لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواست، سندھ ہائیکورٹ کا پولیس کارکردگی پر اظہار برہمی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس ظفر احمد راجپوت کی سربراہی میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے پولیس کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔
درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ بشیر تھانہ سائٹ اے کی حدود سے رواں سال جنوری سے لاپتا ہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار بتائیں سی ڈی آر کہاں ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نمبر نہیں دیا گیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے رپورٹ میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ کو نمبر نہیں دیا گیا۔ سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ تھانے کی حدود پر تنازع ہے۔ اب موجودہ تفتیشی افسر کو تفتیش ملی ہے۔
عدالت نے تفتیشی حکام سے استفسار کیا کہ آپ لوگ اب تک کیا کر رہے تھے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ہم نے مسجد کے مؤذن کا بھی بیان لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے مسجد کے مؤذن سے بجلی کا بل کیوں لیا۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے نہ مغوی کا نمبر لیا نہ شناختی کارڈ۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ رہائشی ثبوت کیلئے موذن سے مسجد کا بل لیا۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا لاپتا افراد کے اہل خانہ کی فوری مالی معاونت کرنے کا حکم
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر ان کی تفتیش کا یہی معیار ہے تو پھراللہ ہی حافظ ہے۔ عدالت نے لاپتا شہری کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ محمد بلال کو پولیس موبائل میں اٹھایا گیا۔ ہم نے درخواست میں پولیس موبائل کا بھی ذکر کیا لیکن مقدمے میں پولیس موبائل سے ملتی جلتی گاڑی کا ذکر کیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے پھر مقدمے پر دستخط کیوں کیے۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہماری دکان میں پھر دو پولیس موبائل والے آئے تھے۔ جس میں لاپتا شہری کو بھی لیکر آئے تھے۔ پولیس نے وہاں پستول رکھا اور ان کو کہا کہ اب یہ پستول اٹھاؤ۔ پھران کو دوبارا اپنے ساتھ واپس لیکر گئے۔عدالت نے لاپتا شہری محمد علی کی گمشدگی کے مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیدیا۔ عدالت نے سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وکیل نے موقف دیا کہ سندھ ہائیکورٹ پولیس موبائل لاپتا افراد تفتیشی افسر کہا کہ
پڑھیں:
لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
بلوچستان ہائیکورٹ نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق اپنے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نمبر 3، جسٹس اقبال کاسی اور جسٹس ایوب ترین پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 26 جون اور 17 جولائی 2025 کو جاری کیے گئے عدالتی احکامات کی یاددہانی کرائی، جن میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے عمل کو واضح طور پر روک دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان احکامات کے باوجود متعلقہ حکام نے مراسلہ جات جاری کیے، اجلاس منعقد کیے اور دیگر عملی اقدامات کیے، جو صریحاً عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام، تجویز کس کی تھی؟
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، ڈی جی لیویز، کمشنر ژوب ڈویژن، ڈپٹی کمشنرز قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی سمیت ایس پیز اور دیگر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل باسط شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود صوبائی حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل جاری رکھا، جس میں میٹنگز، احکامات اور فیلڈ میں عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے تربت بینچ نے 24 جون 2025 کو حکومت بلوچستان کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز کو معطل کر دیا تھا اور لیویز کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 20 مئی اور 17 جون کو جاری نوٹیفکیشنز پر عملدرآمد روک دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے حتمی فیصلے تک کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔
لیویز فورس کی قانونی نمائندگی سینئر وکیل طاہر علی بلوچ نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنا نہ صرف آئین اور قانون کے منافی ہے بلکہ اس سے عوامی مفاد بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے 17 جون کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 13 اضلاع میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جو ’بی ایریا‘ کو ’اے ایریا‘ میں تبدیل کرنے کی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی کو 10 جولائی تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
قبل ازیں، جنوری 2025 میں کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے گا اور امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 2003 میں بھی نیشنل پبلک سیفٹی پلان کے تحت پورے صوبے کو ’اے ایریا‘ قرار دے کر لیویز کو پولیس کا حصہ بنایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں 2008 میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے لیویز کو بحال کر دیا تھا۔
لیویز فورس، جو 1860 کی دہائی میں برطانوی دور میں تشکیل دی گئی، اس وقت بلوچستان کے 82 فیصد علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ پولیس کا دائرہ صرف شہری علاقوں یعنی 18 فیصد حصے تک محدود ہے۔ لیویز فورس کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے اور یہ ایک باقاعدہ قانون کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔
بلوچستان میں ’اے ایریا‘ اور ’بی ایریا‘ کی بنیاد پر پولیسنگ کا دوہرا نظام رائج ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس، جبکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز فورس امن و امان کی ذمہ دار ہے۔
بلوچ عوامی حلقوں کی اکثریت لیویز کو ایک مقامی، بااعتماد اور مؤثر فورس سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے لیویز کے انضمام کے خلاف ہر دور میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، اور اب عدالتی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے نے ایک بار پھر سنگین قانونی رخ اختیار کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس