Daily Ausaf:
2025-11-03@21:40:59 GMT

لکھے مو سا پڑھے خود آ

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

ہمارے ایک مسلم سکالر اپنے پوڈکاسٹ کی کلپس میں ایک بڑا مشکل لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے جیسے متوسط پڑھے لکھوں اور زبان کے تھوتلوں کے لئے تو یہ لفظ اکٹھا بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر وہ اسے بڑی روانی اور سلاست کے ساتھ بولتے ہیں۔ ان کا یہ پسندیدہ لفظ “اینتھروپومارفزم” ہے۔ سکول کے زمانے میں اس سے ایک چھوٹے لفظ “قسطنطنیہ” کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر کے یاد کیا کرتے تھے اور اینتھروپومارفزم” تو کرکٹ کے فاسٹ بولر کے رن اپ جتنا لمبا ہے جسے طے کرنا ہم جیسے نالائق طالب علموں کے لیئے اتنا آسان نہیں ہے۔
ایک دن ان صاحب سے ایک صحافی نے اس لفظ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے انتہائی پرسکون انداز میں جواب دیا کہ اس لفظ کا مطلب “عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنا۔” ہے۔ اب ہر دوسرا شخص اس جملے کو لے کر پریشان ہے کہ عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس لفظ کے صحیح اور اصل معنی جاننا اسی طرح مشکل ہے جیسے “لکھے مو سا پڑھے خود آ” کے محاورے کو جاننا مشکل ہے۔ مو بال کو کہتے ہیں یعنی کہ بال جیسا باریک لکھے اور پڑھنے کے لئے بھی خود ہی آئے۔ حالانکہ ہم اردو اہل زبان اتنے سست اور کاہل ہیں کہ اس صحیح محاورے کو بھی اپنی آسانی کے لئے، لکھے موسی پڑھے خدا کے طور پر لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔
مرزا اسداللہ غالب کو شروع میں لوگ اردو زبان کا مشکل ترین شاعر سمجھتے تھے مگر جب انہیں احساس ہوا تو انہوں نے اردو زبان کو اپنی شاعری سے ایسی روانی اور سلاست بخشی کہ جو کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہ آ سکی، گو کہ ان کے کچھ شعروں کو آسان الفاظ کے باوجود سمجھنا اسی طرح مشکل ہے جیسا کہ اینتھروپومارفزم کا مشکل لفظ ہے یا پھر غالب ہی کا ایک آسان لفظوں کا مشکل شعر ہے کہ: نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔” غالب کا یہ شعر دنیا کی بے ثباتی کو ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز فریاد لیئے ہوئے ہے جس کے تن پر کاغذ کا لباس ہے اور وہ اپنے مٹنے کے لیئے اسی طرح ہر پل تیار کھڑی ہے جیسا کہ شاعر کی شوخی تحریر وقت کے لمحات میں گم ہونے کو تیار ہے۔
قدیم ایران میں رسم تھی کہ مظلوم فرد حاکم کے سامنے کاغذی لباس پہن کر جاتا تھا یا بانس پر خون آلود کپڑا لٹکا کر لے جاتا تھا کہ حاکم کے دربار میں سب کو معلوم ہو جائے کہ کوئی مظلوم داد رسی کے لیئے دربار میں حاضر ہوا ہے۔
گوگل یا مصنوعی ذہانت(اے آئی) کی مدد سے اس لفظ کو آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو”اینتھروپومارفزم” سے مراد کسی غیر انسانی چیز، مخلوق، یا خدائی وجود کو انسانی صفات دینے سے ہے۔یہ ایک عام رویہ ہے جو ہم روزمرہ کی زبان میں بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بادل غصے میں ہے یا چاند اداس لگ رہا ہے” تو یہ دراصل اینتھروپومارفزم کی مثالیں ہیں۔ حقیقت میں نہ بادل کو غصہ آتا ہے اور نہ چاند کو اداسی محسوس ہوتی ہے، مگر ہم انسانی جذبات کو ان پر منطبق کر دیتے ہیں تاکہ اپنی بات کو زیادہ موثر اور بامعنی بنایا جا سکے۔
ہمارے یہ عالم فاضل اس لفظ کو ایک تصور بنا کر زیادہ گہری اور فکری سطح پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اینتھروپومارفزم کا مطلب ہے “عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنا” یعنی انسانی دنیا (ناسوت) کی صفات اور محدودات کو خدائی دنیا(لاہوت) پر لاگو کرنا ہے۔
اس کا ایک عام مظہر یہ ہے کہ ہم خدا کو انسانی جذبات جیسا کہ غصہ، محبت، خوشی یا ناراضی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یا اسے کسی انسانی شکل میں تصور کرنے لگتے ہیں حالانکہ خدائی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے، مگر ہم اسے اپنے تجربے اور زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی اینتھروپومارفزم ہے، یعنی خدائی کو انسانی دائروں اور پیمانوں کے مطابق جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔مشکل الفاظ سے گھبرانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چایئے۔ اینتھروپومارفزم جیسے مشکل الفاظ سن کر اگر پہلی بار میں سمجھ نہ آئے تو دوسری کوشش کرنی چایئے۔ یہ بالکل نارمل ہے بعض اوقات، جب ہم کوئی نیا یا غیر مانوس لفظ سنتے ہیں اور اسے سمجھ نہیں پاتے تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم کچھ کم جانتے ہیں یا ہماری تعلیم میں کوئی کمی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ لمحہ ہمیں سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ کسی بھی زبان میں، خاص طور پر ادبی یا فلسفیانہ گفتگو میں، ایسے الفاظ آتے رہتے ہیں جو عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے۔
یہ صرف اردو تک محدود نہیں۔ اگر آپ انگریزی کے پرانے کلاسیکی الفاظ پڑھیں تو وہاں بھی ایسے الفاظ ملتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ڈکشنری کھولنی پڑتی ہے مثلا اگر کوئی شیکسپیئر یا قدیم فلسفیوں کی تحریریں پڑھے تو وہاں بھی ایسے الفاظ آتے ہیں جو آج کے عام انگریزی بولنے والے کے لئے نئے ہوں گے۔ لہٰذا اگر کسی لفظ کا مطلب سمجھ نہ آئے تو اسے کمتر ہونے کی بجائے نئے سیکھنے کے موقعہ کے طور پر دیکھیں۔ اگلی بار جب کوئی مشکل اصطلاح آئے تو بجائے الجھن میں پڑنے کے، اسے جاننے اور سمجھنے کی جستجو کریں سیکھنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود انسان کے لیئے زندگی گزارنا اینتھروپومارفزم جتنا مشکل مرحلہ ہے مگر جب ہم اسے جینے کے عادی ہو جاتے ہیں اور زندگی کا مطلب سمجھ جاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اتنی ہی آسان ہو جاتی ہے جتنا کہ “لکھے مو سا پڑھے خود آ” جیسا محاورہ آسان ہے کہ زندگی میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لیئے کبھی بھی جلد بازی سے کام نہ لیں اور چیزوں کو بے شک دھیرے دھیرے سمجھنے کی کوشش کریں مگر انہیں ہمیشہ اپنے لئے سادہ اور آسان بنانے کی کوشش کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرتے ہیں کے لیئے کا مطلب لکھے مو کی کوشش کے لئے اس لفظ

پڑھیں:

غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے

قابض صیہونی رژیم غزہ میں انسانی امداد کو پہنچنے سے روکنے کیلئے بین الاقوامی اداروں کے سامنے جھوٹے بہانے تراش رہی ہے جبکہ یہ امر امدادی تنظیموں کیجانب سے احتجاج کا سبب بنا ہے اسلام ٹائمز۔ قابض و سفاک اسرائیلی رژیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کی 40 بین الاقوامی تنظیموں نے تاکید کی ہے کہ قابض صیہونی رژیم غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل میں اب بھی رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے انسانی امداد کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے، خاص طور پر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لئے "رجسٹریشن کا نیا نظام" بنایا ہے کہ جس کی وجہ سے غزہ کی پٹی سے باہر کی دسیوں ملین ڈالر کی امداد کو مختلف حیلوں بہانوں سے "ضبط" کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، آکسفیم اور نارویجین ریفیوجی کونسل جیسی بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیلی رژیم نے جنگ بندی کے پہلے 12 دنوں میں امداد کی ترسیل سے متعلق 99 فیصد درخواستوں کو مسترد کیا ہے جس کے باعث ناروے کی پناہ گزین کونسل کی تقریباً تمام درخواستیں ہی مسترد کر دی گئیں۔ اس بارے نارویجن ریفیوجی کونسل کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کو تعطل کا شکار بنا دیا گیا ہے کیونکہ جب بھی وہ غزہ میں امداد کی ترسیل کے لئے درخواست دائر کرتی ہے تو قابض صہیونی کہتے ہیں کہ اس تنظیم کی رجسٹریشن کا "جائزہ" لیا جا رہا ہے اور اس وقت تک اسے غزہ میں کوئی سامان لے جانے کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب غاصب صیہونی رژیم نے بھی اپنے جرائم کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تنظیموں کو امداد فراہم کرنے کی اجازت نہیں اور اسی وجہ سے اب تک ان تنظیموں کی تین چوتھائی درخواستیں بھی مسترد کی گئی ہیں۔ گذشتہ مارچ میں، قابض صیہونی رژیم نے نئے قوانین نافذ کئے تھے کہ جن کے تحت غزہ اور مغربی کنارے میں فعال انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو دوبارہ سے رجسٹر کروانے کی ضرورت ہے۔ قابض اسرائیلی حکام کے مطابق یہ رجسٹریشن جاری سال کے اختتام سے قبل کروانا ضروری ہے بصورت دیگر ان تنظیموں کا "لائسنس" منسوخ کر دیا جائے گا۔

ادھر فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی - انروا (UNRWA) نے بھی اعلان کیا ہے کہ 10 لاکھ افراد کے لئے سردیوں کا گرمائشی سامان ابھی تک گوداموں میں رکھا ہوا ہے کیونکہ اسرائیل اسے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت تاحال نہیں دے رہا۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان میں انسانی بحران، الفاشر سے 62 ہزار سے زائد بے گھر افراد کی ہجرت
  • غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • دہلی کی زہریلی ہوا میں سانس لینا مشکل ہورہا ہے، پرینکا گاندھی
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • تلاش
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ایک مشکل کا سامنا