Express News:
2025-07-26@14:19:36 GMT

غزوۂ بدر

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

مدینہ منورہ سے اسّی میل کے فاصلے پر ’’بدر‘‘ ایک گاؤں تھا، جہاں حق و باطل کے درمیان پہلا بڑا معرکہ بپا ہُوا، اسی مناسبت سے اسے غزوۂ بدر کا نام دیا گیا۔ یہ لڑائی سترہ رمضان سن دو ہجری کو لڑی گئی، جس میں تین سو تیرہ مسلمان اور ایک ہزار کفار شامل ہوئے۔

سیرت و تاریخ کی مستند کتب کے مطابق مشرکینِ مکہ کے پاس سات سو اُونٹوں کے علاوہ درجنوں گھوڑے اور سیکڑوں کی تعداد میں تیر و تلوار اور جنگی اسلحہ موجود تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مسلم لشکر کے پاس صرف ایک سو ستّر اُونٹ، دو گھوڑے اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اب ہم میدانِ بدر کے جزوی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس جنگ کے نتائج کا ایک نظر جائزہ لینے کے بعد اُن حکمتوں اور اسباق کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو دورِ حاضر میں برپا حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی کش مکش کے ضمن میں راہ نما اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ غزوۂ بدر کے نتیجے میں ستّر کفارِ مکہ ہلاک ہوئے اور اسی قدر گرفتار کرکے مدینہ منورہ لائے گئے، جب کہ صرف چودہ مسلمان درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔

اس تمہید کے تناظر میں غزوۂ بدر کے اسباب و نتائج کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک حتمی نتائج اور ناکامی و کا م یابی کے لیے تعداد کی کمی و زیادتی اور مال و دولت اور وسائل کی قلّت و کثرت ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور اس بابت اصل اور بنیادی اہمیت معیار کی ہے، وگرنہ بے سر و سامان تین سو تیرہ کی اقلیت کا مادی و جنگی ہتھیاروں سے لیس ایک ہزاری اکثریت سے کیا مقابلہ تھا۔۔۔۔ ؟

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’بارہا! ایک قلیل سا گروہ ایک کثیر اور بڑے گروہ پر اﷲ تعالٰی کے حکم سے غالب آیا ہے اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ) گویا نہتّے، کم زور اور مظلوم طبقات کو ظالموں اور کافروں کی اکثریت اور مادی شان و شوکت سے مرعوب ہوکر مایوس نہیں ہونا چاہیے بل کہ صبر و استقامت کے ساتھ حق و صداقت اور عدل و انصاف کے ثبات و قیام کی جدوجہد کو بہ ہر صورت جاری رکھنا چاہیے۔ معرکہ بدر کا ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ جہاں مخالفانہ اکثریت و قوّت سے خوف زدہ ہوکر حق مشن کو ترک نہیں کرنا، وہاں باطل طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم اِس قدر مادی وسائل اور قوّت ضرور حاصل کرنا لازمی امر ہے کہ دشمنوں پر رعب و دبدبے کا باعث بن سکے۔

قرآن حکیم سورۂ انفال کے مطابق، مفہوم: ’’اور ان دشمنوں کے مقابلے کے لیے جس قدر امکانی قوّت اور سرحدوں کی حفاظت کا سامان مہیّا کرسکو کرو، جس کے ذریعے تم اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرتے رہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے۔ اﷲ انہیں جانتا ہے۔‘‘

غزوۂ بدر کے پیچھے نبی اکرم ﷺ کی پندرہ سالہ اجتماعی و انقلابی محنت موجود ہے اور ہر ممکن افرادی و مادی قوّت تیار کرچکنے کے بعد اِس اجتماعیّت کو بدر کے میدانِ کارزار میں اتارنے سے قبل آقائے نام دار ﷺ اپنے رب کے حضور سر بہ سجود ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اﷲ! اگر آج مسلمانوں کی جماعت مٹ گئی تو اس کے بعد تیری زمین پر تیرا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے بدر کی گرم جنگ سے پہلے دین اسلام کے حق، نظریہ اور آفاقی اصولوں پر تیرہ سالہ مکی دور میں صحابہ کرامؓ کی منظم و تربیت یافتہ جماعت تشکیل دی اور اس مثالی جماعت کو بیسیوں مرتبہ کٹھن اور جاں گسل آزمائشوں سے گزار کر کندن بنا دیا، جس کے بعد مدینہ منورہ میں ریاستی نظام وجود پذیر ہُوا اور اس مرکزی وحدت و نظام کے تحت قتال اور گرم جہاد کی اجازت دی گئی۔ اس سے پہلے مشرکینِ مکہ کے بے پناہ مظالم اور بعض صحابہؓ کی شدید خواہش کے باوجود ’’کْفّْو اَیدِیکْم‘‘ کے تحت برداشت اور عدمِ تشدد کے سخت نظم و نسق کو قائم رکھا گیا۔

سورۂ بقرہ کے اندر طالوت و جالوت کے معرکے میں بھی بنی اسرائیل اپنے نبی سے جنگ لڑنے سے قبل بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر جالوت کا مقابلہ کرنے کے لیے طالوت کو ان پر حقِ حکم رانی تفویض کیا جاتا ہے تب جنگ و قتال کی نوبت آتی ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ مفسرین و مؤرخین کے مطابق بدری مجاہدین کی طرح طالوت اور حضرت داؤدؑ کے لشکر کی تعداد بھی تین سو تیرہ ہی تھی، جنہوں نے نظریۂ توحید و عدل پر منظّم ہو کر ظالم و مشرک جالوتی اکثریت کو شکستِ فاش دی، جس کے نتیجے میں عظیم الشان داؤدی سلطنت وجود میں آئی۔

غزوۂ بدر سے ایک اور سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ معرکۂ حق و باطل اور کش مکشِ ظلم و عدل کے باب میں نظریات اور اصول اہم ہوتے ہیں نہ کہ خونیں ناتے اور رشتے داریاں۔ اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ تمام محبتوں اور عقیدتوں کے مقابلے میں خدا اور اُس کے رسولؐ کی محبت و عقیدت مقدّم اور بالا تر ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔‘‘ بلاشبہ! آج کے دور میں نبوی مشن کو اوّلین ترجیح اور مقصد حیات بنائے بغیر محبت رسولؐ کے بلند بانگ دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں۔ شمع رسالت ﷺ کے پروانوں نے جنگِ بدر میں حق و انصاف کی خاطر اپنے ہی سگے بھائیوں اور خون کے رشتوں کے مدِمقابل آکر ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔

حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ہی بیٹے کا سامنا تھا جس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ کافروں کا ایک سردار عتبہ میدان میں نکلا تو اُس کے بیٹے حضرت حذیفہؓ اپنے ہی باپ کے مقابلے میں سامنے آئے اور حضرت عمر فاروقؓ کی تلوار اپنے ہی ماموں کے خون سے سرخ ہوئی۔ اسی طرح اسیرانِ جنگ میں کسی رشتے داری اور تعلق کو مدنظر نہیں رکھا گیا، اور ان سے باقی قیدیوں کی طرح قانون کے مطابق برابری کا سلوک کیا گیا۔ بعد ازاں جب بدر کے قیدیوں سے رہائی کے لیے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا اور جو فدیہ دینے کے قابل نہ تھے اُن کو تاکید کی گئی کہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور جو اس کے اہل بھی نہ تھے، اُنہیں ویسے ہی آزاد کرکے اُن پر احسان کیا گیا۔ اب یہاں پر جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک اور تعلیم و تعلم کے باب میں رحمت اللعالمینؐ اور کائنات کے معلّم اعظمؐ کا اُسوۂ حسنہ آج کے اس سائنسی دور میں مسلم ممالک کے علمی و اخلاقی زوال کی نشان دہی کرتے ہوئے ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا درس دے رہا ہے۔

غزوۂ بدر میں اﷲ تعالٰی نے مومنین کی مدد فرمائی جس میں بارش کا بروقت برسنا، مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان و سکون نازل کرنا اور فرشتوں کا نازل کرنا شامل ہے۔

قرآن حکیم میں اﷲ رب العالمین نے فرمایا: ’’یقیناً خدا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم کم زور تھے، پس اﷲ سے ڈرو تاکہ تم شُکر گزار بن جاؤ۔‘‘ (سورہ آل عمران)

اب یہاں پر یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ عالم مادی میں ہم کوشش کے مکلّف اور روادار ضرور ہیں جو کہ دارالاسباب اور دارالعمل ہے اور ہمیں یہاں جدوجہد کرنے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن نتائج پیدا کرنے پر ہم پوری طرح قادر نہیں ہیں، بل کہ عالمِ مادی کے اُوپر اﷲ تعالٰی کا ایک ماورائی اور غیبی نظام بھی کام کر رہا ہے جو کہ مادی نظام پر غالب اور بالادست ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بدر میں کم وسائل کی حامل ایک محدود سی اقلیت اپنے مدمقابل مادی و افرادی وسائل سے لیس اکثریت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے، اسی کو قرآن حکیم خدائی مدد قرار دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی کے لیے سچائی اور عدل کی علم برداری پہلی اور جہدِ مسلسل دوسری لازمی شرط ہے۔ از روئے قرآن: ’’اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قرا ن حکیم کے مقابلے اﷲ تعال ی کے مطابق اپنے ہی بدر کے کے لیے کا ایک اور اس

پڑھیں:

فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 

انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس عبادت کا اصل مفہوم صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج کے چند ظاہری اعمال نہیں بل کہ بندے کے دل و دماغ، نیت، فکر اور ارادے کی اصلاح بھی ہے جو کہ ’’اصلاحِ نفس‘‘ کے جامع عنوان میں سمٹتی ہے۔

اسلام صرف ظاہر پر زور دینے والا دین نہیں بل کہ وہ باطن کی صفائی، قلبی طہارت، نیت کی درستی اور شخصیت کی اندرونی تعمیر پر نہایت شدّت سے زور دیتا ہے۔ انسان کا نفس اگر سنور جائے، اس کے باطن میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بہ خود سنور جاتا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کام یاب ہوگیا۔ اور بے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت کریمہ میں کام یابی اور ناکامی کا مدار صرف تزکیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو گندگی سے پاک کرے، وہی اصل فلاح پانے والا ہے اور جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جائے، وہ اﷲ کے ہاں ناکام و نامراد ہے۔

اصلاحِ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جن تین بنیادی مقاصد کے لیے مبعوث فرمایا، ان میں سے ایک نمایاں مقصد تزکیہ ہے۔ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعۃ)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف تعلیم نہیں بل کہ باطنی تطہیر بھی ہے، جس کے بغیر محض علم فائدہ نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ نفس کی عملی تعلیم اپنے صحابہؓ کو دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے، مفہوم: ’’خبردار! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف ہے کیوں کہ دل ہی نیّت، ارادے اور فکر کا مرکز ہے اور اگر وہ فساد سے پاک نہ ہو تو ظاہری اعمال بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔

اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسِ امّارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’بے شک! نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف) انسان جب تک اپنے نفس کی تربیت نہ کرے، وہ خواہشات کی غلامی میں مبتلا رہتا ہے جس کا نتیجا یہ نکلتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس دراصل اس جہاد کا نام ہے جس میں بندہ اپنے اندرونی دشمن یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے تربیت کی بہت سی عملی صورتیں صحابہ کرامؓ کو سکھائیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں آکر عرض کیا: حضور ﷺ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی غصہ بھی نفس کی ایک بڑی بیماری ہے جو آدمی کو ظلم، فحش گوئی اور فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ نفس کو قابو میں رکھو، اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھو اور دوسروں کو ایذا نہ دو۔ یہی اصلاحِ نفس ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور نفس کی اور اس کے درست بنانے کی قسم، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور فطری طور پر موجود ہے، اب اس پر لازم ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اپنائے اور یہ وہی اصلاحِ نفس ہے جس کا حکم اﷲ نے دیا ہے۔

اصلاحِ نفس صرف عبادات کا نام نہیں بل کہ وہ ایک مسلسل جہاد ہے جس میں انسان اپنے اخلاق، اپنی نیت، اپنے معاملات، اپنے غصے، حسد، بخل، تکبر، ریا اور ہر اُس چیز سے لڑتا ہے جو اﷲ کی رضا سے دور کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی) یعنی جہاد انسان کے اندر بھی ہے، وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا اور اﷲ کی رضا کو ترجیح دینا ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ بندہ جو بھی عمل کرے، محض اﷲ کے لیے کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان کے دل میں اﷲ کی رضا کی نیت ہو تو اس کا ہر عمل اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر نیت خراب ہو تو بڑا عمل بھی ریاکاری بن جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس کی ایک بڑی علامت تواضع و انکساری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اﷲ کے لیے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسند احمد) تکبر، نفس کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ شیطان اسی غرور کا شکار ہُوا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو عاجزی پر مجبور کرے تاکہ اﷲ کی رضا نصیب ہو۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت اصلاحِ نفس کا مکمل نصاب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، حکم اور ارشاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بندہ کس طرح اپنے باطن کو سنوارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) اور خیر خواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا نفس صاف ہو، اس میں بغض، حسد، خود غرضی اور نفرت نہ ہو۔

اصلاحِ نفس کے لیے ذکرِ الٰہی، توبہ و استغفار اور صحبتِ صالحین کو انتہائی مؤثر ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) ذکرِ الٰہی نفس کو جِلا دیتا ہے، اس کی گندگی دھوتا ہے اور اسے اﷲ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح توبہ بھی ایک باطنی غسل ہے جو انسان کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر انسان خطا کرتا ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی) اسی طرح صحبتِ صالحین بھی اصلاحِ نفس کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) نیک لوگوں کی صحبت انسان کے باطن کو سنوارتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت نفس کو مزید خراب کرتی ہے۔

اصلاحِ نفس ایک مسلسل جدوجہد ہے، یہ کوئی وقتی عمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہے۔ عبادات میں اخلاص، معاملات میں دیانت، اخلاق میں حلم و بردباری، زبان میں سچائی، دل میں خوفِ خدا اور زندگی کے ہر فیصلے میں تقویٰ، نفس کی اصلاح کے بغیر دین کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا۔

انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت، خاص طور پر رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اصلاحِ نفس کی زندہ مثال ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود ہر مرحلے پر اپنے نفس کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھا بل کہ صحابہ کرامؓ کو بھی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکیں۔ ’’اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (سنن ترمذی)

الغرض یہ بات طے شدہ ہے کہ کام یابی کا راز نفس کی اصلاح میں ہے۔ دنیاوی فلاح، دینی پاکیزگی اور اخروی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! وہی کام یاب ہُوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ) لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اس کی بیماریوں کو پہچانیں، انھیں قرآن و سنت کے طریقے سے دور کریں اور اپنی زندگی کو تقویٰ، تواضع، اخلاص، ذکر اور توبہ سے بھر دیں۔ تبھی ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے جن کے متعلق اﷲ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ (النازعات)

اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی میں نفس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ دنیا سے رخصت کرے تاکہ ہم جنّت کے ان وارثین میں شامل ہو سکیں جن کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • سمیع خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • غزہ کی مائیں رات کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی ہیں ان کے بھوکے بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں
  • صفر المظفر 1447 ہجری کا چاند نظر نہیں آیا، یکم صفر 27 جولائی کو ہوگی
  • کمبوڈیا کیساتھ جھڑپیں، تھائی لینڈ نے اپنے 8سرحدی اضلاع میں مارشل لا نافذ کردیا
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • پرنس جارج کی بورڈنگ اسکول منتقلی کے فیصلے پر کیٹ مڈلٹن شدید ذہنی دباؤ کا شکار
  • بانی پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اپنے حق میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟