Express News:
2025-06-15@06:06:12 GMT

شب قدر خزینۂ رحمت الٰہی

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں، آخری عشرے کی طاق راتوں میں، وہ سعادتوں سے بھری گھڑی جس کا انتظار ہر مسلمان کی آنکھوں میں سجا ہے، جیسے حاصل کرنا ہر روزہ دار کی خواہش و چاہ ہے، وہ رات جو ہر اس دل کا ارمان ہے جو صاحب ایمان ہے، قدرت کا وہ انعام جو پل پل ہمیں نوید دے رہا ہے، باب رحمت کھلا ہے رب مہربان ہے۔

ہمیں شب قدر دی گئی۔ جس طرح رمضان کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ زیادہ افضل ہے اور اس کی عظمت و برتری اس لیے ہے کہ اس میں لیلۃ القدر نہایت ہی قدر و منزلت و خیر و برکت کی حامل رات ہے۔

یہی وہ رات ہے جس میں انسانی زندگی کی راہ نمائی کے لیے خدا کا آخری دستور اور انسانی فلاح کا منشور قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یک بارگی نازل ہُوا۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کم نہ تھی کہ اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ القدر کے نام سے نازل ہوئی جس میں رب العزت نے خود اس کی بزرگی، عظمت و بڑائی بیان کی، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں جبرائیلؑ و فرشتے اترتے ہیں رب کے حکم سے ہر کام کے لیے، یہ رات سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘

یہ عظیم المرتبت رات ہمیں یوں ہی نہیں نصیب ہوئی، رب کریم کی یہ خاص عنایت، اس عظیم رات کا حصول نبی کریم ﷺ کی امت پر شفقت و غم خواری ہے کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں کس طرح سابقہ امتوں کی عبادت میں برابری کرسکتے ہیں، پس اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی غم خواری دیکھتے ہوئے آپؐ کو شب قدر عطا کی۔ یہ عظیم رات ہمیں سرکار دو عالمؐ کی غلامی کے صدقے نصیب ہوئی۔ یہ رات امت کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ شب قدر اﷲ تعالیٰ نے صرف میری امت کو عطا فرمائی پہلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی۔

سورہ القدر کی نورانی آیات غور سے پڑھیں تو اس کی پہلی آیت میں ارشاد ربانی کہ تم کیا جانو شب قدر کیا ہے! یعنی فیض و برکت والی یہ رات معمولی نہیں کہ اسے سو کر گزار دیا جائے، یہ اﷲ کی حکمتوں کا وہ راز جس کو وہی جانتا ہے اور جسے انسان کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر، وقت کا اس قدر وسیع پیمانہ، اس ایک رات میں سمویا گیا ہے کہ ایک لمحہ کی غفلت ہمیں بخشش کی منزل سے صدیوں دور کرسکتی ہے۔ خدا کے قُرب کے جو مواقع اس رات میں ملتے ہیں وہ ہزار راتوں میں بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔

اس رات فرشتے اس کثرت سے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے اس میں فرشتے اور روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے زمین پر اترتے ہیں، قرآن نے اس رات کو فیصلوں کی رات کہا ہے۔ اس رات میں حکمت و امور کی تقسیم ہوتی ہے، خاص اﷲ کے حکم سے۔ حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ایک سال کی تقدیر اور فیصلے کا قلم دان فرشتوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ شب قدر میں حضرت جبرائیلؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں، زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر الٰہی میں مشغول کھڑا یا بیٹھا دیکھتے ہیں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

’’یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔‘‘ ہزار مہینوں میں 84 سال اور چار ماہ بنتے ہیں اور جس نے یہ ایک رات عبادت میں گزار دی، اس نے اتنے سالوں کا ثواب حاصل کرلیا۔ فرمان رسول کریمؐ کا مفہوم : ’’جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے گزشتہ سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ جو اس رات فیض پاگیا سمجھ لیں وہ دین و دنیا سنوار گیا۔ قرآن نے اس مبارک رات کی نوید دی اور حضور ﷺ نے یوں اس کی تائید کی۔

حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی و خیر سے وہی شخص محروم ہوسکتا ہے جو حقیقتاً محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ (متفق علیہ) یہ عظیم المرتبت رات امت مسلمہ کے لیے رحمٰن رب کریم کا بہت بڑا انعام و تحفہ ہے اس لیے کسی بھی شخص کو اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘

شاید اس لیے بھی تعین نہ فرمایا تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاری جائیں، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر شب قدر نصیب ہو تو کیا دعا پڑھوں تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔‘‘

(احمد ابن ماجہ، ترمذی) اور یہی آخری عشرے کی دعا ہے۔ ہر مسلمان کو اس عظیم المرتبت رات سے حسب توفیق فیض یاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 آپ بھی ان طاق راتوں میں تھوڑا سا اہتمام کرکے شب بیداری کریں، جیسے حضور ﷺ کرتے تھے۔ یہ رات تو ایسی رات ہے کہ اس رات کی تمام گھڑیاں ہمیں بار بار جگا کر کہتی ہیں میں ہر لمحہ اس کی قربت کی جستجو میں گزرنا چاہیے کیوں کہ ہماری ساری امیدیں اس کی رحمت و رضا سے وابستہ ہیں اس لیے طاق راتوں میں بیشتر حصہ اﷲ کے حضور قیام و صلوٰۃ ، تلاوت و ذکر دعا و استغفار میں گزاریں تو کسی بھی شخص کا شب قدر کی برکات سے محروم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

زندگی کے اس برق رفتار سفر میں اﷲ نے ماہ رمضان کا پڑاؤ یونہی نہیں عطا کیا اور اس میں ’’شب قدر‘‘ رحمتوں کا باب اس لیے کھولا تاکہ ہم دنیا کے شر سے محفوظ ہوکر اس میں پناہ لیں۔ اپنی بخشش کا سامان اور اپنی آخرت کا اہتمام کریں۔ اﷲ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے قلب و روح کو بالیدگی عطاء کریں اور تقویٰ کی ناقابل تسخیر قوت حاصل کریں، کیا بعید آپ کی رمضان میں کی ہوئی ریاضتوں کے عوض آپ کی دعائیں شرف قبولیت پاجائیں اور ہمیں آگ سے خلاصی کا پروانہ یعنی توشہ آخرت مل جائے۔

دعا ہے پروردگار ہم سب کو شب قدر کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاق راتوں میں ہزار مہینوں اترتے ہیں اﷲ تعالی شب قدر کی اس لیے کے لیے اس رات یہ رات رات کی

پڑھیں:

سنت ابراہیمی

عید قرباں مسلمانوں کے لیے ایک بہت اہم فریضہ یعنی قربانی کو انجام دینے کا ہے تو وہیں مختلف کھانوں کی بہار پھیل جاتی ہے، لہٰذا یہ مہینہ ایک جانب سنت ابراہیمی پر عمل کرواتا ہے تو آج کے دور میں ہر وہ ڈش جو جیب کی تنگی اور مہنگے گوشت کے باعث درگزر کردی جاتی ہے، اب آزمانے کا موقعہ مل جاتا ہے لیکن پھر بہت سے وہ حضرات جو مختلف امراض کا شکار ہیں مجبوری کے باعث ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔

حج کی اہمیت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں پر سچ ہے کہ جس کا بلاوا آتا ہے وہی حاضری دیتا ہے۔ جیسے سوشل میڈیا پر محمد عامرکی وائرل ہوئی وڈیو خوب چلی، جہاز کے تین بار جانے اور آخر میں تھک ہار کر اپنے اس پیچیدگیوں میں الجھے مسافر کو لے کر جانے کے عمل نے اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ اس کے لیے دونوں آپشنز تیار تھے پر بندے کے دل کی حالت سے جو واقف تھا اس نے خوش نصیب آپشن پرکلک کر دیا اور حاضری ہوگئی۔

آج کل کے تیز رفتار دور میں ہم قدرت کے ان کرشموں کو سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے کہ ہم مادیت پرستی کے بخار میں الجھے اپنے جادوئی، طلسماتی آلہ جات میں گھرے ایک الگ دنیا کو ہی حقیقت جانتے ہیں لیکن اللہ کی رضا کے کلک کو اہمیت ہی نہیں دیتے جس میں ساری کاریگری، حکمت، سمجھداری اور ہمارے لیے بہترین آپشن چھپا ہوا ہے۔شہنشاہ بابر ایک عظیم حکمران جس کا نام تاریخ میں بہت گہرائی تک کندا ہے۔

اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے۔ ’’ ابراہیم لودھی کی بدنصیب ماں نے جب یہ سنا کہ میں نے ہندوستانی کھانے پکانے کے لیے ابراہیم کے باورچیوں میں سے چارکو ملازم رکھ لیا ہے تو اس نے اٹاوہ سے احمد چاشنی گیر (سالن چکھنے والا) کو بلایا اور اسے تولہ بھر زہرکی پڑیا ماما کے ہاتھ بھیجی۔

احمد یہ پڑیا میرے باورچی خانے کے ایک ہندوستانی باورچی کے پاس لایا اور اس سے کہا کہ چار پر گنے جاگیر ملیں گے، اگر وہ کسی طرح یہ زہر میرے کھانے میں ملا دے۔ابراہیم لودھی کی ماں نے ایک اور ماما کو بھی بھیجا کہ دیکھ کر آئے کہ ماما نے زہر احمد کو دیا یا نہیں؟ حسن اتفاق سے باورچی نے زہر کو پتیلی میں نہیں ڈالا بلکہ رکابی پر چھڑکا، کیوں کہ میرا حکم تھا کہ چاشنی گیر سالن پتیلی سے نکال کر ہندوستانی باورچی کو چکھایا کریں، مگر نالائق چاشنی گیروں نے رکابی میں سالن نکالتے وقت نگرانی نہیں کی۔

چینی کی رکابی میں جو پھلکے لائے گئے، باورچی نے کچھ زہر ان پر چھڑک دیا اور اوپر گھی میں بگھاری ہوئی بوٹیاں رکھ دیں۔ اگر بوٹیوں پر بھی چھڑک دیتا تو بہت خرابی ہوتی، مگر وہ گھبرا گیا اور آدھا زہر خوف سے چولہے میں پھینک دیا۔ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر دسترخوان چنا گیا۔ میں نے خرگوش کے گوشت کی رکابی سے کچھ کھایا اور کچھ گاجریں لیں۔ پھر چند لقمے زہر والی رکابی سے لے کر کھائے۔

پہلے تو کوئی چیز بے مزہ محسوس نہیں ہوئی لیکن بوٹیاں کھائیں تو طبیعت بگڑ گئی، دو تین دفعہ ابکائی آئی خدشہ تھا کہ دسترخوان پر ہی قے ہو جائے، اسی لیے اٹھ کر غسل خانے گیا اور وہاں قے کی۔ کھانا کھا کر پہلے مجھے کبھی قے نہیں ہوئی تھی۔ لامحالہ شبہ پیدا ہوا اور حکم دیا کہ باورچیوں کو قید کر لیا جائے، قے کی ہوئی غذا کتے کو کھلائی گئی تو اس کا بھی پیٹ پھول گیا اور وہ ایسا ناتواں ہو گیا کہ پتھر مارے پر بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھتا تھا۔

میرے دو سپاہیوں نے بھی زہر والی رکابی سے کھایا تو وہ بھی قے کرتے رہے، ایک کی تو حالت بہت بگڑ گئی تھی، شکر ہے کہ ہم سب بچ گئے۔‘‘بعد کے حالات میں سب کی تفتیش کی گئی آخر پتا چل گیا اور اصل مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس زمانے اینٹی ڈاٹ وغیرہ تو ہوتے نہ تھے پر یونانی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی ایسی پہچان اور تراکیب تھیں کہ دنیا (اس وقت کی) اسی پر چلتی تھی، لکھتے ہیں:

’’حاذق طبیبوں کے مشورے سے پہلے ایک پیالہ گرم دودھ گل مختوم ملا کر ہم سب کو پلایا گیا۔ پھر تریاق فاروق دودھ کے ساتھ دیا گیا۔ دوسرے دن مسہل دی گئی تو اجابت کے ساتھ سیاہ رنگ کا مادہ خارج ہوا۔‘‘

آخر میں بابر نے ترکی زبان میں ایک شعر لکھا اور موت کے پروانے کو رب العزت کے متعین کردہ وقت تک دھکیلنے کے واقعے کو بیان کیا، اس کا اردو میں مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ:

’’چوٹ کھائی، بیمار ہوا، زندہ ہوں، موت کا مزہ چکھا تو زندگی کی قدر ہوئی۔‘‘

زندگی میں ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مقام پر چوٹ کھاتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں، موت کو انتہائی نزدیک سے دیکھتے ہیں، زندگی کی قدر بھی ہوتی ہے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر کے لوازمات بدل جاتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ جو زندگی ایک نئے سرے سے عطا کرنیوالا ہے وہ ہم کو جھنجھوڑ کر کیا بتانا، سمجھانا چاہتا ہے اور جو وہ سمجھانا چاہتا ہے وہ ہمارے لیے ہی بہترین ہے لیکن انسان زندگی کے نشے میں چور پھر سے مست ہاتھی کی طرح جھومنے لگتا ہے اور ہاتھی کو کیا خبر کہاں جانا ہے، جدھر سونڈ کی نکل گئے۔

حال ہی میں ایک امیر زادے صاحب کی برقیاتی آلات کے ذریعے تصویری خبر پہنچی کہ جنھوں نے ذرا سی لغزش پر ایک معصوم لڑکے کے ساتھ برا کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں اپنا ہی تماشا بنا لیا۔ طاقت کا نشہ کتنے وقت کے لیے سر چڑھ کر بولا، شاید پندرہ منٹ، آدھ گھنٹے یا ہو سکتا ہے بہت ہی کم۔ زعم، اکڑ، غرور اور نہ جانے کیسے کیسے جذبات جو ان صاحب نے ساری زندگی چکھے بھی ہوں گے یا نہیں، پر اس مختصر سے دورانیے میں ان کی قلعی ان کے اپنے گھر والوں، بچوں، دوستوں، محلے دار اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہوتی ان تک بھی پہنچ گئی جنھوں نے کبھی اس نام کے بندے کو دیکھا تک نہ تھا۔

پر دیکھ لیا اور دل سے بددعائیں منہ سے مغلظات کا وہ طوفان جسے تولا جائے تو وہ صاحب اس میں ڈوب ڈوب جائیں۔ پر نہیں وہ مختصر سا دورانیہ ان کی پچھلی گزاری گئی زندگی پر ایسا حاوی آیا کہ انھوں نے زہرکی پھنکی اپنے ہی منہ میں رکھ لی۔ جیل میں سلاخوں کے پیچھے ہنستی مسکراتی تصویر، تھانے میں وارد ہونا، سوشل میڈیا کے جال اور بہت کچھ۔ اب چاہے آپ نے منہ میں زہر رکھ لیا ہو یا کیچڑ میں اٹ گئے ہوں۔

سچے دل کی پکار بس وہی سن سکتا ہے کہ جس نے ایک ماں کی پکار پر پانی کا ایسا چشمہ جاری کر دیا جو آج کی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ جو سنت ابراہیمی کے واقعے کی یاد دلاتا ہے جب ایک باپ نے ایسے اعلیٰ حکام کی آواز پر (خواب) پر لبیک کہا اور اپنے دل کے ٹکڑے کو قربان گاہ تک پہنچایا اور چھری تیز کی پر ایسی سرعت ایسی زقند کہ دنیا آج تک مانتی ہے اور جانتی ہے کہ دل کے تار سچائی سے جھنجھناتے ہیں تو کیا کیا ہو سکتا ہے۔ دراصل ہم سب کچھ جانتے ہیں کہ بہت عقل مند ہیں پر مانتے نہیں کہ دنیا کے ٹھیکیدار خود کو سمجھتے ہیں بس غلطی سے بچیے، بہت تھوڑے سے وقت میں بہت سا خسارہ خریدنے سے گریز کریں اور سنت ابراہیمی پر غور و فکر کریں، رب العزت ہم سب کی قربانیاں قبول فرمائیں۔(آمین۔)

متعلقہ مضامین

  • سنت ابراہیمی
  • جو شخص اپنی سیٹ نہیں جیت سکا، ہمیں لیکچر نہ دے: عظمیٰ بخاری 
  • ایران حق پر ہے اور ہمیں ایران کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے، شیخ رشید
  • سندھ کا بجٹ پیش ہونے سے ایک دن پہلے ہمیں کم پیسوں کا کہا گیا، مراد علی شاہ
  • خطے کی تازہ صورتحال، ان واقعات سے ہمیں اپنے ایٹمی پروگرام کی قدر ہوتی ہے، عمر چیمہ نے واقعات گنوادیے
  • ہمیں کامریڈ چھن یوئن کی بھرپور قیادت کے تجربے سے سیکھنا ہوگا، چینی صدر
  • صبر کی فضیلت اور طاقت
  • تھکی ہوئی روحوں کا معاشرہ
  • محرم الحرام سے قبل تمام ادارے جلوس روٹس کا کام مکمل کریں، انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں گے، انجینئر سخاوت علی سیال 
  • اعلیٰ معیاری تعلیم ہمیں ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا کرے گی،گورنر خیبرپختونخوا