بیجنگ: “آپ یونیٹری G1 کے ساتھ کون سا ڈانس کرنا چاہیں گے؟” حال ہی میں، ہانگ چو کی ٹیکنالوجی کمپنی یونیٹری نے روبوٹ کے ڈانس کی ایک ویڈیو جاری کی جس کا آغاز ہی یہ دلچسپ سوال تھا۔پھر اس کے بعد چینی کونگ فو کرتے ہوئے اس روبوٹ کی ویڈیو نے تو غیر ملکی میڈیا کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ درحقیقت، روبوٹس کی سرگرمیاں تیزی سے زندگی کے مختلف شعبوں میں داخل ہورہی ہیں۔ بجلی کے معائنے، فائر فائٹنگ، سمندری ریسکیو جیسے شعبوں کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں بھی ان کے افعال میں تنوع آ رہا ہے ۔موسیقی ، رقص ، تھائی چی کی مشق ، یہاں تک کہ یہ بچوں کےلیے ریاضی کے سوالات بھی حل کر سکتے ہیں ۔ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ پہلے روبوٹس صرف گھر کی صفائی کرتے تھے، اب تو “موسیقی، شطرنج، خطاطی اور مصوری” جیسے فنون میں بھی ماہر ہو گئے ہیں۔روبوٹس کی یہ کثیرصلاحیتیں چین کی کھپت میں ہونے والی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی طلب کی عکاس ہیں۔ چین میں متوسط آمدنی والی آبادی تقریباً 40 کروڑ ہے، اور امکان ہے کہ یہ 2035 تک 80 کروڑ تک پہنچ جائے گی ۔ آبادی کا یہ طبقہ کھپت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آمدنی میں اضافے کے ساتھ صارفین کی ترجیحات اور ضروریات بھی تبدیل ہو رہی ہیں، جو نہ صرف صارفی صنعتوں کو جدید بنانے بلکہ جدت طرازی کو بھی تقویت دے رہی ہیں ۔ چائنا ڈویلپمنٹ فورم میں شرکت کے دوران ٹیپسٹری گروپ کی جاؤ نین کریووئےسیرات نے سی جی ٹی این کو بتایا کہ چینی صارفین کی تیزی سے بدلتی ترجیحات اور ڈیجیٹل شمولیت نے کمپنی کو مسلسل جدت پر مجبور کیا ہے۔ چین سے حاصل ہونے والے ڈیجیٹل تجربات، جیسے لائیو اسٹریمنگ ،ای-کامرس اور سرکلر اکانومی کے تصورات، اب عالمی سطح پر کمپنی کی حکمت عملی کو نئی شکل دے رہے ہیں۔ کھپت کی ترقی کی بنیاد چین میں مکمل صنعتی چین اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مضمر ہے۔ مثال کے طور پر،صوبہ شان ڈونگ کی چھاؤ کاؤنٹی میں ڈیجیٹل ڈیزائننگ سسٹم کی مدد سے چینی روایتی ملبوسات” ہانگ فو” کے نئے ڈیزائنز کی تیاری کا دورانیہ 7 دن تک کم ہو گیا ہے۔صوبہ گوانگ ڈونگ کے چونگ شان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں گھریلو استعمال کے آلات کے ہزاروں کارخانے ہیں۔اور صوبہ زے جیانگ کے شہر ای وو میں ثقافتی اور تخلیقی صنعت ہر روز سیکڑوں نئی مصنوعات لانچ کر کےسرحد پار ای کامرس کے ذریعے دنیا بھر کے صارفین تک تیزی سے پہنچاتی ہے۔حکومتی پالیسیاں بھی اس عمل میں تعاون کر رہی ہیں۔ مارچ 2025 میں چین نے “کھپت کو فروغ دینے کے خصوصی اقدامات” جاری کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دروازے مزید کھولے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تک رسائی کے لئے منفی فہرست کو کئی بار ترمیم کر کے آسانیاں پیدا کی گئی ہیں اور ٹرانزٹ ویزا فری پالیسی کے دائرے میں مسلسل توسیع کی گئی ہے۔ ٹیلی کام، تعلیم، اور صحت کے شعبوں میں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے شرائط نرم کی گئی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف چینی صارفین کو زیادہ اختیارات دے رہے ہیں بلکہ عالمی برانڈز کو بھی نئے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ کھپت کی ترقی درحقیقت خوشحالی کے لیے انسان کی جستجو ہے۔ جب روبوٹس ڈانس کرنے لگیں، تو یہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں بلکہ کھپت کی اپ گریڈنگ میں معیشت کی ایک حقیقی تبدیلی ہے۔بنیادی ذرائع معاش کی ضروریات سے مزید خوبصورت زندگی کی خواہش تک، “میڈ ان چائنا” سے ” چائنیز انٹیلیجنٹ مینوفیکچرنگ” تک ، یہ عمل 1.
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
روس سے اتحاد کے باعث سے بھارت کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، یورپی یونین
برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ فوجی مشقوں میں شمولیت، نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی بلاک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے اور دفاع جیسے شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
We just adopted a new EU-India strategy.
It offers stronger cooperation on trade, technology, climate, security and defence.
But there are areas where we disagree. Ultimately our partnership is about defending the rules-based international order.
My press remarks ↓ pic.twitter.com/sJT1iAFdt3
— Kaja Kallas (@kajakallas) September 17, 2025
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے ایک نئی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت کے بارے میں نہیں بلکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع کے بارے میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا، تیل کی خریداری، یہ سب ہمارے تعاون کو گہرا کرنے میں رکاوٹیں ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو یہ توقع نہیں ہے کہ بھارت، روس سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گا اور دونوں فریق اپنے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اور ماسکو کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ، بھارت نے اس ماہ روس کی مشترکہ فوجی مشقوں ’زاپاد‘ (مغرب) میں شرکت کی، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب ہوا۔
بھارت، روسی تیل کا بڑا خریدار بن گیا ہے جس سے اس نے اربوں ڈالر بچائے اور ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے روایتی خریداروں نے روس سے خریداری بند کر دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت اور چین پر بھاری محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک برسلز نئی دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پیچھے ہے، یہ امکان کم ہے، اگرچہ یورپی یونین بھارت میں روسی اداروں کے خلاف اقدامات کر سکتی ہے جیسا اس سے قبل ماسکو پر عائد پابندیوں کے پیکج میں کیا گیا ہے۔
روس پر مؤقف میں ہم آہنگی کی کمی کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت بھی 2025 کے آخر تک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے کے خواہاں ہیں، ایسے وقت میں جب نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
امریکا-بھارت تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں، جب ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جس کے باوجود بھارت نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔
کاجا کلاس کے ساتھ برسلز میں سیفکووچ نے کہا کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارت گزشتہ دہائی میں 90 فیصد بڑھ چکی ہے۔
بھارت اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کے اوائل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو گا۔
پیوٹن اور مودی کی دوستی
اسی دوران، بدھ کو پیوٹن اور مودی نے اپنی دوستی اور گرمجوش تعلقات کو سراہا اور ایک فون کال کی، حالانکہ واشنگٹن کی جانب سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر دباؤ موجود ہے۔
روسی اور بھارتی رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اس سے ایک روز قبل مودی نے یوکرین تنازع اور محصولات پر ٹرمپ سے بھی بات کی تھی۔
روسی صدر نے فون کال کے بعد ایک سرکاری اجلاس میں کہا کہ بھارت اور روس کے تعلقات انتہائی پُراعتماد اور دوستانہ رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور بھارت یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ اور یوکرین کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے اہم توانائی کے ذرائع آمدنی کو ختم کیا جائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کی فوج کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنے حملے جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Post Views: 3