کیا امریکی خلابازوں کی تاخیر سے واپسی کے پیچھے سیاسی وجوہات تھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
امریکی خلاباز سنی ولیمز اور بچ ولمور کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر طویل قیام کے بعد واپسی کے حوالے سے ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کے اقدامات پر مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مشیر ایلون مسک، جن کی کمپنی اسپیس ایکس نے خلابازوں کی واپسی میں مدد کی، کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال خلابازوں کو جلد واپس لانے کی پیشکش کی تھی، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ’’سیاسی وجوہات‘‘ کی بنا پر اسے مسترد کردیا۔ تاہم، ناسا اور خلائی ماہرین، بشمول دونوں خلابازوں کے، اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ سیاسی تھا۔
4 مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں، ناسا کے اہلکاروں نے کہا کہ خلابازوں کی واپسی میں تاخیر کی وجوہات میں حفاظت، ایک الگ مشن کے بجٹ کے خدشات، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کو برقرار رکھنے کی خواہش شامل تھی۔ سنی ولیمز اور بچ ولمور کی واپسی کا منصوبہ اسپیس ایکس کے کریو کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایلون مسک سے ذاتی اپیل کرکے خلابازوں کی واپسی کو تیز کردیا۔ تاہم، خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ گزشتہ موسم گرما سے زیر غور تھا، اور ان کی واپسی کا شیڈول اسی منصوبے کے مطابق تھا۔
تاخیر سے واپسی کی وجوہات
سنی ولیمز اور بچ ولمور 5 جون 2024 کو فلوریڈا کے کیپ کیناورل اسپیس فورس اسٹیشن سے بوئنگ کے اسٹارلائنر خلائی جہاز پر زمین سے روانہ ہوئے تھے۔ اس مشن کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ کیا اس خلائی جہاز کو باقاعدہ خلابازوں کی تبدیلی کے مشنز کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، لانچ کے فوراً بعد، اسٹارلائنر میں ہیلیم کے کئی لیک ہوگئے، جس کی وجہ سے واپسی کا مشن روک دیا گیا۔
اگرچہ ہیلیم کے لیکس خلائی اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد مستحکم ہوگئے، لیکن تھرسٹرز کے مسائل کی وجہ سے ناسا نے اسٹارلائنر کو خالی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ایلون مسک نے ناسا اور اسپیس ایکس کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ بنایا۔
اگست 2024 میں، ناسا نے اعلان کیا کہ وہ سنی ولیمز اور بچ ولمور کو فروری 2025 میں اسپیس ایکس کے ڈریگن کیپسول کے ذریعے واپس لائے گا۔ ستمبر میں، کریو-9 مشن لانچ کیا گیا، جس میں ناسا کے نک ہیگ اور روسی خلاباز الیگزینڈر گوربونوف شامل تھے، جو 29 ستمبر کو خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ کیپسول میں دو خالی سیٹیں سنی اور بچ کےلیے رکھی گئی تھیں، جو فروری میں واپس آنے والے تھے۔ ناسا کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ فروری کے آخر تک واپسی کا شیڈول دیگر مشنز کو متاثر کیے بغیر ممکن تھا۔
ٹرمپ اور مسک کے دعوے
ٹرمپ اور مسک نے حالیہ مہینوں میں دعویٰ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے خلابازوں کو نومبر کے انتخابات تک خلائی اسٹیشن پر رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ منفی تشہیر سے بچا جا سکے۔
18 فروری کو فاکس نیوز کے انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے مسک کو خلابازوں کو واپس لانے کے مشن کو تیز کرنے کی اجازت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے جان بوجھ کر خلابازوں کو خلاء میں چھوڑ دیا تھا۔ مسک نے بھی اس بات کی تصدیق کی، لیکن ناسا اور خلابازوں نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا۔
خلابازوں کی رائے
سنی ولیمز اور بچ ولمور نے سی این این کے انٹرویو میں کہا کہ وہ خود کو ’’ترک شدہ’’ یا ’’پھنسے ہوئے‘‘ محسوس نہیں کرتے۔ ولمور نے کہا، ’’ہم تیار ہیں اور ہمارا عزم ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کےلیے تربیت دی گئی ہے۔‘‘
ناسا کی وضاحت
ناسا کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ خلابازوں کی واپسی کا فیصلہ بجٹ، حفاظت، اور خلائی اسٹیشن پر عملے کی ضروریات پر مبنی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان نے بحث کو توانائی بخشی، لیکن اس نے فیصلوں کو متاثر نہیں کیا۔
نتیجہ
خلابازوں کی واپسی کا منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا، اور اس میں تاخیر کی وجوہات فنی اور مالی تھیں۔ ٹرمپ اور مسک کے دعوے سیاسی ہوسکتے ہیں، لیکن ناسا اور خلابازوں کے مطابق، یہ فیصلہ کسی سیاسی دباؤ کے بغیر کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سنی ولیمز اور بچ ولمور خلابازوں کی واپسی کا کی واپسی کا منصوبہ خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کو کے اہلکاروں اسپیس ایکس ٹرمپ اور انہوں نے ناسا اور ناسا کے کا کہنا نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
سپارکو ڈے پر یادگاری ڈاک ٹکٹوں کا اجرا، پاکستان کے خلائی پروگرام کو خراجِ تحسین
سپارکو ڈے کے موقع پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کردیے گئے جو پاکستان کی خلائی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ ٹکٹ آئی کیوب - قمر، پاک سیٹ - ایم ایم 1 اور ای او - 1 کی کامیاب لانچ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے جاری کیے گئے ہیں، جو ملک کے خلائی پروگرام کےلیے نمایاں کامیابی کی علامت ہیں۔
آئی کیوب - قمر، جو 3 مئی 2024 کو چین کے مشن چانگ ای - 6 کے ذریعے لانچ کیا گیا، پاکستان کا پہلا قمری کیوب سیٹلائٹ تھا جس نے چاند کے مدار میں کام کرنے کی صلاحیت کو ثابت کیا اور سورج و چاند کی تصاویر حاصل کیں۔
پاک سیٹ - ایم ایم 1، جو 30 مئی 2024 کو لانچ ہوا، ایک جیو اسٹیشنری کمیونیکیشن سیٹلائٹ ہے جو نشریات، ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ خدمات کو بہتر بناتے ہوئے سماجی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کا الیکٹرو - آپٹیکل سیٹلائٹ ای او - 1، جو 17 جنوری 2025 کو لانچ کیا گیا، ایک مقامی طور پر تیار کردہ مشاہداتی سیٹلائٹ ہے جو زراعت، شہری منصوبہ بندی، ماحولیاتی نگرانی اور قدرتی آفات کے ردعمل کےلیے قیمتی تصاویر فراہم کرتا ہے۔
سپارکو کے ترجمان کے مطابق سپارکو ڈے پر ان ڈاک ٹکٹوں کا اجرا نہ صرف ان تاریخی مشنز کو خراجِ تحسین ہے بلکہ پاکستان کے خلائی سفر کی مسلسل جدوجہد اور خود انحصاری کی بھی علامت ہے۔