Juraat:
2025-06-09@13:15:39 GMT

ڈالر اپنا غلبہ کھو سکتا ہے!

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

ڈالر اپنا غلبہ کھو سکتا ہے!

جاوید محمود

ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ امریکی معیشت کو سست شرح نمو اور مہنگائی میں اضافے کے دور میں بھیج رہی ہے گزشتہ چند ہفتوں میں انتظامیہ نے امریکہ کے اعلی تجارتی شراکت داروں سے درآمدات کی ایک وسیع رینج پر بھاری محصولات نافذ کیے اور مزید ڈھمکیاں دیں ہزاروں وفاقی حکومت کے کارکنوں کو فارغ کر دیا۔ انتظامیہ کے اچانک اقدامات نے اس بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے ایک طرف یورپین ممالک اور کینیڈا سے دوری پیدا ہوئی جبکہ بھارت سمیت دیگر ممالک بھی ٹیرف کے لگنے سے پریشان ہیں۔ اگر یہی پالیسی جاری رہی تو امکان یہ ہے کہ امریکہ تنہائی کا شکار ہو جائے گا اور سپر پاور کا تنہائی میں جانا اس کی ساکھ کو بری طرح سے مجروح کر سکتا ہے۔
بیسویں صدی کی وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پراس غلبہ کے ٹوٹنے ختم ہونے یا کمزور پڑھنے کی پیشنگوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ یکم جنوری 1999 میں یورپی کرنسی یورو کے متعارف ہونے کے بعد اور 2008 میں امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بھی امریکی ڈالر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا ۔روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھی ڈالر کے خاتمے کی بات کی گئی مگر یہ کرنسی بدستور بڑی کرنسی کی صورت میں دنیا میں موجود ہے ڈالر کے مقابلے میں تین حقائق کا حوالہ دیا گیا ہے ۔سب سے پہلے امریکہ کے بڑے حریف چین نے اقتصادی اور کاروباری حجم کے لحاظ سے یورپی یونین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب چین امریکی مارکیٹ پر نظریں رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ میں موجود سیاسی تنازعات امریکہ کی انتہائی قابل بھروسہ قرض لینے والے اور قرض دینے والے کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ایک مثال دو سال قبل ڈیفالٹ کے خطرے کی صورت میں سامنے آئی۔ امریکہ بہت تیزی سے ان ممالک کو سبق سکھانے کے لیے ڈالرز کا استعمال کر رہا ہے جو اس کے مطابق امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں ۔یعنی سادہ الفاظ میں امریکہ براہ راست جنگ میں ملوث ہونے یا کسی ملک پر حملہ کرنے کے بجائے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بے دریغ پیسے کا استعمال کر رہا ہے۔ سب سے پہلے ڈالر ایک ریزرو کرنسی ہے یعنی جس کے پاس اضافی پیسہ ہے ۔وہ اسے ڈالر کی شکل میں محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ڈالر اکاؤنٹ کی کرنسی ہے اور نہ صرف امریکہ بلکہ بیشتر دنیا کے ممالک اشیاء اور خدمات کی ادائیگی ڈالر کے ذریعے کرتے ہیں۔ چین ،روس، برازیل، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر معیشتوں کے روپے اور یوان کے ذریعے تجارت کرنے کی کوششوں کے باوجود ڈالر کی بطور سیٹلمنٹ کرنسی پوزیشن اب بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال کے آخر تک دنیا میں تقریبا 12 کھرب ڈالر مالیت کے کرنسی ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ اس ریزرو کا تقریبا 60فیصد امریکی ڈالر کی شکل میں ہے ۔لگ بھگ 20فیصد یورو تین فیصد یوان جبکہ باقی دوسری کرنسیاں ہیں۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ڈالر کا حصہ 80فیصد سے 90فیصد ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھی یہ مقبول رہا اور 2010میں ڈالر کا تمام بین الاقوامی ادائیگیوں میں 85فیصد حصہ تھا جو 2022 میں بڑھ کر 88فیصد ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈالر اکاؤنٹ کی مرکزی کرنسی ہے جس کے باعث اس کی مرکزی ریزرو کرنسی کے طور پر بھی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا سمجھتی ہے کہ اس کرنسی کو برے دنوں کے لیے بچانا اچھا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر میں تمام ادائیگیاں دنیا کے سب سے بڑے امریکی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور امریکی حکام اس کرنسی کی نقل و حرکت پرنظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر وقت کے ساتھ تصفیہ کی کرنسی سیٹلمنٹ کرنسی کے طور پر اپنی جگہ کھو دے گا۔ تاہم ایسا مستقبل قریب کا معاملہ نہیں ہے ۔وہ زور دیتے ہیں کہ کیونکہ دنیا میں امریکی مالیاتی منڈیوں کا سائز استحکام یا کھلے پن کے لحاظ سے کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے ڈالر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے ترقی پذیر ممالک میں صرف چین ہی دنیا کے مالیاتی مرکز کے طور پر امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے سامان تجارت کی فراہمی کے مالی معاہدوں کے لیے اپنی کھلی اور لیکوڈ مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ اگر سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک اپنا سارا تیل دنیا کے سب سے بڑے خریدار یعنی چین کو یوان میں فروخت کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ تب بھی عالمی تیل کی منڈی میں شنگھائی انرجی ایکسچینج کا حصہ موجودہ پانچ فیصد سے بڑھ کر صرف سات فیصد ہو جائے گا۔ ڈالر کے اثاثوں کی مانگ امریکہ کو بڑے تجارتی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بیجنگ میں کارنیگی سینٹر کی ایک امریکی ماہر معاشیات مائیکل پیٹس کہتے ہیں کہ یہ اچھا نہیں ہے ۔امریکہ میں داخل ہونے والے غیر ملکی سرمائے سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف بجٹ کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے اور ملکی قرض میں اضافہ کرتا ہے۔ مالی منڈیاں صرف ایک حد تک معیشت کی مدد کرتی ہیں جس کے بعد وہ ملک کے بجائے بینکوں کو فائدہ پہنچانے کا باعث بنتی ہیں ۔ان کے مطابق کمزور ہوتا ہوا ڈالر عالمی معیشت کو فائدہ دے گا لیکن یہ ان ممالک کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوگا جن کے پاس تجارتی سرپلس ہے ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوان آہستہ آہستہ ایک ریزرو کرنسی بن سکتا ہے۔
امریکی اور یورپی ماہرین اقتصادیات کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوان جمع ہو رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ ڈالر ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے لیکن جب ایسا ہوگا تو دنیا کو بہت سے دوسرے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈالر کا اپنی عالمی حیثیت کھو دینا صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب امریکہ دنیا میں اپنا جو اثر رسوخ کھو بیٹھے گا ۔بعض معروف ماہرین یہاں تک دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر کی بالا دستی خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ کیونکہ دنیا کی اہم ترین ریزرو کرنسی کا اجراکنندہ ہونا کوئی استحقاق نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے ۔اگر امریکہ نئی غلطیاں کرتا رہتا ہے اور ماضی کا تجزیہ کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ وقت آئے گا جب دنیا ڈالر سے دور ہو جائے گی۔ بہت سے ممالک پہلے ہی اس سے دور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ۔موجودہ صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی جنگ کا اعلان امریکہ کو بہت سے بحرانوں میں دھکیل سکتا ہے۔ یورپی ممالک سے اختلافات ،کینیڈا سے الجھنا ،چین اور میکسیکو پر ٹیرف لگانے کی دھمکیاں امریکہ کو تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ان حالات میں چین اپنی مثبت پالیسیوں کی مدد سے ایک بڑی قوت بن کے ابھر سکتا ہے۔ چین کی اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش یو ان کے غلبہ کو یقینی نہیں بنائے گی۔ بلکہ ایک کثیرقطبی کرنسی کی دنیا جہاں ڈالریورو یوان ایک ساتھ موجود ہوں گے، ان حالات میں ڈالر اپنا غلبہ کھو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: امریکہ کو کے طور پر کے مطابق دنیا میں سکتا ہے ڈالر کا ڈالر کی دنیا کے کہ ڈالر کہ دنیا ڈالر کے ہیں کہ کی ایک کے لیے رہا ہے ہے اور کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول

واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا  ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے  کو دیے گئے انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو  ثبوت ہو یا نہ ہو  اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں  نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے  یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی  اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔    

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ سے جھگڑا: ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • چلی ، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • امریکی کے سمندر میں آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، ماہرین کا انتباہ
  • امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول