ریئل اسٹیٹ شعبے کے لیے بڑا ریلیف، آئی ایم ایف پراپرٹی خریداری پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کرنے پر راضی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
ریئل اسٹیٹ شعبے کے لیے بڑا ریلیف، آئی ایم ایف پراپرٹی خریداری پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کرنے پر راضی WhatsAppFacebookTwitter 0 22 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: انٹرنیشنل مونیٹری پالیسی (آئی ایم ایف) ایف بی آر کی درخواست پر پراپرٹی کی خریداری پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 فیصد کم کرکے خریداروں کو جزوی رعایت دینے پر متفق ہوگیا ہے۔
ایف بی آر نے سیکشن 236C اور 236K کے تحت خریداروں اور فروخت کنندگان کے لیے رعایت کے لیے یہ درخواست کی تھی تاہم آئی ایم ایف نے صرف خریداروں کو رعایت دینے کی منظوری دے دی۔
تفصیلات کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق اپریل 2025 سے ہوگا تاہم فروخت کنندگان پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سندھ اور پنجاب میں ریئل اسٹیٹ کی طرف سے ڈویلپرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ابتدائی الاٹمنٹ کے مرحلے پر پراپرٹی کی رجسٹریشن کے دوران دوگنا ٹیکس دینے کے خلاف شکایات تھیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے پراپرٹی خریداروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کم کرنے کی بھی ہامی بھرلی ہے تاہم اس شعبے میں بھی یہ رعایت صرف خریداروں تک محدود ہوگی اور فروخت کنندگان سے یہ ٹیکس بدستور وصول کیا جائے گا۔
حکومت سے حالیہ مذاکرات میں آئی ایم ایف رواں ماہ کا ٹیکس ہدف 60 ارب روپے کم کرنے پر بھی راضی ہوگیا جس کی درخواست ایف بی آر نے کی تھی۔
جمعے کے روز پاکستانی اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان ہونے والی آن لائن میٹنگ میں میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (MEFP) کو حتمی شکل دینے اور دونوں فریقین کے مابین اسٹاف سطح کے معاہدوں پر بھی گفتگو ہوئی جو اگلے ہفتے متوقع ہے۔
گزشتہ روزوفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور کسی بھی لمحے پاکستان کو نئی قسط مل جائے گی۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مذاکرات سے متعلق یہ وضاحت بھی کی کہ معاملات تقریباً طے ہوچکے ہیں اور جلد پاکستان کو نئی قسط مل جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مسلسل آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کی گئیں شرائط پر سختی سے عمل کررہا ہے جس کا اعتراف بھی ہوا ہے، لہٰذا بظاہر ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ پاکستان کو نئی قسط نہ ملے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح ا ئی ایم ایف کے لیے
پڑھیں:
ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔