امریکہ نے سراج الدین حقانی سمیت حقانی نیٹ ورک کے راہنماﺅں کے سروں کی قیمت ختم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 مارچ ۔2025 )امریکہ نے افغانستان میں عسکریت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی سمیت دیگر سینیئرراہنماﺅں کے سروں کی قیمت کے نام پر مقرر کیے گئے لاکھوں ڈالر کے انعامات ختم کر دیے ہیں یہ فیصلہ امریکی صدر ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت کے چند ہفتے بعد اور خصوصا اس واقعے کے کچھ روز بعد سامنے آیا ہے جب کابل میںامریکی حکام نے امریکا کے سابق ایلچی زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں طالبان حکومت سے ایک امریکی سیاح کی رہائی کے لیے ملاقات کی تھی.
(جاری ہے)
یاد رہے کہ سراج الدین حقانی افغانستان میں طالبان حکومت میں وزیر داخلہ بھی ہیں اس پیش رفت کو موجودہ تناظر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک پر افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کے دوران کئی ہائی پروفائل اور شدید نوعیت کے حملے کرنے کا الزام ہے انہی میں امریکی اور انڈین سفارت خانوں اور نیٹو افواج پر حملے بھی شامل ہیں تاہم 2021 سے ملک میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد سے اب یہ نیٹ ورک طالبان حکومت میں اہم حیثیت رکھتا ہے. دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ سراج الدین حقانی ان کے بھائی عبدالعزیز حقانی اور برادر نسبتی یحییٰ حقانی کے سر پر اب کوئی انعام نہیں تاہم وہ اب بھی شدت پسندوں کی عالمی فہرست میں شامل ہیں اور ان کا نیٹ ورک ایک شدت پسند تنظیم ہی مانا جاتا ہے ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر پیر تک سراج الدین حقانی کے لیے 10 ملین ڈالر انعام کا اعلان موجود تھا اور یہ اعلان اب ہٹا دیا گیا ہے. طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا اشارہ دیتا ہے طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انعامات ہٹانے کا فیصلہ طالبان حکومت کی مسلسل سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے ان کے مطابق یہ ایک مثبت قدم ہے اور یہ ہماری دنیا خاص طور پر امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات کو ظاہر کرتا ہے انہوں نے دعوی کیا کہ امریکی وفد نے ہم سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ مثبت تعلقات اور باہمی اعتماد کو فروغ دینا چاہتے ہیں. کابل میں یرغمالیوں کی رہائی کے ایلچی ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق ایلچی زلمے خلیل زاد سمیت دیگر حکام نے کابل میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دیگر طالبان حکام سے ملاقات کی تھی اس ملاقات کے بعد امریکی شہری جارج گلیزمین کو طالبان حکومت نے رہا کر دیا تھا جنہیں دسمبر 2022 میں سیاحت کے دوران گرفتار کیا گیا تھا تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا انعامات ہٹانے کا فیصلہ ان مذاکرات کا حصہ تھا یا نہیں. حقانی نیٹ ورک کی بنیاد سراج الدین حقانی کے والد جلال الدین حقانی نے 1980 کی دہائی میں رکھی تھی ابتدا میں یہ گروہ سی آئی اے کی حمایت یافتہ ایک تنظیم کے طور پر افغانستان اور پاکستان میں سوویت افواج کے خلاف کام کرتا تھا لیکن بعد میں یہ خطے میں مغرب مخالف ایک عسکریت پسند تنظیم بن گیا یہ گروپ 1996 میں طالبان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوا جب انہوں نے پہلی بار افغانستان پر قبضہ کیا جلال الدین حقانی 2018 میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے. یاد رہے کہ سراج الدین حقانی طالبان حکومت میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر ابھر رہے ہیں خاص طور پر اس وقت جب ان کے اور طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے درمیان اختلافات بڑھ رہے ہیں طالبان حکومت کے کچھ ارکان نے بتایا کہ خواتین کی تعلیم کا مسئلہ ان اختلافات کی ایک بڑی وجہ ہے واضح رہے کہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حقانی نیٹ ورک خود کو ایک نسبتاً معتدل گروہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان افغان شہریوں کی حمایت حاصل کر رہا ہے جو سپریم لیڈر کی خواتین کی تعلیم پر سخت پالیسیوں سے مایوس ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سراج الدین حقانی حقانی نیٹ ورک طالبان حکومت میں طالبان کے طور پر رہے کہ
پڑھیں:
امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
یمنی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کو ایک خط بھیج کر امریکی جرائم پر بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس ملک نے یمن پر ایک ہزار کے قریب وحشیانہ حملے کیے ہیں اور اس کا ہدف صیہونیوں اور ان کے جرائم کی حمایت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایسے وقت جب امریکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی رژیم کے جرائم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے یمن میں عام شہریوں اور شہری مراکز پر وحشیانہ جارحیت انجام دینے میں مصروف ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس ملک کے سیکڑوں شہریوں کا قتل عام کر چکا ہے، یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے گذشتہ رات بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں یمن کے خلاف وحشیانہ امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط انسانی حقوق کونسل کے صدر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اس کونسل کے اراکین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ ان خطوط میں یمنی وزیر خارجہ نے یمن کے عوام اور خودمختاری کے خلاف تمام امریکی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر زور دیا اور تاکید کی: "امریکہ نے اب تک یمن کے خلاف تقریباً ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"
یمن کے وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط میں مزید لکھا: "امریکہ نے یمن میں درجنوں شہری بنیادی ڈھانچوں بشمول بندرگاہیں، ہوائی اڈے، فارمز، صحت کی سہولیات، پانی کے ذخائر اور تاریخی مقامات کو بھی فضائی جارحیت نشانہ بنایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال راس عیسی کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا جس کے نتیجے میں 80 شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔" اس یمنی عہدیدار نے مزید لکھا: "اس کے علاوہ، امریکہ جان بوجھ کر امدادی کارکنوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن میں دارالحکومت صنعا کے شعوب محلے میں واقع فروہ فروٹ مارکیٹ بھی شامل ہے جو اتوار کی رات مجرمانہ امریکی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس کے نتیجے میں 12 شہری شہید اور 30 دیگر زخمی ہو گئے۔" انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "یمن کے خلاف امریکی وحشیانہ جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی امریکیوں کو خونریزی جاری رکھنے اور یمنی قوم کے وسائل اور سہولیات کو تباہ کرنے میں مزید گستاخ بنا رہی ہے۔ یمن کے خلاف امریکی جارحیت کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتی رانی کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور معصوم شہریوں کے خلاف اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔" یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط کے آخری حصے میں لکھا: "یمن کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت صیہونی رژیم کے خلاف یمن کے محاصرے کو توڑنے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مجرمانہ اہداف کے حصول اور ان کے منصفانہ مقصد کو تباہ کرنے میں اس رژیم کی حمایت کی کوششوں کا حصہ ہے اور یمنی عوام کو غزہ میں فلسطین قوم کی حمایت پر مبنی دینی اور اخلاقی موقف سے ہٹانے کی مذبوحانہ کوشش ہے۔"