امریکا سے نکالے گئے سفیر کے جنوبی افریقہ پہنچنے پر استقبال کیلئے عوامی سیلاب امڈ آیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے ساتھ تنازع کے باعث امریکا سے نکالے جانے والے جنوبی افریقی سفیر کا اتوار کے روز وطن واپس پہنچنے پر، پرتپاک استقبال کیا گیا۔
نجی اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن اور پریٹوریا کے درمیان تعلقات اس وقت سے تناؤ کا شکار ہیں، جب ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کی سفید فام مخالف زمین کی پالیسی، عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ کرانے اور خارجہ پالیسی کی دیگر جھڑپوں پر جنوبی افریقہ کو دی جانے والی مالی امداد میں کٹوتی کی ہے۔
واشنگٹن سے نکالے جانے والے سفیر ابراہیم رسول نے کیپ ٹاؤن میں کہا کہ ’گھر آنا ہمارا انتخاب نہیں تھا، لیکن بغیر کسی پچھتاوے کے گھر واپس آئے ہیں‘۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ابراہیم رسول کو اس وقت ملک بدر کر دیا گیا تھا، جب انھوں نے ٹرمپ کی ’میک امریکا گریٹ اگین‘ تحریک کو امریکا میں تنوع کے خلاف بالادستی کا رد عمل قرار دیا تھا۔
ابراہیم رسول کا کیپ ٹاؤن بین الاقوامی ہوائی اڈے پر برسراقتدار افریقن نیشنل کانگریس پارٹی کے سبز اور پیلے رنگ میں ملبوس سیکڑوں حامیوں نے تالیاں بجا کر استقبال کیا۔
قطر کے دارالحکومت دوحا کے ذریعے 30 گھنٹے سے زائد وقت سفر کرکے پہنچنے کے بعد میگا فون پر حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل کشی کے جھوٹ سے منہ موڑ لیا ہے، لیکن ہم امریکا میں اس حوالے سے کامیاب نہیں ہوئے‘۔
نسل پرستی کے خلاف مہم چلانے والے سابق کارکن نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے ریمارکس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد ایک سیاسی رجحان کا تجزیہ کرنا اور جنوبی افریقیوں کو متنبہ کرنا تھا کہ ’امریکا کے ساتھ کاروبار کرنے کا پرانا طریقہ کام نہیں کرے گا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ میں نے جو کچھ کہا، اس نے صدر اور وزیر خارجہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے مجھے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا۔
جنوبی افریقہ، جو جی 20 کی سرکردہ معیشتوں کا موجودہ صدر ہے، نے اس ہفتے کہا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کو ترجیح سمجھتا ہے۔
امریکا جنوبی افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور اگلے سال جی 20 کی صدارت سنبھالے گا۔
ابراہیم رسول پیر کے روز صدر سیرل رامفوسا کو ایک رپورٹ پیش کریں گے، انہوں نے کہا کہ پریٹوریا کو اپنی اقدار کو قربان کیے بغیر واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ناپسندیدہ شخصیت کے اعلان کا مقصد آپ کی تذلیل کرنا ہے، لیکن جب آپ اس طرح کے ہجوم میں واپس آتے ہیں یہ ایک میڈل یا بیج جیسا ہے، جسے میں اپنی شخصیت کے وقار، اقدار اور ’صحیح کام کرنے کی علامت‘ کے طور پر پہنوں گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں جنوبی افریقہ کو دی جانے والی امریکی امداد کو روک دیا تھا، جس میں ملک میں ایک قانون کا حوالہ دیا گیا تھا، جس پر ان کا الزام ہے کہ سفید فام کسانوں سے زمین ضبط کرنے کی اجازت ہے۔
آئی سی جے میں امریکا کے اتحادی اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے کی وجہ سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔
پریٹوریا نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنی جارحیت میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جنوبی افریقہ ابراہیم رسول انہوں نے کے ساتھ کے خلاف کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
کینالز کے معاملے پر وفاق سنجیدگی نہیں دکھا رہا، شرمیلا فاروقی
لاہور:رہنما پیپلزپارٹی شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ کینالز کے معاملے کو وفاق اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہا جتنا اس کو لینا چاہیے، اب یہ کہنا کہ وفاق میں بیٹھے لوگ سن رہے ہیں وہ نہیں سن رہے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے ایک آفیشل چینل ہوتا ہے خطوط کا وہ لکھا اس کے بعد ہم ریزولوشن لے کر آئے، قومی اسمبلی میں اس کے اوپر ڈبیٹ ہوئی، پرائم منسٹر صاحب سے ملاقات ہوئی ہے ، تمام چیزیں ہوئی ہیں صرف باتیں کی جا رہی ہیں دلاسے دیے جا رہے ہیں،اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے.
رہنما مسلم لیگ (ن) اختیار ولی نے کہا کہ وہ بارش ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پھر سیلاب آتے ہیں، بارش سے ہی آتے ہیں سیلاب ایسے نہیں آتے، دوسری بات میں بتاؤں کسی کینال پر کہیں پہ کام شروع ہے جن پہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اعتراض ہے، میرے خیال میں ابھی تو نہیں ہوئے شروع، میرے خیال میں اگر آپ سیریس نہیں لے رہے ہیں تو پھر آپ کے انٹینشن کینال نہیں وہ کچھ اور ہو سکتے ہیں لیکن کینالوں کے مسئلے پر تو بات چیت یہاں تک آئی ہے.
رہنما تحریک انصاف فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہمارا ایشو نہ پیپلزپارٹی سے ہے اور نہ پنجاب کی حکومت سے ہے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے حق میں یہ بات ہے ہی نہیں کہ ملک کے کسی ایک صوبے کے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ دوسرا صوبہ ان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے، دریائے سندھ کے آخر میں سندھ ہے اسی وجہ سے جب سندھ کو پانی پورا نہیں ملتا تو سندھ کے نقصانات بہت ہوتے ہیں، 1990سے مجھے وہ سال بتا دیں جس میں سیلاب نہ آیا ہو جس میں سندھ اور پنجاب دونوں تقسیم پر راضی ہوں کہ منصفانہ تقسیم ہوئی ہے۔