پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1991 میں یوکرین، بیلاروس اور روس نے سی آئی ایس قائم کی تھی، یوکرین اب اس کا ایکٹیو ممبر نہیں ہے، لتھوینیا، لیٹویا اور ایسٹونیا اس میں شامل ہی نہیں ہوئے، سینٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستوں سمیت اب اس کے 10 ایکٹیو ممبر ہیں۔
اپریل 2023 میں سی آئی ایس یعنی کامن ویلتھ آف انڈیپینڈنٹ اسٹیٹ کا اجلاس ہوا تھا، اس موقع پر جو اسٹیٹمنٹ جاری کی گئی اس میں انتباہ کیا گیا کہ داعش، القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، ٹی ٹی پی، بلوچستان لبریشن آرمی، جنداللہ، جیش العدل، جماعت انصاراللہ اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) ریجنل اور گلوبل تھریٹ ہیں۔
عسکریت پسندوں کے ان ناموں پر غور کریں، اس میں ایران مخالف، پاکستان مخالف، چین مخالف تنظیمیں شامل ہیں، کچھ ایسی بھی ہیں جن کا ایجنڈا گلوبل ہے۔ ان سب کے خلاف سی آئی ایس کا مشترکہ بیان دیکھیں۔ اب اس کے ممبر ملک سوچیں جن میں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزستان، قازقستان، آذر بائیجان شامل ہیں۔ روس اس تنظیم کا لیڈر ہے، اس مشترکہ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے ممبر ملک علیحدگی پسند بی ایل اے اور مذہبی شدت پسند ٹی ٹی پی کے بھی مخالف کھڑے ہیں۔
خیر سے ان ساری ہی تنظیموں کے فٹ پرنٹس افغانستان میں ملتے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند زرنج افغانستان میں اپنے ہینڈلر سے بات کرتے رہے، زرنج نمروز افغانستان میں ہے، نمروز اور ہلمند دو ایسے افغان صوبے ہیں جہاں بلوچ بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ بی ایل اے کے دو دھڑے ہیں، جعفر ایکسپریس پر حملہ بشیر زیب کی بی ایل اے نے کیا۔ بی ایل اے آزاد حیر بیار مری کی رہنمائی میں کام کرتی ہے، حیر بیار بی ایل اے سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔
حیر بیار مری آج کل اسرائیلی سائٹ میمری پر پر آزاد بلوچستان کا اپنا آئیڈیا پیش کرتے رہتے ہیں، حیر بیار کے آزاد بلوچستان میں ایرانی بلوچستان کا بڑا حصہ چاہ بہار بندرگاہ اور بندر عباس شامل ہیں، افغانستان سے نمروز اور ہلمند کے صوبے بھی اس بلوچستان کا حصہ بتائے جاتے ہیں۔
افغانستان سے مسلسل افغان طالبان کی اندرونی تقسیم کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں، وزیر داخلہ سراج الدین کے اختیارات ڈپٹی وزیر داخلہ ابراہیم صدر دیکھ رہے ہیں، افغان عبوری وزیردفاع ملا یعقوب جو ملا عمر کے صاحبزادے ہیں ان کی وزارت میں عبدالقیوم ذاکر اہم ہوگئے ہیں۔ عبدالقیوم ذاکر لو پروفائل رہنے والے طاقتور طالبان رہنما ہیں، ملا اختر منصور کو امیر بنائے جانے کے وقت یہ بھی امارت کے مضبوط امیدوار تھے، ان کا ہلمند، نمروز اور ایرانی بلوچستان میں بہت اثر ہے، ابراہیم صدر کا تعلق بھی ہلمند سے ہے۔
ان دونوں جوانوں کی پوزیشن دیکھیں بلوچ ایریا سے کنیکشن دیکھیں، اس کے بعد بشیر زیب اور حیر بیار کی بی ایل اے میں فرق نوٹ کریں ، آگے ڈاٹ ملانا آپ کا کام ہے۔ سراج حقانی طویل عرصہ منظر سے غائب رہنے کے بعد خوست میں ظاہر ہوگئے ہیں، وہ عوامی رابطے کررہے ہیں، افغان طالبان کی سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی یہ اختلافات حل کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر افغان طالبان کے اندر بھی سوچ کا اختلاف موجود ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دھڑے بندی اور تقسیم میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔
پاکستانی ریاست کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے ہاں امن قائم کرے، ایک پاکستانی ریاست وہ ہے جسے ہم سوشل میڈیا پر دھوتے ہیں، سیاسی عدم استحکام انتشار کی حد تک بڑھا ہوا ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہے، ایک مقبول جماعت کا لیڈر جیل میں بیٹھا ہے، شدت پسندی کے علاوہ علیحدگی پسند بھی مسلح کارروائیاں تندہی سے کررہے ہیں۔ ملکی معیشت گرتی پڑتی چل رہی ہے، سوشل میڈیا بے قابو ہے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا غیر مؤثر ہے، عدالتی نظام دہشتگردی کے علاج میں معاون نہیں بلکہ کافی حد تک مددگار ہے۔
اتنے مشکل حالات میں چلنے والے ملک کی کوئی سٹرینتھ بھی تو ہوگی، پاکستان کا نظام جیسا بھی ہے یہ علیحدگی کی تحریکیں بھگت چکا، شدت پسندی، دہشت گردی کی لہروں کا سامنا کرچکا، 2 افغان جنگوں کے نتائج بھگت چکا اور ان میں حصہ لے چکا۔ ریاستی پالیسی جو بھی ہو کسی کو اچھی لگے یا بری اس پر عملدرآمد ہر ڈیزائن کے سیاستدان، آمر اور ادارے مذہبی جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر پر اپنا مؤقف تبدیل نہیں کیا، ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل کیا، سی پیک ون بھی بڑی حد تک مکمل کیا، افغانستان پر بھی دنیا ہمیں ڈو مور اور ڈبل پالیسی کے طعنے ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی دیتی رہی۔
حکومت کسی کی بھی ہو، چیف کوئی بھی ہو، اپوزیشن جیسی بھی ہو، پاکستان اگر ریاست ہے جو کے ہے تو پھر اسے علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں دونوں کا علاج کرنا ہے، دنیا کے حالات کافی حد تک اس حوالے سے پاکستان کے لیے موافق ہیں، اس کے لیے پرانا حوالہ سی آئی ایس کا 2023 کا اجلاس ہے۔ نیا حوالہ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کی تعریف ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر تیزی سے اٹھی ضرور ہے، یہ وقتی ہے اس کا زور جلد ہی ٹوٹ جائے گا، اس کی وجوہات ہیں جن پر بات ہوگی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews افغانستان بی ایل اے پاکستان دہشتگردی شدت پسند تنظیمیں عالمی برادری کارروائی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان بی ایل اے پاکستان دہشتگردی عالمی برادری کارروائی وی نیوز سی آئی ایس بی ایل اے حیر بیار شامل ہی کے لیے بھی ہو
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا بھارتی آبی دہشتگردی ہے، شیخ رشید
ایک بیان میں سابق وزیر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ظلم و ستم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان زمین کے چپے چپے کی حفاظت کرنا پاکستانی قوم خوب جانتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا بھارت کی آبی دہشت گردی ہے۔ ایک بیان میں شیخ رشید نے کہا ہے کہ بھارت یک طرفہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر میں ظلم و ستم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سابق وفاقی وزیر کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان زمین کے چپے چپے کی حفاظت کرنا پاکستانی قوم خوب جانتی ہے، وقت آنے پر بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے۔ واضح رہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ فوری معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔