Islam Times:
2025-11-03@16:28:59 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

علی ؑ کا عدل علی ؑ کی وصیتوں میں

اسلام ٹائمز: ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کیساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔ تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.

com

اپنے عدل کی شدت سے قتل ہونے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے قضاوت اور عدل کے قصے اور چرچے تو کائنات کی وسعت میں پھیلے ہیں۔ کتب تاریخ میں ان کی زندگی میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ کثرت سے ملتا ہے۔ خلفاء اور حکمران طبقے کی رہنمائی سے لے کر ایک عام مسلمان کو عدل و مساوات کی ترسیل تک ہر موڑ پر علی ؑ کا کردار روشن اور مسلمہ ہے۔ آپ ؑ کے ظاہری دور خلافت اور دنیا میں موجودگی کے ایام میں پیش آنے والے واقعات زبان زد عام ہیں جن سے علی ؑ کے عدل کا ایک مستحکم معیار سامنے آتا ہے، جو بعد میں آنے والے ہر صاحب عدل اور عنان عدل پر براجمان انسان کے لیے مشعل کا کام دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ علی ؑ کا عدل ہی علی ؑ کی شہادت کا باعث بنا، لیکن علی اس خدائی عدل پر مایوس نہیں بلکہ سجدہ شکر بجا لا کر خدا کے سامنے خدا کی قسم اٹھا کر فرماتے ہیں "فزت برب الکعبہ۔"

روایت سے ہٹ کر آج ہم علی ؑ کے دور زندگانی کے واقعات کے ذریعے عدل علی ؑ کا بیان نہیں کریں گے اور نہ ہی علی ؑ کے فرامین کی روشنی میں عدل کا معیار پیش کریں گے بلکہ علی ؑ کی وصیتوں کا جائزہ لے کر معلوم کریں گے کہ علی ؑ کے نزدیک عدل، اعتدال، مساوات، برابری اور حقوق کا مقام اور اہمیت کیا ہے۔ جب ابن ملجم نے ضرب لگائی تو اس سے کچھ وقت بعد وصیت میں ارشاد فرمایا: ”تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم رکھنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔“ یعنی توحید و رسالت کے عقائد سے ہی علی ؑ نے عدل کا آغاز فرما دیا ہے اور لوگوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں گے تو یہ بے عدلی ہوگی اور اسی طرح اگر رسول اکرمﷺ کی سنت و سیرت سے منہ موڑیں گے تو بھی عدل و انصاف کا قتل ہوگا، کیونکہ توحید اور رسالت یعنی اللہ اور اس کا رسول مسلمانوں اور انسانوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کے معاملے میں بے عدلی نہ کی جائے۔

ساتھ ہی توحید و رسالت کو  دو ستون بھی قرار دے دیا اور دو چراغ بھی کہہ دیا۔ یہ مزید روشن مثال ہے کہ اگر ایک ستون اور دوسرے ستون میں فرق، تفریق، تجاوز یا اختلاف یا کمزوری پیدا ہوگئی تو سمجھیں بے عدلی پیدا ہوگئی۔ ایک چراغ کی روشنی ماند پڑی تو جانیں عدل ختم ہوگیا، لہذا دونوں ستونوں کو مضبوط رکھنا اور دونوں چراغوں کو روشن رکھنا ہی دراصل عدل ہے۔ اپنی ظاہری خلافت کے دوران آپ ؑ نے جن کارندوں کو زکواۃ و صدقات کے وصول کرنے پر مقرر فرمایا، انہیں اپنی وصیت میں ارشاد فرمایا: ”دیکھو کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنا اور اس کے املاک پر اس طرح نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں سے اللہ کا حق نکلتا ہو، اس سے زائد نہ لینا۔“ یہاں معاملات دنیاوی میں عدل کے قیام کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیونکہ ماضی اور حال میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری عہدوں پر حاوی افراد عدل و انصاف کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، بالخصوص مالیاتی نظام سے وابستہ محکمے اور ان کے کرپٹ عہدیدار لوگوں کو اموال کے وصولی کے نام لوٹتے ہیں۔

لیکن امیرالمومنین ؑ نے اس رویئے کے خاتمے اور اور اموال یعنی ٹیکس کی وصولی پر متعین عملے کو اس بات کی طرف سختی سے متوجہ کیا کہ وہ لوگوں سے اس انداز سے پیش آئیں کہ انہیں حکومت کو اپنے اموال دیتے ہوئے خوف یا مجبوری محسوس نہ ہو بلکہ وہ اس ادائیگی کو اپنی ذمہ داری اور فریضہ سمجھتے ہوئے ادا کریں۔ وصول کرنے والے کے لیے عدل کا یہی معیار مقرر فرمایا کہ وہ اللہ کے مقرر کردہ حق سے ایک پائی بھی زیادہ نہ لے۔ اگر اس نے رشوت یا تحفہ یا بھتے کے نام پر زیادہ وصولی کی تو اس نے اللہ اور علی ؑ کے معیار عدل کی خلاف ورزی کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؑ نے وصولی پر مامور عملے کو تاکید کی ہوئی تھی کہ جونہی وہ مال وصول کریں تو سارے کا سارا مال ایک بار آپ ؑ کی خدمت میں بھیجیں، تاکہ آپ ؑ اس کے مصرف کا تعین فرما کر عدل کے ساتھ مستحقین میں تقسیم فرما سکیں۔

علی ؑ نے عدل کی نصیحتیں اور وصیتیں فقط امت اور پیروکاروں کے لیے نہیں تھیں، بلکہ اپنے جگر گوشوں اور زمانے کے اماموں حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کے لیے بھی اسی سخت انداز میں جاری کی گئی تھیں۔ جنگ صفین سے پلٹتے ہوئے امام حسین ؑ کے نام وصیت میں فرمایا: ”اے فرزند۔ اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو اور جو اپنے لیے نہیں چاہتے، وہ دوسروں کے لیے بھی نہ چاہو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو، اسی طرح دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حُسن سلوک ہو، یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ دوسروں کی جس چیز کو بُرا سمجھتے ہو، اسے اپنے لئے بھی ہو تو بُرا سمجھو۔ لوگوں کے ساتھ تمہارا جو رویہ ہو، اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو۔ دوسروں کے لیے وہ بات نہ کہو، جو اپنے لئے گوارا نہیں کرتے۔ روزی کمانے میں دوڑ دھوپ کرو اور دوسروں کے خزانچی نہ بنو۔ اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پیٹھ پر بوجھ نہ ڈالو۔“

اپنی ذات کو معیار قرار دینے کی اعلیٰ مثال بھی عدل ہی کا نمونہ ہے، کیونکہ جو شخص اپنے ساتھ عدل نہیں کرسکتا، وہ دوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔؟ جو اپنے لئے کچھ اور اور دوسرے کے لیے کچھ اور معیار قائم کرے گا، وہ کس طرح عدل قائم کرسکتا ہے۔؟ جو انسان رزق کے حصول کے ذرائع میں عدل قائم نہیں کرسکتا، لوگوں سے حسن سلوک کے معاملے میں انصاف سے کام نہیں لے سکتا، وہ بھلا کس طرح اپنی ذات کو عدل کا نمونہ قرار دے سکتا ہے اور پھر یہی انسان اپنے معاشرے اور اردگرد بسنے والے انسانوں سے کس طرح توقع رکھ سکتا ہے کہ اس کے ساتھ عدل کریں گے۔؟ پھر فرمایا: ”طلب میں نرم رفتاری اور کسب معاش میں میانہ روی سے کام لو، کیونکہ اکثر طلب کا نتیجہ مال کا گنوانا ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ رزق کی تلاش میں لگا رہنے والا انسان ہی کامیاب ہو اور کدوو کاش میں اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی رہے۔“

ہمارے معاشروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ عدل اور انصاف کے قتل کے معاملے میں مال کے حصول کا موضوع سب سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے، مال کے حصول میں لوگ عدل و انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اعتدال اور حق پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا، جہاں سے کرپشن اور استحصال جنم لیتا ہے۔ اگر مال کے حصول اور تقسیم میں عدل اور اعتدال سے کام لیا جائے تو علی ؑ کی وصیت اور خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ وہاں ہم بھی خوشحال ہوسکتے ہیں، کیونکہ رزق کی اور مال کی مساوی تقسیم اگر عدل سے ہو تو لالچ، کرپشن اور استحصال کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ غرض یہ کہ عدل کے بارے میں علی ؑ کے اقوال، علی ؑ کے فیصلے، علی ؑ کی نصیحتیں اور علی ؑ وصیتوں پر سرکاری، اجتماعی، حکومتی، عوامی اور ذاتی سطح پر عمل کیا جائے تو معاشرے عدل کا گہوارہ بن سکتے ہیں اور ہمیں ہزارہا مسائل و مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرپشن اور استحصال کے معاملے میں عدل و انصاف مال کے حصول دوسروں کے اپنے لئے جو اپنے جائے تو کی وصیت عدل اور کریں گے کے ساتھ کہ عدل کے لیے عدل کا عدل کے سے کام اور ان

پڑھیں:

وقار یونس نے مجھے نئی گاڑی خریدنے اور برانڈ کے کپڑے پہننے پر ٹیم سے نکالا، عمر اکمل کا الزام

معروف کرکٹر عمر اکمل نے سابق کپتان اور ہیڈ کوچ وقار یونس پر اپنے کیریئر کو تباہ کرنے کا الزام عائد کردیا۔

ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عمر اکمل نے کہا کہ وقار یونس نوجوان کھلاڑیوں سے حسد کرتے تھے کیونکہ وہ نئی گاڑیاں خریدنے کے قابل ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: ’آپ کو شرم آنی چاہیے‘، بابر اعظم کے خلاف بات کرنے پر عمر اکمل ٹی وی شو میں لڑ پڑے

عمر اکمل کا کہنا تھا کہ اللہ نے جو دیا ہے، میں اپنے اور اپنے خاندان کی خواہشات پوری کر رہا ہوں، اس میں کیا برائی ہے؟ وہ اکیلے نہیں بلکہ ان کے ساتھ کھیلنے والے دیگر کرکٹرز، جن میں رانا نویدالحسن بھی شامل ہیں، اس بات کی گواہی دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نئی گاڑی خریدنے اور برانڈیڈ کپڑے پہننے کی وجہ سے ٹیم سے باہر کیا گیا۔ وقار کہتے تھے کہ تمہیں اتنے پیسے کیسے مل گئے؟

ان کا کہنا تھا کہ پہلے کھلاڑی ایسی چیزیں خریدنے کے قابل نہیں تھے، لیکن جب اللہ نے دیا ہے تو اپنے اوپر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: باربی اکمل عمر اکمل کی منفرد لباس میں تصویر وائرل

عمر اکمل نے مزید کہا کہ وہ وقار یونس کا بطور سینیئر کھلاڑی احترام کرتے ہیں، مگر کوچ کے طور پر نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2016 میں ورلڈ کپ کے موقع پر انہوں نے پی سی بی کو خطوط اور فائلیں جمع کروائیں اور تجویز دی کہ اگر وقار یونس کو ہٹا دیا جائے تو ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوگی۔

35 سالہ عمر اکمل نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے غیر ملکی لیگز کے کئی مواقع مسترد کیے تاکہ پاکستان کے لیے کھیل سکیں۔ میری پہلی ترجیح ہمیشہ پاکستان ہی رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمر اکمل کرکٹ وقار یونس

متعلقہ مضامین

  • ’استغفراللہ کہنا مناسب نہیں تھا‘، صبا قمر کے کراچی سے متعلق بیان پر حنا بیات کا ردعمل
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اداسی میں پینٹنگ کرتی تھی، اب 8 سال سے برش نہیں اٹھایا، سوناکشی سنہا کا انکشاف
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا
  • ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
  • وقار یونس نے مجھے نئی گاڑی خریدنے اور برانڈ کے کپڑے پہننے پر ٹیم سے نکالا، عمر اکمل کا الزام
  • امریکا اپنے نئے نیوکلئیر دھماکے کہاں کرے گا؟