پاکستان میں سری لنکا، بنگلادیش، ایتھوپیا جیسے ممالک سے بھی زیادہ مہنگی بجلی اور گیس فروخت کیے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 مارچ 2025ء) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سری لنکا، بنگلادیش، ایتھوپیا جیسے ممالک سے بھی زیادہ مہنگی بجلی اور گیس فروخت کیے جانے کا انکشاف، ملک میں بجلی کے سوا کونسی چیز ہے جو 9 روپے میں بنتی ہو اور 50 میں فروخت ہوتی ہو؟ سولر سسٹم پر اب گراس میٹرنگ کرکے سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بوجھ بجلی صارفین نہیں بلکہ حکومت ہے وہ 50 روپے کی بجلی بیچنا چاہتی ہے، صارف 10 روپے کی بجلی خود بنا سکتا ہے تو 50 روپے کی کیوں خریدے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت کہتی ہے سولر استعمال کرنے والا صارف ہم پر بوجھ ہے، حکومت نے کہا ہے کہ 400 یونٹ پر سیلز ٹیکس لگے گا۔(جاری ہے)
حکومت نے کہا کہ جو یونٹ خریدیں گے اس پر بھی سیلز ٹیکس کاٹیں گے، حکومت کہتی ہے 44 روپے کے یونٹ پر 9 روپے سیلز ٹیکس لیں گے، حکومت کہتی ہے کہ نیٹ میٹرنگ سے 150 ارب کا بوجھ ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ نیپرا کے گزشتہ سال کے فگر دیکھے ہیں 40 ارب کی نیٹ میٹرنگ بجلی خریدی گئی، حکومت کہتی ہے جو گھریلو صارف مہنگی بجلی نہیں خرید رہا وہ بوجھ ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام آپ کے غلام نہیں یہاں کے شہری ہیں، حکومت کو بجلی سستی کرنی چاہیے، صارف مہنگی بجلی کیوں خریدے، موبائل فون نے بھی لینڈ لائن فون کی اجارہ داری ختم کردی تھی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اب لارج اسکیل بجلی جنریشن ختم ہوجائے گی لوگ سولر لگائیں گے، آئندہ لوگ اپنے گھروں پر سولر لگائیں گے اور بجلی پڑوسیوں میں بانٹیں گے، حکومت اپنے اقدامات سے مڈل کلاس شہریوں کو مار رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان سری لنکا، بنگلادیش اور ایتھوپیا سمیت دیگر ممالک سے زیادہ مہنگی بجلی اور گیس بیچتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مہنگی بجلی سیلز ٹیکس
پڑھیں:
خسرہ کے دنیا میں دوبارہ پھیل جانے کا خطرہ سر اٹھانے لگا
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں خسرہ کے کیسز میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
خسرہ وبا کا دنیا میں دوبارہ پھیلنے کا خدشہ سر اٹھا رہا ہے، گزشتہ سال کے دوران دنیا بھر میں 20 فیصد سے زیادہ کیسز بڑھ گئے ہیں، اوسطاً تعداد سے بڑھ کر 10.3 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی مراکز نے اعلان کیا کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی اگر ویکسینیشن نہ ہوتی تاہم ایکسین کی فراہمی میں ابھی بھی رکاوٹیں ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہا کہ خسرہ کی ویکسین نے گزشتہ 50 سالوں میں کسی بھی دوسری ویکسین سے زیادہ جانیں بچائی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ جانیں بچانے اور اس مہلک وائرس کو سب سے زیادہ کمزور لوگوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے ہمیں ہر فرد کے لیے حفاظتی ٹیکوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے چاہے وہ کہیں بھی رہتا ہو۔
تاہم کیسز کی تعداد منفی سمت میں منتقل ہونے لگی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ویکسینیشن سے دور ہورہے ہیں۔ طبی اداروں نے رپورٹ میں کہا کہ پچھلے سال 107,500 افراد، جن میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے، خسرہ سے ہلاک ہوئے، ایسی بیماری جو ویکسینیشن کے ذریعے روکی جا سکتی تھی۔