امریکہ نے سراج حقانی سمیت 3 طالبان رہنماؤں کے سروں کی قیمت واپس لے لی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار ذاکر جلالی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی قیدی جارج گلیزمین کی رہائی اور طالبان قیادت پر انعامات کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق جنگ کے دور کے اثرات سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تعمیری اقدامات کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی محکمہ خارجہ نے سراج الدین حقانی سمیت طالبان قیادت کے سینئر رہنماؤں کے سروں کی مقرر کی گئی قیمت واپس لے لی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سراج الدین حقانی نے جنوری 2008 میں کابل کے سرینا ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی کا اعتراف کیا تھا، جس میں امریکی شہری تھور ڈیوڈ ہسلا سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اب سراج الدین حقانی کی تصویر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انعامات برائے انصاف کی ویب سائٹ پر نظر نہیں آتی۔
اتوار کے روز بھی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ویب سائٹ پر اب بھی ان کے لیے مطلوب کا پوسٹر موجود ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے سراج الدین حقانی، عبدالعزیز حقانی اور یحییٰ حقانی پر عائد انعامات واپس لے لیے ہیں۔ عبدالمتین قانی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان تینوں افراد میں سے 2 سگے بھائی اور ایک ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔
حقانی نیٹ ورک 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد طالبان کے مہلک ترین ہتھیاروں میں سے ایک بن گیا۔ اس گروپ نے سڑک کنارے بم، خودکش بم دھماکوں اور دیگر حملوں کا استعمال کیا، جن میں بھارتی اور امریکی سفارتخانوں، افغان صدر اور دیگر اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا، ماضی میں گروپ کا تعلق اغوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں سے بھی رہا۔
وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار ذاکر جلالی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی قیدی جارج گلیزمین کی رہائی اور طالبان قیادت پر انعامات کے خاتمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق جنگ کے دور کے اثرات سے آگے بڑھ رہے ہیں اور دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت کی راہ ہموار کرنے کے لیے تعمیری اقدامات کر رہے ہیں۔ ذاکر جلالی نے کہا کہ افغانستان اور امریکا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت دونوں حکومتوں کے درمیان عملی اور حقیقت پسندانہ روابط کی اچھی مثال ہے۔
ایک اور عہدیدار شفیع اعظم نے اس پیشرفت کو 2025 میں معمول پر لانے کے آغاز کے طور پر سراہا، اور طالبان کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ناروے میں افغان سفارت خانے کا کنٹرول ان کے پاس ہے۔ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے چین اپنے ایک سفارت کار کو قبول کرنے والا سب سے نمایاں ملک رہا ہے۔ دیگر ممالک نے طالبان کے حقیقی نمائندوں کو قبول کیا، جیسے قطر، جو امریکا اور طالبان کے درمیان ایک اہم ثالث رہا ہے، امریکی سفیروں نے بھی طالبان سے ملاقات کی ہے۔
طالبان کی حکمرانی، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں پر پابندی نے بڑے پیمانے پر مذمت وصول کی ہے، اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان کے فیصلہ سازی کے عمل، آمریت اور افغان عوام کی علیحدگی کے خلاف بول چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی بحالی طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کی حیثیت کے برعکس ہے، جنہیں خواتین پر ظلم و ستم کے الزام میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سراج الدین حقانی اور طالبان طالبان کے رہے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان: نو مئی کیس میں پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو جیل کی سزائیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی دو عدالتوں نے نو مئی 2023 کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں منگل کو تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کو دس دس برس قید کی سزائیں سنائیں۔
واضح رہے کہ کرپشن سے متعلق ایک مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو پر تشدد مظاہرے بھڑک اٹھے تھے اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے کوٹ لکھپت جیل میں رات کے تقریباﹰ ساڑھے نو بجے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کی موجودگی میں فیصلہ سنایا، جنہیں شیر پاؤ پل کیس میں ملوث کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
اے ٹی سی کی عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چوہدری، سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ اور سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کو 10 برس قید بامشقت کی سزا سنائی۔
جج نے افضل عظیم پہاڑ، علی حسن، خالد قیوم اور ریاض حسین سمیت دیگر متعدد ملزمان کو بھی 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔البتہ عدالت نے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور ملک کے سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس کیس میں بری کر دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ان 'غیر منصفانہ' فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرے گی۔
ہمیں اس کیس کے بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟لاہور میں نو مئی کے پر تشدد واقعات سے متعلق کسی بھی کیس میں یہ پہلا فیصلہ ہے۔ جج نے قریشی سمیت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایسے چھ ملزمان کو بری کر دیا، جو وکیل دفاع کے مطابق نو مئی کے روز کراچی میں تھے۔ پی ٹی آئی کے کارکن حمزہ عظیم، اعتزاز رفیق، رانا تنویر، افتخار احمد اور زیاس خان کو بھی بری کر دیا گیا ہے۔
سکیورٹی وجوہات کے سبب اس کیس کی سماعت جیل میں ہوئی اور ٹرائل کے دوران 14 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ استغاثہ نے 28 ستمبر 2023 کو فرد جرم عائد کی تھی۔
استغاثہ کا موقف تھا کہ نو مئی سے متعلق پر تشدد واقعات کی سازش عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک میں سات مئی کو رچی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزمان نے نو مئی کے پرتشدد مظاہروں کے دوران شیر پاؤ پل پر اشتعال انگیز تقاریر کیں اور عوام کو فسادات اور انتشار پر بھڑ کایا۔
دفاعی وکلا کے دلائلجبکہ دفاعی سرکردہ وکیل برہان معظم ملک نے دلیل دی کہ ایف آئی آر میں 400 ملزمان کا ذکر ہے، تاہم صرف 14 ملزمان پر مقدمہ چلایا گیا۔ دفاعی وکلا نے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی کہ کوئی بھی میڈیکل سرٹیفکیٹ موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ نو مئی کے روز کوئی شخص زخمی ہوا تھا۔
سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے عمر ایوب خان نے کہا کہ سرگودھا کی عدالت کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔
اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ سابق ٹرائل جج نے استغاثہ کے ان ہی گواہوں کو ناقابل اعتماد قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا، "پی ٹی آئی رہنماؤں کو بلاجواز سزا دی گئی ہے" اور پی ٹی آئی رہنما اس سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔"
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ "عدلیہ کے متنازع فیصلوں میں ایک اور نئے فیصلے کا اضافہ ہو گیا ہے۔
"ان کا کہنا تھا، "پاکستان تحریکِ انصاف نے بطور جماعت نو مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان نے خود اڈیالہ جیل میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعے کی منصفانہ تحقیقات آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کی جائے، جو ہمارے دو بنیادی مطالبات تھے وہ پورے نہیں کیے گئے۔"
ادارت: جاوید اختر