Daily Ausaf:
2025-11-03@17:58:51 GMT

نوائے حق و صداقت حافظ حسین احمد رحمہ اللہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT

جس طرح زمانے کی رفتار نہیں رکتی اسی طرح ہرزمانے میں نابغہ روزگار لوگوں کا پیدا ہونا بھی کبھی نہیں تھما جو ملک کی سیاسی اور سماجی فضا کو آلودگیوں سے محفوظ و مامون رکھنے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں ۔جن کی علمی بصیرت ،پر اعتماد شخصیت اور جرت مندانہ قیادت سے معاشرہ اور ملک مستفید ہوتا ہے ۔ایسے ہی افراد اپنے دور ہی کے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئےایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو معاشرے کے ہر طبقے کے لئے روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ایسی ہی ایک شخصیت مولانا حافظ حسین احمد کی بھی تھی جو پاکستان کی دینی اورسیاسی تاریخ کے ایک اہم ستون تھے ۔ جنہوں نے محراب منبر کے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے جہاں اپنی دینی خدمات سے اسلام کی سربلندی میں اہم کردار ادا کیا وہیں اپنے ملک وملت کی سیاسی تاریخ کے خدوخال کی درستی کے لئے بھی مقدور بھر کوشش کی۔ انہوں نے جمہوری اقدارو روایات کے تحفظ اور وحدت ملی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ ان کی رحلت ایک دینی سیاسی جماعت کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
مرحوم و مغفور مولانا حافظ حسین احمد کا تعلق ایک دینی علمی خانوادے سے تھا ،کم عمری ہی میں مصحف رب کریم حفظ کرلینے کے بعد دینی علوم کے حصول کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔فقہ و حدیث اور اسلامی تاریخ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد عصری سیاسی صورت حال کا عمیق مطالعہ کیا اس کے ساتھ عالمی سیاست اور معیشت آپ کی دلچسپی کامحوررہی۔ تاہم ان کابنیادی ہدف فروغ دین اسلام ہی تھا ۔ان کی تمام تر زندگی صبرواستقامت سے تعبیر تھی ۔
سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ایک نڈراور بے باک سیاستدان کے طور پر شہرت پائی۔پارلیمنٹ میں ان کے تاریخ ساز خطبات آنے والے پارلیمانی ممبران کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی تمام زندگی ریاست کے ساتھ عوام کے حقوق کے حصول کی خاطر پنجہ آزمائی میں گزاری ۔وہ ایک حق پرست و حق شناس سیاستدان تھے جنہیں اصولوں پر سودے بازی پر کوئی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ ذاتی مراعات کے رسیا نہ تھے ۔اپنے موقف پر ڈٹ جانا ان کا سیاسی وتیرہ تھا اس کے لئے وہ اپنے مفاد کی پروا نہیں کرتے تھے ان کے سامنے ہمیشہ ملی اور قومی مفادات کی اہمیت زیادہ رہی۔جمیعت علمائے اسلام کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایک حلقے نے ان کے اورمرکزی قیادت کے درمیان فاصلے بڑھانے کی سر توڑکوششیں کیں مگر انہیں اپنے بنیادی موقف سے متزلزل کرنے میں بے نیل ومرام رہے۔اسی طرح ریاستی دبائو کے سامنے بھی وہ اپنے مطمع نظر سے ایک قدم ٹس سے مس نہ ہوتے یہی وجہ تھی کہ ہردور میں ایک بار نہیں متعدد بار انہیں پابند سلاسل کیا گیا مگر وہ ایک مستحکم اور سنجیدہ مزاج سیاسی مدبر کی حیثیت میں اپنے نظریئے سے دست بردار نہ کئے جاسکے۔
جادہ حق بہت دشوار گزار اور کانٹوں بھرا ہوتا ہے مگر حافظ حسین احمد وہ شخص تھے جنہوں نے اپنی سیاسی اور دینی حیات آبلہ پائی کی نذر کر دی۔قومی معاملات ہوں یا بین الاقوامی امور ہر حوالے سے انہوں نے جرات مندانہ موقف اپنایا اور کامل بصیرت کے ساتھ سیاسی بیانیہ اپنایا۔سینٹ کے ممبر کی حیثیت سے پارلیمان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کی۔اسی طرح آئینی ترامیم کے تحفظ کے لئے ہمیشہ ثابت قدم رہے ۔وہ ہر آمر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایستادہ ہوئے اور جمہوری اقدار پر آنچ آنے کے خلاف دینی سیاسی حلقوں کی طرف سے سب سے توانا آواز انہی کی ہوتی تھی۔ان کا شمار متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا تھا جب خیبر پختون خوا کی حکومت بنانے کے حوالے سے جماعت کے موقف میں لچک آئی تو مولانا کے تیور مخفی نہ رہے ۔وہ ایم ایم اے کے بنیادی ڈھانچے کے حامی ہونے کے باوجود اس کی حکومت پر تنقید سے گریزنہیں کرتے تھے۔ وہ مجلس کے بعض رہنمائوں پر آمر پرویز مشرف کے ساتھ نرمی کا رویہ رکھنے پر سیخ پا ہوئے اور اپنی جماعت پر مشرف کے ساتھ مفاہمت کے رویئے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔یہاں تک کہ قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان کی بعض پالیسیز کو بھی ببانگ دہل تنقید کا نشانہ بنایا۔انہیں یہ قلق تھا کہ متحدہ مجلس عاملہ کی حکومت عوامی مسائل کے حل کی بجائے سیاسی جوڑ توڑ پر زیادہ وقت ضائع کر رہی ہے ۔
2003 ء میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں شریعت بل منظور ہوا تو اس پر بھی مولانا حسین احمد کا موقف یہ رہا کہ ’’گو یہ ایم ایم اے حکومت کی کامیابی سہی مگر اس پر عمل درآمد کمزور رہا‘‘۔ان کاخیال تھا کہ ’’مجلس عمل کو اپنے منشور کے مطابق شرعی نظام کے نفاذ میں زیادہ سنجیدگی دکھانی چاہیے تھی ‘‘ وہ مجلس عمل کے فوجی حکومت کے ساتھ سودے بازی کے کئے جانے پر بھی آزردہ خاطر ہوئے۔
19 مارچ 2025ء کو مولانا حافظ حسین احمد کا سانحہ ارتحال پورے ملک پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے دینی سیاسی حلقوں کے لئے ایک انتہائی افسوسناک امر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور پوری جمیعت کو حق کی ایسی آواز بنا دے جیسی ان کی روحانی آرزو اور دلی خواہش تھی ۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حافظ حسین احمد کی حیثیت کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد:(نیوز ڈیسک)
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں۔

سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔

ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہد ہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے وہاں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔

گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • عاشقان رسولﷺ کو غازی علم دین کے راستے کو اپنانا ہوگا، مفتی طاہر مکی
  • مشہد مقدس، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل علامہ ناظر تقوی کا ایم ڈبلیو ایم کے دفتر کا دورہ 
  • ڈیرہ غازیخان، ایم ڈبلیو ایم تحصیل تونسہ شریف کی ورکنگ کمیٹی کا اعلان، خورشید احمد خان آرگنائزر مقرر
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • حکمرانوں کو مانگنے اور کشکول اٹھانے کی عادت پڑ چکی ہے، حافظ تنویر احمد