاست کے معاہدے کو مضبوط رکھنے کیلئے لازم ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ متفقہ قرارداد میں کہا گیا کہ 140 اے نامکمل ہے، صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، نئی حکومت نے آتے ہی لوکل گورنمنٹ کو ختم کردیا پھر کیا قانون بنانے میں 3 سال کا عرصہ لگا، لازمی قرار دیا جائے کہ مقررہ مدت میں بلدیاتی انتخابات ہوں۔انہوںنے کہا کہ پنجاب اسمبلی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی، بلدیاتی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے جائیں، لوکل گورنمنٹ کے لیے اگر 27ویں ترمیم کرنا پڑتی ہے تو فوراً کریں۔انہوں نے کہا کہ میں نے فیض آباد اور مری روڈ کو جلتے ہوئے دیکھا، مجھے تشویش ہوتی تھی کہ پاکستان میں لاقانونیت کیوں ہے، میں نے دیکھا کہ کچھ بلوائیوں نے سڑک پر گڑھے کھودے، پولیس پر سیدھے فائر کیے، امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ملک احمد خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو بڑا سیاست دان سمجھتا ہوں، مولانا نے جو کہا وہ ان کی رائے ہے ، ملک میں 27ویں آئینی ترمیم کی بہت بازگشت ہے ، بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہو ہی نہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس کل منگل، قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کرنے کا فیصلہ
  • قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال
  • مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • خان گڑھ: اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس شاہ ،رکن قومی اسمبلی سردار علی گوہر خان مہر سے والدہ کے انتقال پر تعزیت کررہے ہیں
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • رکن قومی اسمبلی علی گوہر مہر اور علی نواز مہر کی والدہ انتقال کر گئیں
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے 93 فیصد ارکان کروڑ و ارب پتی بن گئے، عوام بدحال؛ رپورٹ