گزشتہ 26 دنوں سے بند طورخم بارڈر کھولنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
طورخم بارڈر پر پاک افغان اعلیٰ حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں متفقہ طور پر 26 دنوں سے بند طورخم بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ طورخم بارڈر آج شام 4 بجے طورخم بارڈر پر ٹرانسپورٹرز کے لیے کھول دیا جائے گا جبکہ مکمل طور پر 21 مارچ سے کھول دیا جائے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ طورخم بارڈر پر آج مریضوں کو بھی جانے کی اجازت دی جائے گی جبکہ جمعے کے دن پیدل مسافروں کی باقاعدہ آمد و رفت شروع ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے: 24 روز سے طورخم بارڈر بند، پاکستانی جرگہ مذاکرات کے لیے طورخم پہنچ گیا
واضح رہے کہ سرحدی کشیدگی کی وجہ سے بند پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود طورخم بارڈر کو 26 دنوں بعد کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
دونوں ملکوں کے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور مسافروں نے طورخم بارڈر کھولنے کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
torkham افغانستان بارڈر طورخم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان
پڑھیں:
ناسا کی افرادی قوت میں کمی کا فیصلہ، ملازمین کی تعداد 14 ہزار رہ جائے گی
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جولائی2025ء) امریکی خلائی ادارے نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے اعلان کیا ہے کہ ادارے کی افرادی قوت میں 3,780 ملازمین کی کمی کے بعد عملہ کی تعداد 14 ہزار رہ جائے گی۔ روسی خبر رساں ادارےتاس کے مطابق ایجنسی کی ترجمان شیریل وارنر نے بتایا کہ ناسا کا مقصد ادارے کو زیادہ موثر اور منظم بناتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہے کہ وہ تحقیق اور اختراع کے سنہری دور خصوصاً چاند اور مریخ کے مشنز کو جاری رکھنے کی صلاحیت برقرار رکھ سکے۔(جاری ہے)
ترجمان نے بتایا کہ 3,870 ملازمین، جو ناسا کے موجودہ عملے کا 21 فیصد ہیں، نے موخر استعفیٰ کے دو پروگرامز میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے پر اتفاق کیا ہے جن کے تحت اضافی ادائیگی یا دیگر مراعات فراہم کی جائیں گی۔وارنر نے کہا کہ موخر استعفیٰ پروگرامز اورعملے میں کمی کے بعد ادارے کے مستقل ملازمین کی تعداد تقریباً 14 ہزار رہ جائے گی تاہم یہ تعداد مستقبل میں تبدیل ہو سکتی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مختلف سرکاری اداروں میں عملے میں نمایاں کمی کے اقدامات کیے تھے، جن میں ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کے سابق سربراہ ایلون مسک بھی سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔