ڈی جی خان؛ لکھانی چیک پوسٹ پر خوارجی دہشتگردوں کا ایک اور حملہ ناکام
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
ڈی جی خان:
پنجاب پولیس ڈیرہ غازی خان نے خوارجی دہشت گردوں کا ایک اور حملہ ناکام بنا دیا۔
خوارجی دہشت گردوں کا پنجاب اور خیبر پختونخوا بارڈر پر تھانہ وہوا کی لکھانی چیک پوسٹ پر رواں ماہ پانچواں حملہ ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق سحری کے وقت 10 سے 12 خوارجی دہشت گرد چیک پوسٹ لکھانی پر تین اطراف سے حملہ آور ہوئے، دہشت گردوں نے حملے میں راکٹ لانچرز اور دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیا۔
پولیس اہلکاروں کے الرٹ ہونے پر تھرمل امیج کیمروں سے دہشت گردوں کی فوری نشاندہی کی، پولیس جوانوں کی بھرپور جوابی کارروائی سے دہشت گرد چیک پوسٹ کے قریب پہنچنے میں ناکام رہے اور دو گھنٹے مقابلہ جاری رہنے کے بعد دہشت گرد بھاری نقصان اٹھا کر فرار ہوگئے۔
آر پی او ڈیرہ غازی خان کیپٹن (ر) سجاد حسن خان نے آپریشن کی کمانڈ کی، ڈی پی او ڈیرہ غازی خان سید علی کی زیرِ کمانڈ کیو آر ایف ٹیمیں بروقت لکھانی چوکی پہنچیں۔ سرحدی علاقے میں پولیس، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سرچ آپریشن جاری ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے اہلکاروں کو شاباش دی اور کہا کہ خوارجی دہشت گرد بزدلانہ حملوں سے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے، پنجاب پولیس خوارجی دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خوارجی دہشت گرد گردوں کا چیک پوسٹ
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔