Express News:
2025-07-26@06:50:26 GMT

عیدی کی بہار

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

عیدین خاص طور پر عیدالفطر کے موقع پر عیدی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کا بچوں سے لے کر بڑوں تک  سب کو انتظار ہوتا ہے۔ عیدی کو اگر ایک بیش قیمت تحفہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تازہ کڑکڑاتے نوٹ اور ان کی خوشبو عید کے دن سب کا موڈ خوشگوار کردیتی ہے۔

مجھے تو اپنے بچپن کی ہر عیدی یاد ہے جب ابو ہمیں پانچ یا دس روپے عیدی دیا کرتے تھے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ پچاس روپے فی بچہ عیدی مل جایا کرتی اور ہم اسی پر خوش ہوجایا کرتے۔ سستی چیزوں کا زمانہ تھا پچاس روپے میں تو بہت سی چیزیں آجایا کرتی تھیں.

کھٹی میٹھی املی، پولکا آئس کریم، میٹھا پان، ٹھنڈی کھوئے والی قلفی، پیسٹری اور جوس باآسانی آجایا کرتے تھے، حتیٰ کہ کچھ پیسے بچ بھی جایا کرتے تھے۔

ابو سے عیدی کے بعد ایک اہم چیز امی کے گلک سے پیسے اکٹھے کرنا ہوتے تھے۔ امی کے پاس ایک مٹی کا گلک ہوا کرتا تھا جس میں وہ روز خرچے سے بچ جانے والے سکوں کو بھر لیتی تھیں اور اس کے بعد پلان یہ ہوتا تھا کہ عیدین یا شب برات پر اسے صحن میں توڑا جائے گا اور جتنے بھی بچے ہیں ان کو کہا جائے گا کہ وہ پیسے لوٹ لیں۔ میرے بڑے بہن بھائی تو گلک کے ٹوٹنے کے انتظار میں ہوتے اور خوب سکے بٹور لیتے لیکن میں اور میری چھوٹی بہن گڑیا وہیں کھڑے منہ بسورتے رہتے۔ جس کے بعد ہمیں امی بعد میں خود سے کچھ پیسے دے دیتیں اور ہمارا رونا بند ہوتا۔ بعد میں ہر تہوار کےلیے نیا گلک خرید لیا جاتا۔

جب ہم لاہور اپنے ننھیال جاتے تو وہاں ماموں اور خالہ سب سے عیدی ملتی اور واپسی پر ٹرین میں سب اپنی اپنی پسند کی چیزیں کھاتے یا ایسا ہوتا کہ خالہ لاہور ہی میں عید کے بعد بازار لے جاتیں اور سب اپنی اپنی عیدی سے اپنے اپنے شوق کے مطابق چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خریداری کرتے، جن میں نئے نئے اسٹائل کے ربڑ، شارپنر، کہانیوں کی رنگین کتابیں،  رنگ برنگے مارکر اور اسی طرح کے اسٹیشنری آئٹم خریدے جاتے۔ ددھیال میں چچا اور پھپھو بھی عیدی دیتے۔

غرض یہ کہ چھوٹی عید ہم بچوں کےلیے خوشی کا موقع ہوتا جب ہمیں پیسے ملنے کی امید ہوتی۔ ہمارے زمانے میں عموماً ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ہمیں رشتے داروں سے جو عیدی ملتی ہو وہ ہمارے والدین لے لیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ایک تو عیدی میں ملنے والی رقم تھوڑی ہوتی تھی اور دوسرا رشتے داروں کے بچوں کو بھی یہی توقع ہوتی تھی کہ انھیں بھی ہمارے والدین سے کم عیدی ہی ملے گی۔

جیسے جیسے بڑے ہوئے عیدی کا ایک نیا تصور سامنے آیا۔ جب میری بڑی بہن کی منگنی ہوئی تو ان کی ہونے والی سسرال سے ان کےلیے اس وقت کے حساب سے قیمتی سوٹ، جوتے، چوڑیاں، میک اپ، مہندی  اور دیگر اشیا بھی آئیں۔ وہ بھی ہم سب چھوٹے بچوں کےلیے ایک نیا تجربہ تھا اور اس وقت ہم بھی ان سب چیزوں کو دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے رہے اور دل میں شادی کی امنگ جاگتی رہی لیکن اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ شادی بذات خود ایک بہت بڑی ذمے داری ہے جو کہ ان جوتے کپڑوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔

آج کل کے دور میں عیدی کا تصور بہت حد  تک بدل گیا ہے۔ بچوں کو آج کل دو دو ہزار عیدی بھی دے دی جائے تو وہ خوش نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ہے کہ ان کا زمانہ ہمارے زمانے سے بالکل الگ ہے۔ آج کل مہنگائی بھی بہت ہے اور اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچوں کی اشیا بڑوں کے استعمال کی چیزوں کی نسبت زیادہ مہنگی بھی ہیں۔

جہاں تک رہی عید اور عیدی پر خلوص کی بات، وہ تو اب خال خال ہی نظر آتا ہے لیکن پھر بھی کئی رشتے دار اور دوست احباب بہت مخلص اور ملنسار ہوتے ہیں اور دل  سے عیدی یا عید کے موقع پر تحائف دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی قدر کرنا چاہیے اور ان کی دی گئی عیدی کو دل سے قبول کرنا چاہیے۔ آخر میں رہ گئے وہ کنجوس دوست احباب اور رشتے دار جو جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا کر واٹس ایپ پر تصویر کی صورت میں پانچ ہزار کا نوٹ عیدی  کے طور پر بھیج دیتے ہیں کہ بس بھیا یہی قبول کرلیں ہم بہت دور ہیں آ ہی نہیں سکتے۔

عیدی دینے والے بڑوں کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے جن سے عیدی مانگی جائے تو وہ بڑی حیرت سے کہتے ہیں ’’کون سی ایدھی بھئی؟‘‘ یہ سن کر بندہ حیرت اور صدمے کے مارے کچھ کہہ ہی نہیں سکتا کہ انھوں نے عیدی اور ایدھی کو کہاں ملا دیا۔ ہم نے تو آپ کو عیدی کی پوری کہانی سنادی، اب آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ عیدی لینے والے خوش نصیبوں میں سے ہیں یا ہر عید پر ہماری طرح آپ کی جیب بھی ڈھیلی کروا دی جاتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اس کے بعد

پڑھیں:

جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 جولائی2025ء) عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے، وضو کیلئے دیے گئے پانی میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے اہم پیغام سامنے آیا ہے۔ اپنے تفصیلی پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ "پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی مگر اسے ہر سہولت کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔کسی سیاسی رہنما کی بے گناہ غیر سیاسی اہلیہ کو کبھی ایسے جیل میں نہیں ڈالا گیا جیسے بشرٰی بیگم کے ساتھ کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

میں صرف اور صرف اپنی قوم اور آئین کی بالادستی کے لیے ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں۔ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے اور اس میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔

میری کتابیں جو اہل خانہ کی جانب سے جیل حکام تک پہنچائی جاتی ہیں وہ بھی کئی ماہ سے نہیں دی گئیں، ٹی وی اور اخبار بھی بند ہے۔ بار بار پرانی کتب کا مطالعہ کر کے میں وقت گزارتا رہا ہوں مگر اب وہ سب ختم ہو چکی ہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال ہیں۔ قانون اور جیل مینول کے مطابق ایک عام قیدی والی سہولیات بھی مجھے میسر نہیں ہیں۔ بار بار درخواست کے باوجود میری میرے بچوں سے بات نہیں کروائی جا رہی۔

میری سیاسی ملاقاتوں پر بھی پابندی اور ہے صرف "اپنی مرضی" کے بندوں سے ملوا دیتے ہیں اور دیگر ملاقاتیں بند ہیں۔ میں واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت پارٹی کا ہر فرد اپنے تمام اختلافات فوری طور پر بھلا کر صرف اور صرف پانچ اگست کی تحریک پر توجہ مرکوز رکھے۔ مجھے فلحال اس تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا۔ میں 78 سالہ نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں، جس میں میری کامیابی یہی ہے کہ عوام تمام تر ظلم کے باوجود میرے ساتھ کھڑی ہے۔

8 فروری کو عوام نے بغیر نشان کے جس طرح تحریک انصاف پر اعتماد کر کے آپ لوگوں کو ووٹ دئیے اس کے بعد سب کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آواز بنیں۔ اگر اس وقت تحریک انصاف کے ارکان آپسی اختلافات میں پڑ کر وقت ضائع کریں گے تو یہ انتہائی افسوسناک اور قابل سرزنش عمل ہے۔ پارٹی میں جس نے بھی گروہ بندی کی اسے میں پارٹی سے نکال دوں گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اس کے لیے قربانیاں دے رہا ہوں ایسے میں پارٹی میں اختلافات پیدا کرنا میرے مقصد اور ویژن کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

فارم 47 کی حکومت نے چھبیسویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مفلوج کر دیا ہے۔ چھبیسویں ترمیم والی عدالتوں سے ٹاوٹ ججوں کے ذریعے جیسے سیاہ فیصلے آ رہے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کو آزاد کروانے کے لیے اپنی بھر پور جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر کسی ملک و قوم کی بقاء ممکن ہی نہیں ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • مانسون اجلاس میں بہار ووٹر لسٹ پر اپوزیشن کا ہنگامہ، پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی