حکومت کے کنٹرول میں کچھ نہیں، عوام کی مایوسی بجا
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے لیوی بڑھانی تھی وہ بڑھا دی یہ بڑے اچھے پرفارمر ہیں، یہ ایسی پرفارمنس دے رہے ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے اداکار عش عش کر اٹھیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک واضح بات ہوتی ہے کہ ہم فلاں تاریخ کو ریلیف دیں گے یا آج میںاعلان کر رہا ہوں کہ ہم بجلی سستی کرنے جارہے ہیں وہ والا سین نہیں تھا۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ سب سے بڑی بات یہ کہ جمہوریت جس کی ہم بات کرتے ہیں، جمہوری حکومت کیا ہوتی ہے، جمہوری حکومت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کو جواب دہ ہو اس کو اس بات کا احساس ہو کہ اس نے ایک خاص مدت کے بعد عوام کے پاس جانا ہے، اگر وہ اچھا کام نہیں کرے گی جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے یا وہ ایسی پالیسی اپنائے گی جس سے عام آدمی اس سے متنفر ہو تو وہ اس کو ووٹ نہیں دے گا۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ گورنمنٹ کے اپنے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے، سیکیورٹی کی صورتحال دیکھ لیں وہ بری سے بری ہوتی جا رہی ہے، گورنمنٹ کا اپنا قبلہ درست نہیں ہے، پتہ نہیں ہے کہ کس طرف جا رہے ہیں ، چوبیس کروڑ عوام میں اوور آل جو مایوسی ہے وہ بجا ہے، میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ اشرافیہ کا ملک ہے، اشرافیہ کے لیے ہے ان کے لیے توسب کچھ ہے لیکن عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔
تجزیہ کار عامرالیاس رانا نے کہا کہ خبریں مسلسل آتی رہیں گی، کبھی بننے کی اور کبھی بگڑنے لیکن چونکہ قرضہ تو ہم نے مانگنا ہے تو شرطیں تو ہمیںماننی پڑیں گی، جو آئی پی پیز کا فائدہ ہے وہ اویس لغاری کو بتانا پڑے گا کہ ایک طرف ہم کو آئی پی پیز کے نام پر سولر پہ لوٹا جا رہا ہے کہ جن کے ریٹ تھے پرانے ان کو چینج کرنا ہے جو نئے ہیں ان کے ساتھ تو بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ انھوں نے جو سمجھوتہ کیا ہے ان میں ان کی جو شرائط مانی ہیں ظاہر ہے ان کو ماننا پڑے گا، عوام کو تو یہ صرف یہیں بتائیں گے کہ جی اس طرح کردیں گے، اْس طرح کر دیں گے لیکن عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملنے والا، جو بجٹ بن رہا ہے کیونکہ ان ہی خدوخال کے مطابق بجٹ بنے گا اور اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ عوام کو نہیں ہے
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔