ترکی: مظاہرین کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن، صحافیوں کو جیل
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) ترکی میں حکومت مخالفین کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، اس کے باوجود ترک مظاہرین منگل کو مسلسل چھٹے دن سڑکوں پر نکلے۔ اس دوران سات صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
استنبول کے میئر کی گرفتاری پر عوامی احتجاج میں شدت
ترکی میں حالیہ احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب استنبول کے میئر اکرم امامولو، جو صدر رجب طیب ایردوآن کے اہم سیاسی حریف ہیں، کو گزشتہ ہفتے بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
امامولو کی حراست نے مظاہروں کو جنم دیا، جس کے بعد کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اب تک 1,400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
صحافیوں کی گرفتاری کے بارے میں ہم اور کیا جانتے ہیں؟حراست میں لیے گئے صحافیوں میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے فوٹوگرافر یاسین اکگل بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
صحافیوں پر "غیر قانونی ریلیوں اور مظاہروں میں حصہ لینے" کا الزام لگایا گیا ہے۔
حالانکہ اے ایف پی نے کہا کہ یاسین "احتجاج میں شامل نہیں تھے" بلکہ صرف ایک صحافی کے طور پر اس کی کوریج کر رہے تھے۔استنبول کے مقید میئر اکرم امامولو اپوزیشن کے صدارتی امیدوار نامزد
اے ایف پی کے سی ای او اور چیئرمین فیبریس فرائز نے خبر رساں ایجنسی کی طرف سے ترکی کے ایوان صدر کو سخت لہجے میں لکھے گئے خط میں کہا، "ان کی قید ناقابل قبول ہے۔
اسی لیے میں آپ سے ہمارے صحافی کی جلد از جلد رہائی کے لیے مداخلت کرنے کو کہہ رہا ہوں۔"منگل کے روز استنبول کے سسلی ضلع میں میونسپل ہیڈ کوارٹر کی طرف بڑھتے ہوئے ہزاروں افراد نے مارچ کیا اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر "طیب استعفیٰ دو" کے نعرے درج تھے۔ جب کہ سڑکوں کے کنارے مکانات کی بالائی منزلوں پر موجود لوگ مظاہرین کی حمایت میں پلیٹیں اور کٹورے بجا رہے تھے۔
مظاہرے ناکام ثابت ہوں گے، ایردوآنترک حکومت نے اکرم امامولو کی گرفتاری کے سلسلے میں، سیاسی اثر و رسوخ کے استعمال کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ آزاد ہے۔
ایردوآن نے حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی پر شہریوں کو مشتعل کرنے کا الزامعائد کیا ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ایک بار جب ان (اپوزیشن) کا "شو" ختم ہو جائے گا تو وہ ملک کے ساتھ کی جانے والی "برائی" پر شرمندہ ہوں گے۔
منگل کو ایک دعوت افطار میں نوجوانوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے، ترک صدر نے لوگوں سے صبروتحمل اور عقل سے کام لینے پر زور دیا۔ انہوں نے حالیہ دنوں کو "انتہائی حساس" قرار دیا۔
ایردوآن نے کہا، "جو لوگ ہماری سڑکوں پر دہشت گردی کرتے ہیں اور اس ملک کو افراتفری کی جگہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ان کے پاس آگے جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ بند ہو گیا ہے۔" اپوزیشن کا بڑے مظاہرے کی اپیلحزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما اوزگور اوزیل نے استنبول کے مغرب میں سلیوری جیل میں امامولو سے ملاقات کی ۔ اوزیل نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ "ان لوگوں کی طرف سے شرمندہ ہیں جو ترکی پر حکومت کر رہے ہیں، جس ماحول میں میں ہوں اور ترکی جس صورتحال سے دوچار ہے۔
"اوزیل نے کہا کہ امامولو کے ساتھ دو دیگر میئر بھی جیل میں ہیں۔ "وہاں تین شیر تھے، مضبوط اور توانا شیر، ان کا حوصلہ بلند ہے، انہیں اپنے آپ پر، اپنے خاندانوں، اپنے ساتھیوں پر فخر ہے اور وہ خوف زدہ نہیں تھے۔"
انہوں نے کہا کہ ریپبلکن پیپلز پارٹی امامولو کی جگہ پر ایک قائم مقام میئر کا تقرر کرے گی، تاکہ ریاست کی طرف سے متبادل میئر مقرر کرنے کی کوشش ناکام بنائی جا سکے۔
اوزیل نے تمام ترک عوام سے استنبول میں ہفتہ کو ہونے والی ایک عوامی ریلی میں ان کے ساتھ شامل ہونے کی اپیل کی۔
اوزیل نے منگل کو ایک ریلی میں مظاہرین سے پوچھا، "کیا آپ امامولو کی حمایت کرنے، ان کی گرفتاری پر اعتراض کرنے، شفاف، کھلے ٹرائل کا مطالبہ کرنے، یہ کہنے کے لیے کہ اب بہت ہو چکا ہے اور ہم قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں، استنبول کے ایک بڑے چوک میں ہفتے کے روز ایک بڑی ریلی کے لیے تیار ہیں؟"
ہفتے کے روز ہونے والا مظاہرہ استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع وسیع مالٹیپ گراؤنڈ میں متوقع ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امامولو کی کی گرفتاری استنبول کے اوزیل نے ایردوا ن کی طرف نے کہا
پڑھیں:
برطانیہ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کی مبینہ سازش میں تین ایرانی افراد پر فردِ جرم عائد
برطانیہ میں تین ایرانی شہریوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ایران کی غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی مدد کر رہے تھے اور برطانیہ میں مقیم صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔
ان تینوں افراد — مصطفی سپاہوند (39 سال)، فرہاد جوادی منش (44 سال) اور شاپور قلهعلی خانی نوری (55 سال) — پر برطانیہ کے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں، جو غیر ملکی ریاستوں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق، یہ کارروائی اگست 2024 سے فروری 2025 کے دوران انجام دی گئی، جس کا تعلق ایران سے ہے۔
مصطفی سپاہوند پر سنگین پرتشدد کارروائی کی تیاری کے لیے نگرانی کرنے کا اضافی الزام بھی ہے، جب کہ منش اور نوری پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ایسے افراد کے لیے نگرانی کی جن سے توقع تھی کہ وہ تشدد میں ملوث ہوں گے۔
تینوں ملزمان نے لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے مختصر پیشی کے دوران اپنے وکلا کے ذریعے الزامات سے انکار کیا اور ستمبر 26 کو باقاعدہ فردِ جرم کی سماعت تک جیل بھیج دیے گئے۔ مقدمے کی سماعت اکتوبر 2026 میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق، یہ سازش ان صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی تھی جو برطانیہ میں قائم ایران مخالف نشریاتی ادارے "ایران انٹرنیشنل" سے وابستہ ہیں۔
واضح رہے کہ یہ گرفتاری اسی روز عمل میں آئی جب انسداد دہشت گردی پولیس نے ایک علیحدہ کارروائی میں پانچ دیگر افراد کو حراست میں لیا، جن میں چار ایرانی شامل تھے۔ تاہم انہیں بعد میں بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا۔