پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں بے مثال ہیں، بیرسٹر سلطان
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
صدر آزاد کشمیر نے بلوچستان میں شہید ہونے والے میجر سعد بن زبیر کی رہائش گاہ جا کر اُن کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور فاتحہ خوانی کی۔ اسلام ٹائمز۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بلوچستان میں شہید ہونے والے میجر سعد بن زبیر کی رہائش گاہ جا کر اُن کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں بے مثال ہیں پاک فوج ملکی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہے اور ملک پاکستان کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے ملکی سلامتی کے لئے پاک فوج کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید میجر سعد بن زبیر کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ا زاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے پاک فوج
پڑھیں:
بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔