سعودی عرب میں مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کی امید ہے، ماسکو
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) اس خلیجی ریاست میں امریکی اور روسی حکام کے درمیان ایک الگ ملاقات طے ہے جبکہ امریکہ پہلے یوکرینی وفد سے ملاقات کرے گا۔
اس سے قبل ماسکو نے 30 دن کی مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیےامریکہ اور یوکرین کی مشترکہ تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور اس کے بدلے توانائی کی تنصیبات پر فضائی حملوں کو روکنے کی بات سامنے رکھی تھی۔
ماسکو اور کییف دونوں کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں اور ساتھ ہی دونوں نے حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ رواں ہفتے جمعہ کی شب یوکرینی شہر زاپروژیا پر روسی حملے میں ایک خاندان کے تین افراد ہلاک ہو گئے۔
یوکرین کی ایمرجنسی سروس نے آج صبح بتایا کہ روس نے یوکرینی دارالحکومت کییف پر بھی ڈرون حملے کیے اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا۔
(جاری ہے)
عمارتوں میں آگ بھڑک اٹھنے سے کم از کم دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔کییف کے میئر ویتالی کلچکو نے اتوار کو کہا، "دشمن کی جانب سے داغے گئے ڈرونز کا ملبہ شہر کے کئی حصوں میں گرا ہے جس سے سات افراد زخمی بھی ہوئے ییں۔"
دوسری جانب روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ شب یوکرین کی جانب سے داغے گئے 59 میزائلوں کو مار گرایا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی کوشش کے باوجود اب تک اس تنازعے کو روکنے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم اس جنگ کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔
روسی سینیٹر گریگوری کاراسین، جو ان مذاکرات کے لیے روسی وفد کی قیادت کریں گے، نے روسی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ہمیں اس معاملے میں کچھ پیش رفت کی امید نظر آ رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے ارادے سے ہی جا رہے ہیں۔یوکرین کے ایک سینیئر اہلکار نے ایک روز قبل خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ کییف توانائی، بنیادی شہری ڈھانچے اور سمندر پر حملوں کو روکنے کے لیے جزوی جنگ بندی معاہدہ طے پا جانے کی امید کر رہا ہے
تاہم روس کی جانب سے مذاکرات کے لیے جانے والے دونوں روسی حکامکی اس حوالے سے مہارت پر سوالیہ نشانات اٹھ رہے ہیں۔
دونوں کا ہی تعلق نہ تو وزارت دفاع سے ہے اور نہ ہی خارجہ امور سے ان کا کچھ لینا دینا ہے۔کاراسین ایک کیریئر ڈپلومیٹ ہیں، جو اب روس کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا حصہ ہیں، جب کہ بیسیڈا طویل عرصے سے ایف ایس بی کے افسر ہیں اور اب سکیورٹی سروس کے ڈائریکٹر کے مشیر ہیں۔
روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز نے سن 2014 میں اعتراف کیا تھا کہ ملک کے یورپی یونین کے حامی انقلاب کے دوران یوکرین کے دارالحکومت میں خونریز کریک ڈاؤن کے دوران بیسیڈا کییف میں موجود تھے۔
یوکرین روس پر ہمیشہ سے یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ حقیقتا امن کا خواہاں نہیں ہے اور ساتھ ہی وہ روسی حملوں کی مذمت بھی کرتا ہے۔
اس کے برعکس وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے روسی صدر کی تعریف کی ہے۔ ان کی ملاقات روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گزشتہ ہفتے ماسکو میں ہوئی تھی تو وٹکوف نے پوٹن کو ایک 'عظیم‘ لیڈر قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "پوٹن برے آدمی نہیں ہیں تاہم یہ صورتحال کچھ پیچیدہ ہے۔"دوسری طرف یوکرینی فضائیہ نے ہفتے کے روز بتایا کہ روس نے اپنے تازہ ترین حملوں میں یوکرین پر 179 ڈرون حملے کیے ہیں۔ مقامی گورنر کے مطابق مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے میں ہفتے کے روز روسی حملوں میں کم از کم دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔
اس دوران یوکرینی صدر وولودمیر زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے جنگ زدہ مشرقی شہر پوکروسک، جس پر روس قبضہ کرنے کا خواہاں ہے، کے دفاع کے لیے لڑنے والے فوجیوں سے ملاقات کی ہے۔
اسے ایسے کر دیں، پلیز
رابعہ بگٹی اے ایف پ، ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت :عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی جانب سے کو روکنے کے لیے
پڑھیں:
روس سے اتحاد کے باعث سے بھارت کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، یورپی یونین
برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ فوجی مشقوں میں شمولیت، نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی بلاک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے اور دفاع جیسے شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
We just adopted a new EU-India strategy.
It offers stronger cooperation on trade, technology, climate, security and defence.
But there are areas where we disagree. Ultimately our partnership is about defending the rules-based international order.
My press remarks ↓ pic.twitter.com/sJT1iAFdt3
— Kaja Kallas (@kajakallas) September 17, 2025
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے ایک نئی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت کے بارے میں نہیں بلکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع کے بارے میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا، تیل کی خریداری، یہ سب ہمارے تعاون کو گہرا کرنے میں رکاوٹیں ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو یہ توقع نہیں ہے کہ بھارت، روس سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گا اور دونوں فریق اپنے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اور ماسکو کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ، بھارت نے اس ماہ روس کی مشترکہ فوجی مشقوں ’زاپاد‘ (مغرب) میں شرکت کی، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب ہوا۔
بھارت، روسی تیل کا بڑا خریدار بن گیا ہے جس سے اس نے اربوں ڈالر بچائے اور ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے روایتی خریداروں نے روس سے خریداری بند کر دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت اور چین پر بھاری محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک برسلز نئی دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پیچھے ہے، یہ امکان کم ہے، اگرچہ یورپی یونین بھارت میں روسی اداروں کے خلاف اقدامات کر سکتی ہے جیسا اس سے قبل ماسکو پر عائد پابندیوں کے پیکج میں کیا گیا ہے۔
روس پر مؤقف میں ہم آہنگی کی کمی کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت بھی 2025 کے آخر تک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے کے خواہاں ہیں، ایسے وقت میں جب نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
امریکا-بھارت تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں، جب ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جس کے باوجود بھارت نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔
کاجا کلاس کے ساتھ برسلز میں سیفکووچ نے کہا کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارت گزشتہ دہائی میں 90 فیصد بڑھ چکی ہے۔
بھارت اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کے اوائل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو گا۔
پیوٹن اور مودی کی دوستی
اسی دوران، بدھ کو پیوٹن اور مودی نے اپنی دوستی اور گرمجوش تعلقات کو سراہا اور ایک فون کال کی، حالانکہ واشنگٹن کی جانب سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر دباؤ موجود ہے۔
روسی اور بھارتی رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اس سے ایک روز قبل مودی نے یوکرین تنازع اور محصولات پر ٹرمپ سے بھی بات کی تھی۔
روسی صدر نے فون کال کے بعد ایک سرکاری اجلاس میں کہا کہ بھارت اور روس کے تعلقات انتہائی پُراعتماد اور دوستانہ رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور بھارت یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ اور یوکرین کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے اہم توانائی کے ذرائع آمدنی کو ختم کیا جائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کی فوج کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنے حملے جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Post Views: 3