انسان کی فطری و بنیادی خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خصلت ایثار و قربانی ہے اور یہ وہ عظیم وصف ہے، جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتا ہے، ورنہ تو خود غرض اور مفاد پرست انسان اور ایک حیوان کے درمیان کوئی جوہری فرق کیا باقی رہ جاتا ہے ۔۔؟
ازروئے قرآن حکیم تو ایسے انسان حیوانات اور درندوں سے بھی بدتر ہیں، جنہیں خدا نے فطری طور پر اجتماعی شعور ودیعت فرمایا مگر وہ محض اپنی ذات اور خاندان کے مفاد تک ہی محدود اور محصور رہے۔ آج سے قربانی کے عظیم ایام شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ حسب معمول ابھی تک مبہم اور غیر واضح ہے کہ یہ تمام تر مشقّت آخر کس مقصد کے لیے ہے ۔۔۔ ؟
کہنے اور سننے کی حد تک تو سبھی کا ماننا ہے کہ یہ عمل خدا کی خوش نُودی کے لیے سرانجام دیا جاتا ہے لیکن سماج اور معاشرے میں مطلوبہ نتائج پیدا نہ ہونے کے باعث لگتا یوں ہے کہ یہ عظیم الشان سنتِ ابراہیمیؑ اب محض ایک رسم اور دکھاوا بن چکی ہے۔
امام انسانیت سیّدنا ابراہیمؑ نے خدا کی خوش نُودی اور خلقِ خدا کی بہبود کے لیے آتشِ نمرود میں چھلانگ لگانے سے بھی اعراض نہ فرمایا اور پھر اپنے لاڈلے صاحب زادے سیّدنا اسمٰعیلؑ اور سیّدہ ہاجرہ کو خدا کے حکم سے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ دیا۔ بعدازاں ایک اور سخت ترین امتحان اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کر دینے کے حکمِ خداوندی سے شروع ہُوا تو آپؑ کی ثابت قدمی و استقلال سے دُنبے کو ذبح کردینے پر منتج ہوگیا۔ اپنے چنیدہ بندے کی اطاعت شعاری و وفا کیشی کی یہ عظیم ادا خالق ارض و سماء کو اس قدر محبوب ٹھہری کہ تب سے ابد تک قربانی کی یہ سنّت ملّتِ ابراہیمی کا شعار، سنگھار اور حسنِ اظہار قرار پائی۔
بعض لوگ جب سطحی نظر سے قربانی کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں یہ عمل خدا نہ خواستہ خلافِ انسانیت اور ظلم دکھائی دیتا ہے، حالاں کہ عام حالات میں دورانِ سال اس سے کہیں زیادہ جانور اور پرندے انسانی خوراک بنتے ہیں تو اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، دوسرا یہ کہ کائنات کے اندر دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسانی شرف اور مقام کا صحیح ادراک نہ ہونے سے اس طرح کے جدید توّہمات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔
اسی طرح ہم میں سے بعض مسلمانوں کا اخلاقی زوال اور ہمارے دُہرے معیارات بھی اِس طرز کی غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کی وجہ بنتے ہیں۔ نماز سے لے کر روزہ و قربانی تک تمام عبادات کا اساسی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ قرآن حکیم سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خدا تک ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بل کہ اس تک تمہارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ آیت کریمہ کا یہ جزو قربانی کے فلسفے اور بنیادی مقصد کو واضح کرنے کے لیے خدائے بزرگ و برتر کا دوٹوک اور حتمی اعلان ہے۔
اب غور فرمائیے کہ بُخل اور حرص و طمع پر مبنی فکر و عمل سے ہماری تمام کوشش رائیگاں چلی جائے تو کس قدر بدنصیبی ہوگی ؟ ’’اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی کیجیے۔‘‘ اور جب اپنے رب کی خاطر نماز اور قربانی کا اہتمام ہوگا تو یہ اعمال بندوں کے ظاہر و باطن میں وہ انقلاب پیدا کریں گے کہ اگلی آیت کریمہ کے مطابق: ’’تمہارا دشمن ہی ابتر اور ذلیل و رُسوا ہوگا۔‘‘ جب نماز اور قربانی کا عمل بھی موجود ہو لیکن انسانی قلوب اور معاشرتی اسلوب میں تقوٰی و طہارت اور عدل و ایثار ناپید ہو تو پھر یک لمحہ سکوت و سکون سے سوچنا ہوگا کہ قربانی کی عظیم ترین سنّت ابراہیمی کہیں رسمِ محض تو بن کر نہیں رہ گئی ۔۔۔ ؟
خدا کو تو روح بلالی کے بغیر رسمِ اذان اور روح ابراہیمی کے سوا رسم قربانی کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے اور اُسے تو ان اعمال سے فقط ہماری اصلاح و فلاح اور ارتقاء مطلوب ہے تاکہ ہم اس کے مقرب و محبوب بن سکیں۔ ہمارے خالق و مالک کو بہ خوبی علم تھا کہ انسان نفع عاجل اور ظاہری مفاد کے حصول میں بے قرار مگر خفیہ و پائیدار فائدے سے بے زار رہتا ہے، سو قربانی کی غایتِ اصل یعنی تقوٰی کو بُھلا کر گوشت اور خون کے بہانے اور بڑھانے سے آگے نہ بڑھ پائے گا۔ یہی تو ایک انسان اور مسلمان کا امتحان ہے کہ وہ پائیدار و ناپائیدار میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے ۔۔۔ ؟
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو ’’بندۂ مومن‘‘ اپنی قربانی کے گوشت سے کسی مجبور اور ضرورت مند کو کچھ دینے سے معذور ہے بھلا وہ اپنی جان سے گوشت اور خون کب راہِ خدا میں قربان کرنے کی ہمّت کر سکے گا ۔۔۔ ؟
یاد رہے کہ ہر سال راہ خدا میں جانوروں کا خون بہانا دراصل ایک اعلی ترین نصب العین کی خاطر اپنے جان و مال کی قربانی کے لازوال انسانی جذبے کا اظہار کرنا ہے۔
قرآن حکیم کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اﷲ تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جان و مال کے عوض جنّت کا سودا کر چھوڑا ہے۔ ہماری تمام تر صلاحیتیں اور نعمتیں ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں جب کہ دوسری طرف کرۂ ارضی پر آتش نمرودی بھی برابر بھڑکتی ہوئی دامن انسانیت کو خاکستر کیے جا رہی ہے۔
بہ قول ڈاکٹر محمد اقبالؒ
آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اگر ہماری قربانی ہمارے اندر موجودہ عالمی نمرودی نظام کے خلاف جدوجہد کا داعیہ پیدا نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم روح سے خالی رسمِ قربانی پر تو کاربند ہیں مگر تاحال ظلم و استحصال سے نفرت اور عدل و ایثار سے محبّت ہمارے اندر جاگزیں نہیں ہو سکی۔ المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام سے انسانوں کی اصل فطرت اس قدر مسخ اور تباہ ہوچکی ہے کہ افراد کی اکثریت اپنی ناک سے آگے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی اور حکم رانوں سے لے کر عوام الناس تک کی اکثریت انفرادیت پسندی اور مفاد پرستی کے مرض کا بُری طرح شکار ہو چکے ہیں۔
قربانی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اپنی انانیت کو اجتماعیت کے اندر فنا کر ڈالیں اور دوسرے انسانوں کی بقاء و ارتقاء کے لیے اپنا تن، من اور دھن وار دیں۔ ابھی ماضی قریب کی معاشرتی و مذہبی روایت یہی تھی کہ قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا یعنی ایک محتاج اور غریب طبقے کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب اور تیسرا حصہ گھر کے لیے رکھ لیا جاتا، جس میں سے عید کے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی۔ لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے بعض افراد نے سارے گوشت کو گھر میں منجمد کرنے کی گنجائش تک نکال لی ہے، جو درست ہے۔
مگر وطن عزیز میں تو اسّی فی صد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے اور گوشت، پھلوں کے بغیر سادہ و یک ساں خوراک پر گزر بسر کرتی ہے۔ نصف آبادی صرف گوشت چکھنے کے لیے سال بھر عیدِ قربان کی منتظر رہتی ہے، ایسے میں دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے منہگے ترین بکروں، گائے اور بیلوں کی نمائش اور قربانی کرکے ذخیرہ کر ڈالنا سنّت ابراہیمیؑ اور شریعت محمدیؐ کی اصل روح سے متصادم ہی ٹھہرے گا۔ جب معاشرے اور سماج میں اکثریت ضرورت مند اور محروم المعیشت طبقے کی ہوگی تو قربانی کے گوشت کو تقسیم کرکے حق داروں تک پہنچانا لازم ٹھہرے گا البتہ اگر معاشرہ خوش حال و ترقی یافتہ ہے تو گوشت کو ذخیرہ کر لینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا۔
اسی لیے تو قرآن حکیم ہمیں تعلیم دیتا ہے ہم اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اُس اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ گویا بندۂ خدا تو خدا کی منشاء و رضا میں مکمل فدا و فنا ہوتا ہے اور یہی قربانی کی عظیم الشان سنّت ابراہیمی کا مقصد و مدّعا بھی ہے ورنہ تو سبھی کچھ نمود و دکھاوا ہے۔
عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر بھرنے سے احتراز کیجیے اور نادار و بے کس خلق خدا کا حصہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان تک پہنچائیے کہ یہی ایثار و قربانی کا درس اور قربانی کا اصل مقصد و منشاء ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان اور قربانی قرا ن حکیم قربانی کی قربانی کا قربانی کے گوشت کو خدا کی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا، شہباز شریف کا عید پر قوم کے نام پیغام
وزیر اعظم شہباز شریف نے عید الاضحی 1446ھ کے موقع پر قوم کے نام پیغام میں عید کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تو اس موقع پر ہمیں یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا،پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا خواب اسی وقت حقیقت بنے گا جب ہم ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔
وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا میں عید الاضحی اور عظیم الشان اسلامی عبادت حج کے بابرکت موقع پر پوری پاکستانی قوم اور عالم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ با برکت ایام ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، ایثار اور قربانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان عظیم ہستیوں کی اطاعت و قربانی کو رب ذوالجلال نے اس قدر پسند فرمایا کہ اسے تا قیامت امت محمدی ﷺ کے لیے عبادت کا درجہ عطا فرما دیا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پاکستانی قوم اور پوری امت مسلمہ کی عبادات اور قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے، اور ہماری زندگیوں میں یہ برکتیں بار بار نازل فرمائے۔
ٹک ٹاکر ثنا کا قاتل نفسیاتی مریض تھا؟
شہباز شریف نے کہا عید الاضحی کا پیغام صرف جانور کی قربانی تک محدود نہیں، بلکہ یہ اپنے نفس، خواہشات اور مفادات کو اعلیٰ مقاصد کے لیے قربان کرنے کا درس دیتا ہے۔ قربانی کا یہی جذبہ انسان کو صبر، حوصلے، ایثار اور قربانی جیسے اوصاف سے مزین کرتا ہے، جو کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ آج جب ہمارا پیارا وطن پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تو اس موقع پر ہمیں اپنی یکجہتی، قربانی اور ایثار کے جذبے کو اپنانا ہو گا۔ عید الاضحی کا یہ بابرکت موقع ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ قربانی کا راستہ ہمیشہ کامیابی کی طرف جاتا ہے۔جیسے حالیہ بھارتی حملے میں پوری قوم نے یک جان اور متحد ہو کر دشمن کو واضح پیغام دیا کہ پاکستانی قوم اپنے دفاع اور وقار کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی، اسی طرح ہمیں اپنی داخلی مشکلات سے نمٹنے کے لیے مسلسل اتحاد اور عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی اقتصادی اور سماجی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے تمام وسائل کو یکجا کرنا ہو گا تا کہ ہم اپنے ملک کو مضبوط، خوشحال اور خود کفیل بنا سکیں۔
شہری کو اغوا کرنے والے پانچ پولیس اہلکار پکڑےگئے
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ عید ہمیں نہ صرف جان و مال کی قربانی کی اہمیت سکھاتی ہے، بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ قومیں اس وقت عظمت کی منزل تک پہنچتی ہیں جب وہ فرد کی ترقی کے ساتھ ساتھ اجتماعی بھلائی و ایثار کے لیے کام کرتی ہیں۔ہمیں آج کے دن خاص طور پر اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کو بھی یاد رکھنا چاہئےجو ایک بے رحم اور غیر انسانی مظالم اور بھوک کا شکار ہیں۔اسی طرح، ہم بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہیں، جن کی اپنے حق خودارادیت کے لیے عشروں سے منصفانہ اور بہادرانہ جدوجہد جاری ہے۔ ہم ہمیشہ ان کی آواز بنیں گے اور ان کی عظیم جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے۔
سابق وفاقی وزیر اچانک طبعیت بگڑنے پر ہسپتال منتقل
وزیر اعظم نے کہا آج، ہمیں اپنی نسلوں کے لیے ایک ایسے پاکستان کا عہد کرنا ہو گا جہاں محبت، بھائی چارہ، اور اتحاد کی فضا ہو، ہمیں اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گاتاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک طاقتور اور کامیاب ملک کے طور پر اُبھرے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا خواب اسی وقت حقیقت بنے گا جب ہم ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔
عید الاضحی کا یہ پیغام ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات اور مفادات سے بلند ہو کر صرف اور صرف اپنے وطن کی فلاح و بہبود کے لیے سوچیں اور عمل کریں۔یقیناً یہی جذبہ اور اتحاد پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ میری اللہ تعالی سے میری دُعا ہے کہ وہ ہمیں عید الاضحی کی حقیقی خوشیوں سے بہرہ مند فرمائے، اور ہمیں ایثار و قربانی کی اصل روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بوبی ٹریپ کی زد میں آ کر چار اسرائیلی فوجی مارے گئے
شیئر کریں: