UrduPoint:
2025-06-11@19:27:57 GMT

سعودی عرب میں مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کی امید ہے، ماسکو

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

سعودی عرب میں مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کی امید ہے، ماسکو

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) اس خلیجی ریاست میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان ایک الگ ملاقات طے ہے جبکہ امریکہ پہلے یوکرینی وفد سے ملاقات کرے گا۔

اس سے قبل ماسکو نے 30 دن کی مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیےامریکہ اور یوکرین کی مشترکہ تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور اس کے بدلے توانائی کی تنصیبات پر فضائی حملوں کو روکنے کی بات سامنے رکھی تھی۔

ماسکو اور کییف دونوں کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اور ساتھ ہی دونوں نے حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ رواں ہفتے جمعہ کی شب یوکرینی شہر زاپروژیا پر روسی حملے میں ایک خاندان کے تین افراد ہلاک ہو گئے۔

یوکرین کی ایمرجنسی سروس نے آج صبح بتایا کہ روس نے یوکرینی دارالحکومت کییف پر بھی ڈرون حملے کیے اور رہائشی عمارتو‌ں کو نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھنے سے کم از کم دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

کییف کے میئر ویتالی کلچکو نے اتوار کو کہا، "دشمن کی جانب سے داغے گئے ڈرونز کا ملبہ شہر کے کئی حصوں میں گرا ہے جس سے سات افراد زخمی بھی ہوئے ییں۔"

دوسری جانب روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ شب یوکرین کی جانب سے داغے گئے 59 میزائلوں کو مار گرایا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی کوشش کے باوجود اب تک اس تنازعے کو روکنے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم اس جنگ کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔

روسی سینیٹر گریگوری کاراسین، جو ان مذاکرات کے لیے روسی وفد کی قیادت کریں گے، نے روسی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ہمیں اس معاملے میں کچھ پیش رفت کی امید نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے ارادے سے ہی جا رہے ہیں۔

یوکرین کے ایک سینیئر اہلکار نے ایک روز قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ کییف توانائی، بنیادی شہری ڈھانچے اور سمندر پر حملوں کو روکنے کے لیے جزوی جنگ بندی معاہدہ طے پا جانے کی امید کر رہا ہے

تاہم روس کی جانب سے مذاکرات کے لیے جانے والے دونوں روسی حکامکی اس حوالے سے مہارت پر سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں۔

دونوں کا ہی تعلق نہ تو وزارت دفاع سے ہے اور نہ ہی خارجہ امور سے ان کا کچھ لینا دینا ہے۔

کاراسین ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں، جو اب روس کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا حصہ ہیں، جب کہ بیسیڈا طویل عرصے سے ایف ایس بی کے افسر ہیں اور اب سکیورٹی سروس کے ڈائریکٹر کے مشیر ہیں۔

روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز نے سن 2014 میں اعتراف کیا تھا کہ ملک کے یورپی یونین کے حامی انقلاب کے دوران یوکرین کے دارالحکومت میں خونریز کریک ڈاؤن کے دوران بیسیڈا کییف میں موجود تھے۔

یوکرین روس پر ہمیشہ سے یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ حقیقتا امن کا خواہاں نہیں ہے اور ساتھ ہی وہ روسی حملوں کی مذمت بھی کرتا ہے۔

اس کے برعکس وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے روسی صدر کی تعریف کی ہے۔ ان کی ملاقات روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گزشتہ ہفتے ماسکو میں ہوئی تھی تو وٹکوف نے پوٹن کو ایک 'عظیم‘ لیڈر قرار دیا۔

انہوں نے کہا، "پوٹن برے آدمی نہیں ہیں تاہم یہ صورتحال کچھ پیچیدہ ہے۔"

دوسری طرف یوکرینی فضائیہ نے ہفتے کے روز بتایا کہ روس نے اپنے تازہ ترین حملوں میں یوکرین پر 179 ڈرون حملے کیے ہیں۔ مقامی گورنر کے مطابق مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے میں ہفتے کے روز روسی حملوں میں کم از کم دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔

اس دوران یوکرینی صدر وولودمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے جنگ زدہ مشرقی شہر پوکروسک، جس پر روس قبضہ کرنے کا خواہاں ہے، کے دفاع کے لیے لڑنے والے فوجیوں سے ملاقات کی ہے۔

اسے ایسے کر دیں، پلیز

رابعہ بگٹی اے ایف پ، ڈی پی اے کے ساتھ

ادارت :عاطف بلوچ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب سے کو روکنے کے لیے

پڑھیں:

امریکا عالمی مفاد میں بھارت کو گھسیٹ کر مذاکرات پر لائے، بلاول

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن: چیئرمین پی پی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ امریکا عالمی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھارت کو گھسیٹ کر (کان سے پکڑ کر) مذاکرات کی میز پر لائے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر، بھارتی ہٹ دھرمی اور خطے میں امن کے امکانات سے متعلق اہم بیان دیا ہے، جس نے سفارتی حلقوں اور عالمی مبصرین کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

برطانوی دارالحکومت لندن میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں قیام امن محض ایک خواہش نہیں بلکہ عالمی ضرورت ہے اور اگر اس مقصد کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لانا پڑے تو وہ لانا ہی پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں کئی مرتبہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور ان کے ان بیانات کو محض الفاظ نہیں بلکہ وعدے سمجھا جانا چاہیے۔ بلاول بھٹو نے زور دیا کہ ان بیانات کی روشنی میں بھارت کی جانب سے امن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔

انہوں نے کشمیر کی حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے متنازع قانون سازی کے ذریعے جموں و کشمیر کو جبراً اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے کی کوشش کی، تاہم صدر ٹرمپ کے بیانات نے اس مؤقف کو غلط ثابت کر دیا۔ بلاول نے کہا کہ جب امریکی صدر واضح کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر دو ممالک کے درمیان تنازع ہے، تو پھر انڈیا کا یہ کہنا کہ یہ اندرونی معاملہ ہے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

بلاول نے کہا کہ ان کی قیادت میں پاکستانی وفد نے برطانیہ میں مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا گیا۔ برطانوی سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ کشمیر پر سنجیدہ بات چیت کی جائے کیونکہ حالیہ اقدامات نے حالات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔

سابق وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ خطے میں کشیدگی کا اصل منبع بھارت کا جارحانہ طرز عمل اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ریاستی پالیسی ہے، جو نہ صرف اندرونی خلفشار کو جنم دے رہی ہے بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ بہتر ہو تو اسے سب سے پہلے کشمیر جیسے بنیادی تنازع پر حقیقت پسندانہ مؤقف اپنانا ہوگا۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے اور آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہے کہ ہر مسئلہ کا حل بات چیت ہے نہ کہ جنگ۔ انہوں نے زور دیا کہ جنگوں نے تاریخ میں کبھی مسائل حل نہیں کیے بلکہ مزید بگاڑ پیدا کیا۔ کشمیر، پانی، دہشتگردی اور دیگر تمام تنازعات وہ نکات ہیں جن پر اگر خلوص نیت سے بات کی جائے تو دیرپا حل ممکن ہے۔

بلاول بھٹو نے ایک اور اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہونے والی ہر جنگ کے بعد ہمیشہ سیز فائر کا احترام کیا اور کبھی جنگی جنون کو ہوا نہیں دی جب کہ دوسری جانب بھارت نے ہمیشہ اشتعال انگیزی کو ہوا دی، اپنے میڈیا کو پروپیگنڈا ٹول بنا کر استعمال کیا اور امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار صرف پاکستان کی خواہش پر نہیں بلکہ انڈیا کے طرز عمل پر بھی ہے۔ اگر بھارت بدستور ہٹ دھرمی پر قائم رہا تو پھر عالمی قوتوں کو مداخلت کر کے اسے بات چیت پر آمادہ کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق عالمی سطح پر اب یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ انڈیا کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے اور اسی لیے اب دنیا کی بڑی طاقتیں کشمیر جیسے حساس موضوع پر زیادہ کھل کر بات کر رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یوکرین نے اپنے 1212 فوجیوں کی لاشیں واپس لے لیں
  • امریکا عالمی مفاد میں بھارت کو گھسیٹ کر مذاکرات پر لائے، بلاول
  • امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر مذاکرات کی میز پر لائے، بلاول بھٹو
  • امید ہے کشمیر کا مسلہ بھی صدر ٹرمپ کے عہدہ صدارت کے دوران حل ہو جائے گا. امریکی محکمہ خارجہ
  • غزہ پر چھائے صیہونی دہشتگردی کے خونی بادل چھٹ نہ سکے،اسرائیلی حملوں میں مزید 60 فلسطینی شہید
  • ٹرمپ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کر سکیں گے: امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کر دی
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری مذاکرات میں ایران بھی شریک ہے، ٹرمپ
  • یوکرین: تازہ حملوں میں روس نے کییف اور اوڈیسا کو نشانہ بنایا
  • روس کا یوکرین پر حملہ‘ 5افراد ہلاک ‘ 20 زخمی
  • روس کا یوکرین پر سب سے بڑا ڈرون حملہ، 479 ڈرون برسادیے