معصوم شہریوں کے اغوا پر آواز اٹھانے والا صحافی اغوا پھر گرفتاری ظاہر
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے بدھ کے دن وحید مراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان پر پیکا ایکٹ کے تحت آرمی چیف عاصم منیر کے خاندان کی تصاویر دکھانے والے صحافی احمد نورانی کی خبر شیئر کرنے اور ملکی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کا الزام عائد کرتے ہوئے دس روزہ ریمانڈ کی درخواست کی۔
تاہم سول عدالت نے دو دن کا ریمانڈ منظور کرتے ہوئے وحید مراد کو ایف آئی اے کا سپرد کر دیا۔یاد رہے کہ صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کو بھی ایک ہفتہ قبل رات کے اوقات میں مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا۔ نورانی کے بھائی تاحال لاپتا ہیں، نہ پولیس اور نہ ہی کوئی اور ادارہ انہیں ’اٹھانے‘ یا گرفتار کرنے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
منگل اور بدھ کی درمیانی رات وحید مراد کو بھی اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے سیاہ وردی میں ملبوس افراد نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا تھا۔ صبح دیر تک پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی دیگر ادارے نے انہیں حراست میں لینے کا اعتراف نہیں کیا۔
وحید مراد کی ساس نے ان کے بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس کی سماعت کل بروز جمعرات مقرر تھی۔
تاہم درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری کو بعد از دوپہر غیر رسمی ذرائع سے معلوم ہوا کہ وحید مراد کو سول عدالت میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد وہ فوری طور پر وہاں پہنچ گئیں۔ صحافیوں کے لیے کیا اسلام آباد غیر محفوظ ہو گیا؟صحافیوں اور وکلا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں عام شہریوں کے لیے حالات غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں اور بالخصوص چھبیسویں آئینی ترمیم اور اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججوں کی تعیناتی کے بعد عدالتوں سے بھی زیادہ امید نہیں رہی۔
معروف صحافی حامد میر کے بقول، "جس طرح وحید مراد کو گرفتار کیا گیا اور نورانی کے بھائیوں کا جو معاملہ ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام آباد آج کل عام شہریوں کے لیے خطرناک شہر بنتا جا رہا ہے۔"
خیال ہے کہ نورانی کے بھائی مبینہ طور پر اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہیں اور صحافتی و قانونی برادری نہ صرف ان کی رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہے بلکہ بااثر حلقوں سے بھی اپیل کر رہی ہے کیونکہ ان کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔
صحافی برادری کا کہنا ہے کہ ریاست بوکھلاہٹ میں غیر قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ تنقیدی آوازوں کو دبایا جا سکے۔معروف صحافی اور انسانی حقوق کے حامی مطیع اللہ جان کہتے ہیں، "ریاست گھبرا چکی ہے۔ شہریوں کو اغوا کرکے کچھ وقت کے لیے لاپتا رکھنا اور پھر بعض صورتوں میں ان پر بے بنیاد الزامات لگا کر مقدمے درج کرنا دراصل صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو خاموش کرانے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔
انصاف کا نظام بھی آوازیں دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔" عدالتی نظام کیا استعمال کیا جا رہا ہے؟وکلاء برادری کا موقف ہے کہ نہ صرف عدالتی نظام کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ وکلاء اور خود قانون کی بھی توہین کی جا رہی ہے۔ وحید مراد اور نورانی کے بھائیوں کی وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ عدالتیں ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں اور ان کا رویہ غیر معمولی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اب تک احمد نورانی کے بھائیوں کی گمشدگی کے معاملے کو اس طرح نہیں دیکھ رہی جیسے اسے دیکھنا چاہیے تھا۔وحید مراد کے حالیہ کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جج اتنی جلدی میں تھا کہ اس نے بس وحید مراد کے ریمانڈ پر دستخط کیے اور فوراً چلا گیا، "جج نے ہمیں مراد کے ساتھ قانونی معاہدے پر دستخط کرنے کا وقت ہی نہیں دیا تاکہ وکالت نامے کی عدم موجودگی کی صورت میں دیے گئے ریمانڈ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
"انہوں نے مزید کہا، "مجھے اور میرے شوہر ہادی علی چٹھہ کو بھی وکیل کے تقرر کے کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کے دوران قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ بربریت کی ایک مثال ہے۔"
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وحید مراد کو اسلام آباد نورانی کے کرتے ہوئے کے لیے رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی
ایک مشہور اسرائیلی صحافی نے غاصب صیہونی رژیم کے سفاک وزیر اعظم کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس شخص کے لا تعداد جھوٹ پر عملدرآمد کرنا ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کیلئے مکمل حکومتی وسائل بھی کافی نہیں! اسلام ٹائمز۔ معروف اسرائیلی صحافی بن کیسپت (בן כספית-Ben Caspit) نے صیہونی اخبار معاریو (Ma'ariv) میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں، گذشتہ ہفتے، کرپشن کے مقدمات کی سماعت کے دوران پولش نژاد غاصب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ایک اور جھوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے لاتعداد جھوٹ پر عملدرآمد ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کے لئے حکومتی وسائل بھی کافی نہیں اور حتی طیارہ بردار بحری بیڑے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بن کیسپت کا لکھنا تھا کہ یہ آدمی دن میں 24 گھنٹے، کسی بھی وقت، کسی بھی موسم اور کسی بھی زبان میں جھوٹ بولتا ہے جیسا کہ اسی ہفتے ہم نے ربی ہرش کے ساتھ انگریزی زبان میں گفتگو میں اس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا۔
بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ججوں سے بھی جھوٹ بولا ہے جب اس نے اعلان کیا تھا کہ 1999 کے انتخابات کے بعد اور ان انتخابات میں اپنی شکست پر وہ سیاسی میدان چھوڑ کر ایک "سابق سیاستدان" بن گیا تھا اور سیاست میں واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ صیہونی صحافی نے مزید لکھا کہ نیتن یاہو نے دعوی کر رکھا ہے کہ با اثر لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات "مکمل طور پر مجاز اور قانونی تھے"۔ اسرائیلی صحافی نے بیان کیا کہ جیسے ہی نیتن یاہو نے اس وقت استعفی دیا، اس نے عملی طور پر سیاست میں واپسی کے لئے اپنی مہم کا آغاز کر دیا تھا اور اس کے کارندوں نے بھی ہمارے لئے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی صحافی نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ان تمام صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک مہم بھی شروع کی تھی کہ جن کے ساتھ وہ اپنے اقتدار کی مدت کے دوران تنازعات میں گھرا رہا تھا۔ بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے براہ راست مجھ پر بھی زور دیا تھا کہ وہ سیاست میں واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے درمیان انجام پانے والی کوئی بھی بات چیت اسی محور کے گرد گھومتی تھی۔ معروف اسرائیلی صحافی نے اپنی تحریر کے آخر میں تاکید کی کہ نیتن یاہو نے بات چیت کے اختتام پر مجھ سے التجا کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ "مجھ پر ایک احسان کرو اور سارہ (نیتن یاہو کی اہلیہ) کو اپنے حال پر چھوڑ دو!" جس کے جواب میں مَیں نے اسے کہا کہ "جب تک وہ (سارہ) حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کرے، میں اس کے معاملات میں مداخلت کی کوئی خواہش نہیں رکھتا!"