ہمارے ایک مسلم سکالر اپنے پوڈکاسٹ کی کلپس میں ایک بڑا مشکل لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے جیسے متوسط پڑھے لکھوں اور زبان کے تھوتلوں کے لئے تو یہ لفظ اکٹھا بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر وہ اسے بڑی روانی اور سلاست کے ساتھ بولتے ہیں۔ ان کا یہ پسندیدہ لفظ “اینتھروپومارفزم” ہے۔ سکول کے زمانے میں اس سے ایک چھوٹے لفظ “قسطنطنیہ” کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر کے یاد کیا کرتے تھے اور اینتھروپومارفزم” تو کرکٹ کے فاسٹ بولر کے رن اپ جتنا لمبا ہے جسے طے کرنا ہم جیسے نالائق طالب علموں کے لیئے اتنا آسان نہیں ہے۔
ایک دن ان صاحب سے ایک صحافی نے اس لفظ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے انتہائی پرسکون انداز میں جواب دیا کہ اس لفظ کا مطلب “عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنا۔” ہے۔ اب ہر دوسرا شخص اس جملے کو لے کر پریشان ہے کہ عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس لفظ کے صحیح اور اصل معنی جاننا اسی طرح مشکل ہے جیسے “لکھے مو سا پڑھے خود آ” کے محاورے کو جاننا مشکل ہے۔ مو بال کو کہتے ہیں یعنی کہ بال جیسا باریک لکھے اور پڑھنے کے لئے بھی خود ہی آئے۔ حالانکہ ہم اردو اہل زبان اتنے سست اور کاہل ہیں کہ اس صحیح محاورے کو بھی اپنی آسانی کے لئے، لکھے موسی پڑھے خدا کے طور پر لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔
مرزا اسداللہ غالب کو شروع میں لوگ اردو زبان کا مشکل ترین شاعر سمجھتے تھے مگر جب انہیں احساس ہوا تو انہوں نے اردو زبان کو اپنی شاعری سے ایسی روانی اور سلاست بخشی کہ جو کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہ آ سکی، گو کہ ان کے کچھ شعروں کو آسان الفاظ کے باوجود سمجھنا اسی طرح مشکل ہے جیسا کہ اینتھروپومارفزم کا مشکل لفظ ہے یا پھر غالب ہی کا ایک آسان لفظوں کا مشکل شعر ہے کہ: نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا، کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔” غالب کا یہ شعر دنیا کی بے ثباتی کو ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز فریاد لیئے ہوئے ہے جس کے تن پر کاغذ کا لباس ہے اور وہ اپنے مٹنے کے لیئے اسی طرح ہر پل تیار کھڑی ہے جیسا کہ شاعر کی شوخی تحریر وقت کے لمحات میں گم ہونے کو تیار ہے۔
قدیم ایران میں رسم تھی کہ مظلوم فرد حاکم کے سامنے کاغذی لباس پہن کر جاتا تھا یا بانس پر خون آلود کپڑا لٹکا کر لے جاتا تھا کہ حاکم کے دربار میں سب کو معلوم ہو جائے کہ کوئی مظلوم داد رسی کے لیئے دربار میں حاضر ہوا ہے۔
گوگل یا مصنوعی ذہانت(اے آئی) کی مدد سے اس لفظ کو آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو”اینتھروپومارفزم” سے مراد کسی غیر انسانی چیز، مخلوق، یا خدائی وجود کو انسانی صفات دینے سے ہے۔یہ ایک عام رویہ ہے جو ہم روزمرہ کی زبان میں بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بادل غصے میں ہے یا چاند اداس لگ رہا ہے” تو یہ دراصل اینتھروپومارفزم کی مثالیں ہیں۔ حقیقت میں نہ بادل کو غصہ آتا ہے اور نہ چاند کو اداسی محسوس ہوتی ہے، مگر ہم انسانی جذبات کو ان پر منطبق کر دیتے ہیں تاکہ اپنی بات کو زیادہ موثر اور بامعنی بنایا جا سکے۔
ہمارے یہ عالم فاضل اس لفظ کو ایک تصور بنا کر زیادہ گہری اور فکری سطح پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اینتھروپومارفزم کا مطلب ہے “عالمِ ناسوت کو عالمِ لاہوت میں خلط کرنا” یعنی انسانی دنیا (ناسوت) کی صفات اور محدودات کو خدائی دنیا(لاہوت) پر لاگو کرنا ہے۔
اس کا ایک عام مظہر یہ ہے کہ ہم خدا کو انسانی جذبات جیسا کہ غصہ، محبت، خوشی یا ناراضی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، یا اسے کسی انسانی شکل میں تصور کرنے لگتے ہیں حالانکہ خدائی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے، مگر ہم اسے اپنے تجربے اور زبان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی اینتھروپومارفزم ہے، یعنی خدائی کو انسانی دائروں اور پیمانوں کے مطابق جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔مشکل الفاظ سے گھبرانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چایئے۔ اینتھروپومارفزم جیسے مشکل الفاظ سن کر اگر پہلی بار میں سمجھ نہ آئے تو دوسری کوشش کرنی چایئے۔ یہ بالکل نارمل ہے بعض اوقات، جب ہم کوئی نیا یا غیر مانوس لفظ سنتے ہیں اور اسے سمجھ نہیں پاتے تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم کچھ کم جانتے ہیں یا ہماری تعلیم میں کوئی کمی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ لمحہ ہمیں سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ کسی بھی زبان میں، خاص طور پر ادبی یا فلسفیانہ گفتگو میں، ایسے الفاظ آتے رہتے ہیں جو عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے۔
یہ صرف اردو تک محدود نہیں۔ اگر آپ انگریزی کے پرانے کلاسیکی الفاظ پڑھیں تو وہاں بھی ایسے الفاظ ملتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ڈکشنری کھولنی پڑتی ہے مثلا اگر کوئی شیکسپیئر یا قدیم فلسفیوں کی تحریریں پڑھے تو وہاں بھی ایسے الفاظ آتے ہیں جو آج کے عام انگریزی بولنے والے کے لئے نئے ہوں گے۔ لہٰذا اگر کسی لفظ کا مطلب سمجھ نہ آئے تو اسے کمتر ہونے کی بجائے نئے سیکھنے کے موقعہ کے طور پر دیکھیں۔ اگلی بار جب کوئی مشکل اصطلاح آئے تو بجائے الجھن میں پڑنے کے، اسے جاننے اور سمجھنے کی جستجو کریں سیکھنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود انسان کے لیئے زندگی گزارنا اینتھروپومارفزم جتنا مشکل مرحلہ ہے مگر جب ہم اسے جینے کے عادی ہو جاتے ہیں اور زندگی کا مطلب سمجھ جاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اتنی ہی آسان ہو جاتی ہے جتنا کہ “لکھے مو سا پڑھے خود آ” جیسا محاورہ آسان ہے کہ زندگی میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لیئے کبھی بھی جلد بازی سے کام نہ لیں اور چیزوں کو بے شک دھیرے دھیرے سمجھنے کی کوشش کریں مگر انہیں ہمیشہ اپنے لئے سادہ اور آسان بنانے کی کوشش کریں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے ہیں کے لیئے کا مطلب لکھے مو کی کوشش کے لئے اس لفظ
پڑھیں:
فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام عالم کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے، سردار عتیق
مسلم کانفرنس کے صدر نے عیدالاضحی کے موقع پر پوری قوم اور امت مسلمہ کو فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کیلئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنے کی تلقین کی۔ اسلام ٹائمز۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر و سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے عیدلاضحی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ حج اور عید الاضحٰی کے اجتماعات سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، بھائی چارے اور رواداری سے رہیں تاکہ ہمارا آپس میں بھائی چارہ اور یگانگت قائم ہو سکے۔انہوں نے عیدالاضحٰی کے موقع پر پوری امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتیوں کے دلخراش مناظر نا پہلے کسی نے دیکھے ہیں اور نہ ہی رہتی دنیا تک اس کی کوئی مثال ملے گی۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام عالم کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کی غزہ اور رفح میں جنگ بندی کے حق میں منظور قراردادوں کے باوجود صیہونی فورسز کی غزہ اور رفع میں جارحیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حیثیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کی وادی میں کشمیری عوام کو بھارتی فورسز کی جانب سے بدترین مظالم کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فورسز کے ہاتھ وادی کشمیر کے معصوم بچوں، بھائیوں اور بہنوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی آئین میں حاصل جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کر کے کشمیری عوام کو اپنی شناخت سے محروم کرنا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ فلسطینی اور کشمیری عوام کو ان کی آزادی کا حق ملے تاکہ وہ ایک آزاد، خود مختار اور زندہ قوموں کی طرح ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔
انہوں نے عید الاضحی کے موقع پر پوری قوم اور امت مسلمہ کو فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی کیلئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنے کی تلقین کی۔ عید الاضحٰی ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دین اسلام کی خاطر دی گئی عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے۔ انہوں نے عید الاضحٰی کی خوشیوں میں غرباء اور مساکین کو برابر کا شریک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ دن دور نہیں جب فلسطین اور کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا اور کشمیری اور فلسطینی عوام آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزاریں گے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا جذبہ ایثار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید الاضحٰی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دین اسلام اور اپنے ملک کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔