بھارت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرسکتا ہے، سیکورٹی ادارے
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس سی ایس آئی ایس نے بھارت کے خلاف ایک اہم وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اوٹاوا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی ڈپٹی ڈائریکٹر وینیسالائیڈ نے کہا ہے کہ بھارت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرسکتا ہے۔ بھارت کی حکومت کینیڈا کی کمیونیٹیز اور جمہوری عمل میں مداخلت کے لیے ضروری وسائل رکھتی ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس سی ایس آئی ایس نے بھارت کے خلاف ایک اہم وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی ڈپٹی ڈائریکٹر وینیسا لائیڈ نے پریس کانفرنس کے دوران یہ تشویش ظاہر کی کہ بھارت سمیت کئی ریاست مخالف عناصر کینیڈا کے جمہوری عمل میں مداخلت کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکتے ہیں، جن میں مصنوعی ذہانت اے آئی کا استعمال بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی حکومت کینیڈا کی کمیونیٹیز اور جمہوری عمل میں مداخلت کے لیے ضروری وسائل رکھتی ہے اور وہ اس میں ملوث ہو سکتی ہے۔
لائیڈ کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے انتخابات میں بیرونی مداخلت کا خطرہ صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ روس اور پاکستان جیسے ممالک بھی ایسی سرگرمیاں کر سکتے ہیں جو انتخابات کے نتائج کو متاثر کر سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ کینیڈا کے نومنتخب وزیراعظم مارک کارنی نے ملک میں 28 اپریل کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں، اور سیکیورٹی کے حوالے سے حکومت کی طرف سے بیرونی مداخلت کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حکومت کینیڈا حکومت کی رکھتی ہے کہ بھارت بھارت کی کے لیے
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔