Express News:
2025-11-04@00:43:31 GMT

افغانستان و پاکستان کشیدگی کا حل مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

افغانستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں تیز کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کثیر الجہتی مذاکرات کی بحالی پر متفق ہوگئے، ان میں سیکیورٹی، سرحدی تنازعات اور افغان مہاجرین کے امور بھی شامل ہیں۔ پاکستانی وفد میں شامل وزارت تجارت کے حکام نے پاک افغان تجارت، ٹرانزٹ میں رکاوٹوں پر بات چیت کی ۔

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں کشیدگی کا جو عنصر جنم لے چکا ہے، اس کی وجہ سے یہ تعلقات باہمی ناراضگی کا سبب بن رہے تھے اور اس کے اثرات نہ صرف سماجی تعلقات پر پڑ رہے تھے بلکہ خصوصاً تجارتی سرگرمیاں بھی اس کی زد میں آ کر منفی رجحانات کا پتہ دیتی تھیں اس دوران میں متعدد مرتبہ سرحدوں کی بندش اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال دونوں طرف کے عوام کے لیے رابطوں میں مشکلات کا باعث تھی، تاہم اب یہ خبر تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ بالٓاخر ان تعلقات میں مثبت اشارے ملنے لگے اور تعلقات کی بحالی کی حوصلہ افزا خبریں سامنے آرہی ہیں۔

 درحقیقت افغانستان ایک لینڈ لاکڈ مُلک ہے، یعنی اس کے پاس سمندر سے تجارت کا کوئی راستہ نہیں اور اس کی زیادہ تر تجارت کراچی بندرگاہ سے ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کا افغان قوم پر یہ بھی احسان ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی رہے ہوں، اس نے افغان شہریوں کو اِس سہولت سے کبھی محروم نہیں کیا، اِسی لیے افغانستان میں کبھی مال و اسباب کی قلت نہیں ہوئی۔

پاکستان کے دو صوبے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان، افغان سرحد سے ملحق ہیں، جب کہ وسط ایشیا کے درمیان ایک کوریڈور یا پٹّی، واخان کے نام سے ہے، جو پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین کو آپس میں ملاتی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے (متحدہ ہندوستان کے دور سے) باہمی تجارت میں منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تجارت آگے وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلی ہوئی تھی تاہم بعد میں کمیونسٹ روس کے قیام کے بعد یہ صرف کابل تک محدود ہو کر رہ گئی تھی مگر اب کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں بوجوہ کشیدگی کی وجہ سے یہ تجارت بھی مختلف پابندیوں کی زد میں ہے اور جہاں پاکستان سے مختلف اشیاء خصوصاً گندم، آٹا، تیل و گھی، دالیں، چاول وغیرہ کی برآمد متاثر ہو رہی ہے وہاں افغانستان سے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی درآمد مشکلات کا شکار ہے، بہرحال اب جب کہ بالاخر بات چیت کا سلسلہ چل پڑا ہے اور جو خبریں مل رہی ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں اور نہ صرف باہمی تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں بلکہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کی امیدیں بھی روشن ہو رہی ہیں۔

 دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح وفود کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں غیر قانونی مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان عبوری حکومت سرکاری طور پر افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے، جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے بلکہ وہ افغان شہریوں کو ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔

ماضی و حال دونوں میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔ یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کی بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت اور افغانستان میں انڈین اثرورسوخ کو قابو کرنے اور ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے طالبان کو اقتدار دلانے میں مبینہ سہولت فراہم کی تھی۔

باوجود اس کے کہ دونوں گروہوں کی نسلی، سیاسی، نظریاتی اور میدان جنگ میں دیرنیہ وابستگیاں ہیں، تاہم اس دفعہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تین سال سے افغان عبوری حکومت کے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی کوئی نظامِ حکومت۔ وہاں کے عوام سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں، لیکن کوئی عالمی تو کیا، علاقائی مُلک بھی اس عبوری حکومت اور افغان شہریوں کی مدد کو تیار نہیں۔ آج افغانستان کا شمار دنیا کے تین سب سے غریب اور پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے، لیکن بعض پاکستانی ماہرِ مالیات اُس کی کرنسی کی مضبوطی کی جھوٹی کہانیوں سے یہاں کے لوگوں کو فریب دیتے ہیں۔

سب سے زیادہ لوگ افغانستان میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، لیکن ہمیں پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ کبھی شکست نہ کھانے والی قوم ہے۔خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں عام شہریوں کے ساتھ، سیکوریٹی اہل کاروں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں صرف دو ایسے قبائل ہیں، جو سرحد کے دونوں اطراف رہتے ہیں۔ افغان جنگوں کے درمیان افغان پناہ گزینوں کو خیبر سے کراچی تک بلا روک ٹوک آنے جانے کی اجازت دی گئی۔

شاید اِتنی آزادی تو انھیں اُن کے اپنے مُلک میں بھی حاصل نہ تھی کہ وہ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام کرتے رہے۔ ظاہر شاہ کا دورِ حکومت سامنے کی بات ہے، جو ایک مکمل بادشاہت تھی اور وہ بھی روسی ساختہ۔ وہ حکومت پہلے دن ہی سے پاکستان کے خلاف تھی۔ ہمارے ہاں افغان پناہ گزینوں کو تنظیمیں تک بنانے کی اجازت تھی۔ ان افغانوں کے رہنما، جو آج طالبان حکومت میں اہم عُہدوں پر ہیں، ہمارے ہاں معزز مہمان ٹھہرے۔ کرزئی صاحب پاکستان میں ڈاکٹری کرتے، ملا عُمر نے اسامہ اور القاعدہ کو پناہ دی، مگر پاکستان کے پچیس کروڑ عوام آج تک ساری دنیا میں دہشت گردی کا الزام بُھگت رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں کو غیر ممالک جانے کے لیے ویزے نہیں ملتے، جب کہ افغان شہری آسانی سے اسائلم حاصل کر لیتے ہیں۔ 

چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ مشکل میں افغانستان کا ساتھ دیا، سالہا سال تک افغان شہریوں کو یہاں پناہ دی،اب اسے بھی پاکستان میں معاملات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے۔

افغانستان کو کسی بھی دوسرے کی باتوں میں آ کر اسے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ دراصل پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا ایک اہم پہلو معاشی ہے۔ سرحدی تنازعات اور سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان افغانستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے، لیکن موجودہ حالات نے اس تعلق کو نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کی افغانستان سے واپسی کے بعد، خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوا ہے۔

چین اور روس جیسی طاقتیں اب افغانستان میں زیادہ فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا منبع افغانستان ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا بہادر جاتے جاتے اپنا سارا اسلحہ افغانستان چھوڑ گیا جو بعد ازاں تحریک طالبان کے ہتھے چڑھ گیا۔ ٹی ٹی پی امریکا کو بھگانے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ شاید اسی مغالطے کے سبب انھوں نے یہ خواہش پال رکھی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بھی اپنی مرضی کا نظام لانے کے لیے کوشش کر سکتی ہے۔

موجودہ کشیدہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ٹھوس افغان پالیسی بنانے کی ضرورت آن پڑی ہے جو اب تک ہماری ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی ہے اور ہم نے چل چلاؤ سے کام لیا ہے۔ حکومت کا تاجکستان میں موجود افغان تاجک لیڈروں کے ساتھ مل کر افغان حکومت پر پریشر بڑھانا ایک بہتر پالیسی ہے۔ ہمیں افغان حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ طالبان کو کنٹرول کرے۔ افغان حکومت کے ساتھ بڑھتا ہوا تضاد پاکستان کے لیے کسی طور پر بھی فائدہ مند نہیں کیونکہ اسرائیل، امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کے اشارے پاکستان کے لیے کوئی اچھے اشارے نہیں ہیں۔

بھارتی میڈیا پاک افغان کشیدگی کو ایکسپلائٹ کر رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی پالیسیاں بھارت نواز ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ پاک افغان کشیدگی اور اس کے ساتھ جڑے تمام معاملات کو قومی تناظر میں دیکھیں کیونکہ اگر پاک افغان ایشو پر دیگر ممالک دخل اندازی کرتے ہیں تو وطن عزیز کے لیے ایسی صورتحال نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔

یہاں وہ طاقتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جو تباہی چاہتی ہیں۔ ملکی سالمیت کے لیے ہمیں باہم مل بیٹھنا ہوگا۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہو گی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان پاکستان کے خلاف افغانستان میں افغان شہریوں پاکستان میں افغان حکومت کہ پاکستان تعلقات میں سے پاکستان پاک افغان کے درمیان ٹی ٹی پی رہی ہیں کے ساتھ کے لیے رہا ہے کر رہی اور اس رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے

سابق چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔

دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں تو اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ ایک یہ ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔اسی لئے پاکستان نے مزاکرات میں یہ بھی مطالبہ رکھا تھا کہ آفغان طالبان کے امیر پاکستان میں حملوں کے خلاف فتویٰ دیں۔دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف ایک پریشر tool کے طور پر استعمال کر کے بین الاقوامی منظر نامے پر زیر بحث رہ کر پاکستان اسلامی ممالک چین اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اسکا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کاروائیاں روکنے کے لئے اس کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں لہذا ان کی اس سلسلے میں مطلوبہ امداد فراہم کی جائے اس طرح سے چین جس کی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہے اور اس کا ایک صوبہ بھی افغان علاقے سے دراندازوں کی کاروائیوں کا شکار ہے اور اسلامی ممالک امریکہ اور یورپ سے معاشی فوائد حاصل کئے جائیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغان طالبان انڈیا سے معاشی فوائد حاصل کرکے اس کی پراکسی کے طور پر یا کھلی جھڑپوں کے ذریعے انڈیا کو دفاعی سطح پر فائدہ پہنچا رہا ہے۔

کیونکہ اس وقت انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک میں فوجی مشقیں شروع کی ہوئی ہیں اور انکے چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سیاسی ذمہ داراں پاکستان کو سبق سکھانے اور آپریشن سیندور کے جاری رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ لہذا اس طرح سے دو سرحدی محاذوں اور اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیذریعے پاکستان کو الجھا کر بھارت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا چاہے گا۔اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اس کے مطابق مناسب وقت پر کوئی ایڈونچر کرسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی افغان پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان وارئیر گروہ کی ہر طرح کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی کے متوقع نتائج یہی نکلنے تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی سلامتی کو گزشتہ چار سالوں سے ان کی طرف سے مسلح شدت پسندی کا سامنا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ’ویندا فلباب براؤن‘ کی رائے ہے کہ طالبان حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں، جو ختم کرنا مشکل ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔ قندھار میں طالبان کی جنوب میں موجود قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی طالبان حکومت کے لئے نظریاتی یا عسکری خطرہ نہیں تب تک افغان طالبان کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہو گا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔

دوسری طرف سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان کی طرف سے پاکستان میں موجود مقیم غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اٹھارہ روز سے جاری تجارتی بندش کو دباوء برھانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور طالبان رجیم کو کھلم کھلا غیر جمہوری قرار دے کر اس کے مخالفین کو تھپکی دی جا رہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اور سفارتی و فوجی دباو اسلامی ممالک کی ناراضگی کا خطرہ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔بہر صورت پاکستان کو اس پیچیدہ صورت حال سے احسن طریقے سے نمٹنے کیلئے امریکہ'چین 'سعودی عرب ایران' ترکیہ قطر سمیت اپنے تمام دوست اور برادر اسلامی ممالک سے مشاورت اور تعاون کے ساتھ ایسی متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس سے مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دشمن ممالک کے ناپاک عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان کشیدگی اور ٹرمپ کا کردار
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  • استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ