گزشتہ کالم میں راقم نے آپنے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اگلے کسی کالم میں اس سباق بات کریگا کہ لفظ”فتنہ “ سے کیا مراد ہے۔ راقم کیونکہ خود ابھی طفلِ مکتب ہے اور علم کے ایک ادنی طالب کی حثیت سے وہ اپنی کم علمی کی بدولت اس موضوع پر کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہے لہٰذا اسکی کوشش ہو گی کہ اس نازک موضوع پر بات کرنے کی لیئے وہ جن بھی حوالوں کا سہارا لے صحت کے لحاظ سے وہ کافی مضبوط اور مثبت ہونے چاہئیں۔
فتنہ کے لغوی معنی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ آشوب، بلا، شر، سختی، جھگڑا، ہڑبونگ، فساد، ہنگامہ، بغاوت، سرکشی، فتور، گمراہی، کف، شر، گناہ، فسق و فجور، دیوانگی، شرارت وغیرہ ان سب کا شمار فتنہ میں ہوتا ہے اور اگر براڈر سینس میں مفہوم کے اعتبار سے اسکا جائزہ لیا جائے تو پھر اہل علم کے نزدیک کسی کو ” آزمائش “ اور “ امتحان” میں ڈالنے کو بھی فتنہ میں شمار کیا جاتا ہے حتی کہ قران پاک میں آزمائش کے زمرے میں مال و دولت کو بھی فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ گمراہ کرنا اور گمراہ ہونا یہ بھی فتنہ کی تعریف میں اتے ہیں یہاں تک کہ اہل فلسفہ کے نزدیک کسی چیز کو پسند کرنااور پھر اس پر اس حد تک فریفتہ ہوجانا کہ معاشرتی طور پر طے کردہ حدود اور قیود کی بھی پرواہ نہ رہے یہ بھی ایک فتنہ ہے اور پھر لوگوں کی رائے میں نظریات اور شخصییت پرستی کی بنیاد پر اختلافات کا ان حدوں کو چھو لینا جہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے اس کفیت کو بھی اہل نظر فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
عملی زندگی میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ہی ہمارے لیئے مشعل راہ کا کام کرتی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے جیسے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی وہیں اسی طرح آپ نے فتنوں بارے بھی اپنی اُمت کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے منقول ایک روایت کچھ اسطرح ہے کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دن اس مجلس میں فتنوں کا ذکر ایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے آپس کے معاہدات ، معاملات میں دھوکا عام ہوجائے، اور ان میں سے امانت داری کی صفت ختم ہوجائے یعنی وہ بددیانت ہوجائیں اور وہ آپس میں اختلاف اور ٹکراؤکی وجہ سے گتھم گتھا ہوجائیں اور لڑنے بھڑنے لگ جائیں پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے اشارہ سے سمجھایا کہ اس طرح باہمی فسادات ہوں ، بات یہاں تک پہنچی تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !میں آپﷺ پر قربان ہوجاؤں، یہ بتایئے کہ ایسے زمانے میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں کیا طرز عمل اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ ﷺنے پانچ جملے ارشاد فرمائے ، پانچ ہدایات دیں جو کچھ اس طرح تھیں۔
پہلی ہدایت یہ کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھو اور گوشہ نشینی اختیار کرو۔ دوسری ہدایت یہ دی کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو یعنی مقصد کی بات کے علاوہ دیگر گفتگو مت کرو اور بے مقصد باتوں سے اجتناب کرو تاکہ تم نہ قولاً کسی فتنے کا سبب بنو اور نہ عملی طور پر فتنے کا ایندھن بنو۔ تیسری ہدایت یہ دی کہ جس بات کو شریعت کے موافق پاؤ اس پر عمل کرو۔شریعت کو مقدم رکھو۔اپنے جذبات کو، ماحول کو، اردگرد کے احوال کو شریعت کے ترازو پر پرکھو اور اگر شریعت کے موافق ہوتو عمل کرو ورنہ چھوڑدو۔ چوتھی ہدایت اور نصیحت یہ فرمائی کہ جو بات خلاف شریعت ہو، منکر ہو اس سے اجتناب کرو چاہے اس کا تعلق گفتگو سے ہو یا جذبات سے ہو جبکہ پانچویں اور آخری ہدایت یہ دی کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو، عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑو۔ اپنے آپ کو بچاؤ،اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔قارئین اس مفصل گفتگو کے تناظر میں آئیے ذرا آج کل کے حالات کا جائزہ لیں اور پہلے یہ طے کریں کہ ہم آج کس دور سے گزر رہے ہیں۔ فی زمانہ سب سے پہلے یہ تو دیکھیں کہ معاہدات اور معاملات میں ہمارا طرز عمل کتنا شفاف ہے دوئم دیانتداری کے معاملے میں ہمارے انفرادی اجتماعی اور قومی روئیے کس بات کی چغلی کھا رہے ہیں اور سوئم اسکے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے باہمی اختلافات کن حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اگر ان تینوں لٹمس ٹیسٹ میں رپورٹ منفی اعشاریوں کا عندیہ دیتی ہے تو پھر یقینا ہم اس دارالفتین کے باسی ہیں جہاں نہتے شہریوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مساجد میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کے مکروہ کھیل کے ساتھ اپنی مرضی کی شریعت کا تکرار ہو رہا ہے اور ریاست کی رٹ کو للکارہ جا رہا ہے تو پھر ان سب زندہ حقیقتوں کی بنیاد پر اگر ریاست اس سارے عمل کو فتنہ الخوارج کے نام سے پکارتی ہے اور اس فتنہ کی سرکوبی کیلیئے نکلتی ہے تو پھر اس پر کیسا واویلا اور کیوں ؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر محب وطن پاکستانی کو اُن سے کرنا چاہیئے جو ففتھ جنریشن وار کا ایک ٹول بن کر دن رات اپنی ریاست اور اپنے اداروں کے خلاف ارادی یا غیر ارادی طور پر کمپئین پر نکلے ہوئے اس فتنہ کو پروموٹ کر رہے ہیں اور جانتے بوجھتے نبی اکرمﷺ کی فتنہ بارے بتائی پانچ نصیحتوں پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رسول اللہ ہدایت یہ رہے ہیں تو پھر اپنے ا ہے اور
پڑھیں:
پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے ہولناک دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں 26 بے گناہ افراد بشمول غیر ملکی سیاح جاں بحق ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اس المناک واقعہ پر اپنے گہرے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس حملے میں بے گناہ جانوں کا جانا، جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں، انتہائی افسوسناک ہے، ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کے وحشیانہ فعل کی کوئی بھی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر انسانی حملہ ہے، اس کی واضح الفاظ میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزا دی جائے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی مقصد، سیاسی ہو، نظریاتی یا کوئی اور ہو، اس طرح کی درندگی کا جواز قطعی نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے، جو ہر اخلاقی اور انسانی ضابطے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے فوری، فیصلہ کن اور شفاف اقدامات کرے اور کشمیر میں سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بنائے اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں، جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں یا بے گناہ گروہوں کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔