Islam Times:
2025-04-25@11:25:48 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اسلام ٹائمز: ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کیساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔ تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.

com

اپنے عدل کی شدت سے قتل ہونے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے قضاوت اور عدل کے قصے اور چرچے تو کائنات کی وسعت میں پھیلے ہیں۔ کتب تاریخ میں ان کی زندگی میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ خلفاء اور حکمران طبقے کی رہنمائی سے لے کر ایک عام مسلمان کو عدل و مساوات کی ترسیل تک ہر موڑ پر علی ؑ کا کردار روشن اور مسلمہ ہے۔ آپ ؑ کے ظاہری دور خلافت اور دنیا میں موجودگی کے ایام میں پیش آنے والے واقعات زبان زد عام ہیں جن سے علی ؑ کے عدل کا ایک مستحکم معیار سامنے آتا ہے، جو بعد میں آنے والے ہر صاحب عدل اور عنان عدل پر براجمان انسان کے لیے مشعل کا کام دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ علی ؑ کا عدل ہی علی ؑ کی شہادت کا باعث بنا، لیکن علی اس خدائی عدل پر مایوس نہیں بلکہ سجدہ شکر بجا لا کر خدا کے سامنے خدا کی قسم اٹھا کر فرماتے ہیں "فزت برب الکعبہ۔"

روایت سے ہٹ کر آج ہم علی ؑ کے دور زندگانی کے واقعات کے ذریعے عدل علی ؑ کا بیان نہیں کریں گے اور نہ ہی علی ؑ کے فرامین کی روشنی میں عدل کا معیار پیش کریں گے بلکہ علی ؑ کی وصیتوں کا جائزہ لے کر معلوم کریں گے کہ علی ؑ کے نزدیک عدل، اعتدال، مساوات، برابری اور حقوق کا مقام اور اہمیت کیا ہے۔ جب ابن ملجم نے ضرب لگائی تو اس سے کچھ وقت بعد وصیت میں ارشاد فرمایا: ”تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم رکھنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔“ یعنی توحید و رسالت کے عقائد سے ہی علی ؑ نے عدل کا آغاز فرما دیا ہے اور لوگوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں گے تو یہ بے عدلی ہوگی اور اسی طرح اگر رسول اکرمﷺ کی سنت و سیرت سے منہ موڑیں گے تو بھی عدل و انصاف کا قتل ہوگا، کیونکہ توحید اور رسالت یعنی اللہ اور اس کا رسول مسلمانوں اور انسانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے معاملے میں بے عدلی نہ کی جائے۔

ساتھ ہی توحید و رسالت کو  دو ستون بھی قرار دے دیا اور دو چراغ بھی کہہ دیا۔ یہ مزید روشن مثال ہے کہ اگر ایک ستون اور دوسرے ستون میں فرق، تفریق، تجاوز یا اختلاف یا کمزوری پیدا ہوگئی تو سمجھیں بے عدلی پیدا ہوگئی۔ ایک چراغ کی روشنی ماند پڑی تو جانیں عدل ختم ہوگیا، لہذا دونوں ستونوں کو مضبوط رکھنا اور دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہی دراصل عدل ہے۔ اپنی ظاہری خلافت کے دوران آپ ؑ نے جن کارندوں کو زکواۃ و صدقات کے وصول کرنے پر مقرر فرمایا، انہیں اپنی وصیت میں ارشاد فرمایا: ”دیکھو کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنا اور اس کے املاک پر اس طرح نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں سے اللہ کا حق نکلتا ہو، اس سے زائد نہ لینا۔“ یہاں معاملات دنیاوی میں عدل کے قیام کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیونکہ ماضی اور حال میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری عہدوں پر حاوی افراد عدل و انصاف کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، بالخصوص مالیاتی نظام سے وابستہ محکمے اور ان کے کرپٹ عہدیدار لوگوں کو اموال کے وصولی کے نام لوٹتے ہیں۔

لیکن امیرالمومنین ؑ نے اس رویئے کے خاتمے اور اور اموال یعنی ٹیکس کی وصولی پر متعین عملے کو اس بات کی طرف سختی سے متوجہ کیا کہ وہ لوگوں سے اس انداز سے پیش آئیں کہ انہیں حکومت کو اپنے اموال دیتے ہوئے خوف یا مجبوری محسوس نہ ہو بلکہ وہ اس ادائیگی کو اپنی ذمہ داری اور فریضہ سمجھتے ہوئے ادا کریں۔ وصول کرنے والے کے لیے عدل کا یہی معیار مقرر فرمایا کہ وہ اللہ کے مقرر کردہ حق سے ایک پائی بھی زیادہ نہ لے۔ اگر اس نے رشوت یا تحفہ یا بھتے کے نام پر زیادہ وصولی کی تو اس نے اللہ اور علی ؑ کے معیار عدل کی خلاف ورزی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؑ نے وصولی پر مامور عملے کو تاکید کی ہوئی تھی کہ جونہی وہ مال وصول کریں تو سارے کا سارا مال ایک بار آپ ؑ کی خدمت میں بھیجیں، تاکہ آپ ؑ اس کے مصرف کا تعین فرما کر عدل کے ساتھ مستحقین میں تقسیم فرما سکیں۔

علی ؑ نے عدل کی نصیحتیں اور وصیتیں فقط امت اور پیروکاروں کے لیے نہیں تھیں، بلکہ اپنے جگر گوشوں اور زمانے کے اماموں حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کے لیے بھی اسی سخت انداز میں جاری کی گئی تھیں۔ جنگ صفین سے پلٹتے ہوئے امام حسین ؑ کے نام وصیت میں فرمایا: ”اے فرزند۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو اور جو اپنے لیے نہیں چاہتے، وہ دوسروں کے لیے بھی نہ چاہو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو، اسی طرح دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حُسن سلوک ہو، یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ دوسروں کی جس چیز کو بُرا سمجھتے ہو، اسے اپنے لئے بھی ہو تو بُرا سمجھو۔ لوگوں کے ساتھ تمہارا جو رویہ ہو، اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو۔ دوسروں کے لیے وہ بات نہ کہو، جو اپنے لئے گوارا نہیں کرتے۔ روزی کمانے میں دوڑ دھوپ کرو اور دوسروں کے خزانچی نہ بنو۔ اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پیٹھ پر بوجھ نہ ڈالو۔“

اپنی ذات کو معیار قرار دینے کی اعلیٰ مثال بھی عدل ہی کا نمونہ ہے، کیونکہ جو شخص اپنے ساتھ عدل نہیں کرسکتا، وہ دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔؟ جو اپنے لئے کچھ اور اور دوسرے کے لیے کچھ اور معیار قائم کرے گا، وہ کس طرح عدل قائم کرسکتا ہے۔؟ جو انسان رزق کے حصول کے ذرائع میں عدل قائم نہیں کرسکتا، لوگوں سے حسن سلوک کے معاملے میں انصاف سے کام نہیں لے سکتا، وہ بھلا کس طرح اپنی ذات کو عدل کا نمونہ قرار دے سکتا ہے اور پھر یہی انسان اپنے معاشرے اور اردگرد بسنے والے انسانوں سے کس طرح توقع رکھ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ عدل کریں گے۔؟ پھر فرمایا: ”طلب میں نرم رفتاری اور کسب معاش میں میانہ روی سے کام لو، کیونکہ اکثر طلب کا نتیجہ مال کا گنوانا ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ رزق کی تلاش میں لگا رہنے والا انسان ہی کامیاب ہو اور کدوو کاش میں اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی رہے۔“

ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرپشن اور استحصال کے معاملے میں عدل و انصاف مال کے حصول دوسروں کے اپنے لئے جو اپنے جائے تو کی وصیت عدل اور کریں گے کے ساتھ کہ عدل کے لیے عدل کا عدل کے سے کام اور ان

پڑھیں:

اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان

جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم موجودہ اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں کراچی میں ملین مارچ کیا ، 27 اپریل کو لاہور میں بھی ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینیوں کے حق میں ایک آوازہوں گے، 11 مئی کو پشاور میں جبکہ 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچتی ہے اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے اور خود مسلم امہ کی بھی آواز بن رہی ہے، یہ شرف پاکستان کو حاصل ہے تو ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا اس وقت ملک اور خصوصاً خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، عوام نہ بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں نہ ان کے لیے کما سکتے ہیں، کاروباری برادری سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں، اس حوالے سے حکومتی کارکردگی زیرو ہے، حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ دھاندلی کی نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی اور وفاقی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، جے یو آئی ف کو امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے ہی پلیٹ فارم سے ہی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، الیکشن، غزہ اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے ان پر جمیعت علمائے اسلام (ف) اپنے پلیٹ فارم سے ہی میدان میں رہے گی، البتہٰ روزمرہ معاملات میں کچھ مشترک امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں سے اشتراک کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اسٹریٹیجی جماعت کی شوریٰ کمیٹی طے کرے گی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، اپوزیشن کا ابھی تک باضابطہ اتحاد موجود نہیں ہے تاہم ہم باہمی رابطوں کو برقرار رکھیں گے لیکن اپوزیشن کے باقاعدہ اتحاد پر ہماری مجلس عمومی آمادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو خیبر پختونخوا میں پیش کیا جارہا ہے اور بلوچستان میں پیش ہوا ہے، ہماری مجلس عمومی نے اسے مسترد کیا ہے، بلوچستان میں ہمارے جن ممبران نے اس قانون کو ووٹ دیا ہے، ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان کے جواب سے جماعت مطمئن ہوئی تو ٹھیک ورنہ ان کی رکنیت ختم کی جائے گی، ہمیں اسمبلی میں اپنی تعداد کی پروا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

maualana fazl ur rehman الیکشنز پریس کانفرنس پی ٹی آئی اتحاد غزہ مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی بھارت کے بے بنیاد الزامات کی شدید مذمت کرتی ہے، بیرسٹر گوہر
  • پاکستان اپنے دفاع کا پورا حق اور صلاحیت رکھتا ہے، بیرسٹر گوہر
  • بھارتی اسکرپٹ، پہلگام کی آگ، سفارتی دھواں اور پاکستان
  • شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • سہواگ کی اپنے ہی کرکٹر پر سرجیکل اسٹرائیک، متنازع آؤٹ پر بول اُٹھے
  • جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ
  • اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • لیگی وزرا بیان بازی کر رہے ہیں، نواز اور شہباز اپنے لوگوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن