مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس نے پاکستان کے دیہی توانائی کے منظر نامے میں انقلاب برپا کردیا.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
								اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 مارچ ۔2025 )مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس دور دراز کی آبادیوں کو سستی اور پائیدار بجلی فراہم کر کے پاکستان کے دیہی توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کر رہے ہیں ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مسعود الملک نے مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی کامیابی کے لیے کمیونٹی کی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا.                
      
				
(جاری ہے)
یہ منصوبے انتہائی سستی شرحوں پر 2میگاواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں جوگھریلو صارفین کے لیے 5 روپے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کے لیے 8 روپے فی یونٹ ہے قیمتوں کے اس ماڈل نے پانچ سالوں کے دوران کمیونٹیز کو قومی گرڈ کی لاگت کے مقابلے میں ایک اندازے کے مطابق 168 ملین روپے کی بچت کی ہے. مسعودالملک نے ملک میں مائیکرو گرڈ کی توسیع پذیری کو بڑھانے کے لیے مضبوط ادارہ جاتی تعاون اور پالیسی سپورٹ کی ضرورت پر بھی زور دیا ان کا کہنا ہے کہ چیلنجز جیسے کہ زیادہ لاگت اور محدود مالی قابل عمل حتمی صارفین کے لیے ان کی رسائی میں رکاوٹ ہیں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے بھروسے کو یقینی بنانے کے لیے، خاص طور پر سردیوں کے مہینوں کے لیے ہائبرڈ بیٹری کے حل کو مربوط کرنے کی تجویز پیش کی. انہوں نے تجویز پیش کی کہ ملک کو موسمیاتی مالیات کو راغب کرنے اور کامیاب علاقائی ماڈلز سے سیکھنے کے لیے مائیکرو گرڈ کو اپنی قومی سطح پر طے شدہ شراکت میں شامل کرنا چاہیے پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن میں قابل تجدید توانائی کے ڈپٹی ڈائریکٹر صفدر حیات نے مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے ساتھ شمسی توانائی کے ہائبرڈ ماڈلز کو مربوط کرنے کی جاری کوششوں پر روشنی ڈالی تاکہ اسکیل ایبلٹی اور قابل اعتماد کو بہتر بنایا جا سکے پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن خیبر پختونخواہ میں قابل تجدید توانائی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے 13 چھوٹے مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹس چلا رہی ہے اور ایک 6.95میگا واٹ کا ہائیڈرو پروجیکٹ تیار کر رہی ہے جو چھوٹی صنعتوں کو سپورٹ کرتا ہے یہ کوششیں صنعتی ترقی کے شعبوں میںتوانائی کی رسائی کو بڑھانے کے لیے ہائبرڈ ماڈلز کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں. مسعود الملک نے کہا کہ ان منصوبوں کے اثرات توانائی کی پیداوار سے آگے بڑھے ہیں انہوں نے بچوں کو بجلی کی روشنی میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنا کر، گھریلو کاموں کو بہتر بنا کر جیسے کپڑے دھونے، اور چھوٹے کاروباروں کو سپورٹ کر کے زندگی بدل دی ہے کمیونٹی کی شمولیت ان کی کامیابی کا سنگ بنیاد رہی ہے جس میں مقامی آبادی محنت اور وسائل میں حصہ ڈالتی ہے، ملکیت کے احساس کو فروغ دیتی ہے جو طویل مدتی پائیداری کو یقینی بناتی ہے. انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے وعدے کے باوجود، مائیکرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں ابتدائی لاگت، توسیع پذیری کے مسائل اور تکنیکی مہارت کی کمی شامل ہے ہائبرڈ سسٹمز اور پالیسی ریفارمز جیسے اختراعی حل کے ذریعے ان رکاوٹوں کو دور کرنا ان کی پوری صلاحیت کو کھول سکتا ہے جس سے وہ ملک کے پائیدار توانائی کے مستقبل کا سنگ بنیاد بن سکتے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے توانائی کے انہوں نے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
 حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔