رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں، آخری عشرے کی طاق راتوں میں، وہ سعادتوں سے بھری گھڑی جس کا انتظار ہر مسلمان کی آنکھوں میں سجا ہے، جیسے حاصل کرنا ہر روزہ دار کی خواہش و چاہ ہے، وہ رات جو ہر اس دل کا ارمان ہے جو صاحب ایمان ہے، قدرت کا وہ انعام جو پل پل ہمیں نوید دے رہا ہے، باب رحمت کھلا ہے رب مہربان ہے۔
ہمیں شب قدر دی گئی۔ جس طرح رمضان کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ زیادہ افضل ہے اور اس کی عظمت و برتری اس لیے ہے کہ اس میں لیلۃ القدر نہایت ہی قدر و منزلت و خیر و برکت کی حامل رات ہے۔
یہی وہ رات ہے جس میں انسانی زندگی کی راہ نمائی کے لیے خدا کا آخری دستور اور انسانی فلاح کا منشور قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یک بارگی نازل ہُوا۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کم نہ تھی کہ اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ القدر کے نام سے نازل ہوئی جس میں رب العزت نے خود اس کی بزرگی، عظمت و بڑائی بیان کی، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں جبرائیلؑ و فرشتے اترتے ہیں رب کے حکم سے ہر کام کے لیے، یہ رات سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘
یہ عظیم المرتبت رات ہمیں یوں ہی نہیں نصیب ہوئی، رب کریم کی یہ خاص عنایت، اس عظیم رات کا حصول نبی کریم ﷺ کی امت پر شفقت و غم خواری ہے کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں کس طرح سابقہ امتوں کی عبادت میں برابری کرسکتے ہیں، پس اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی غم خواری دیکھتے ہوئے آپؐ کو شب قدر عطا کی۔ یہ عظیم رات ہمیں سرکار دو عالمؐ کی غلامی کے صدقے نصیب ہوئی۔ یہ رات امت کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ شب قدر اﷲ تعالیٰ نے صرف میری امت کو عطا فرمائی پہلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی۔
سورہ القدر کی نورانی آیات غور سے پڑھیں تو اس کی پہلی آیت میں ارشاد ربانی کہ تم کیا جانو شب قدر کیا ہے! یعنی فیض و برکت والی یہ رات معمولی نہیں کہ اسے سو کر گزار دیا جائے، یہ اﷲ کی حکمتوں کا وہ راز جس کو وہی جانتا ہے اور جسے انسان کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر، وقت کا اس قدر وسیع پیمانہ، اس ایک رات میں سمویا گیا ہے کہ ایک لمحہ کی غفلت ہمیں بخشش کی منزل سے صدیوں دور کرسکتی ہے۔ خدا کے قُرب کے جو مواقع اس رات میں ملتے ہیں وہ ہزار راتوں میں بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔
اس رات فرشتے اس کثرت سے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے اس میں فرشتے اور روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے زمین پر اترتے ہیں، قرآن نے اس رات کو فیصلوں کی رات کہا ہے۔ اس رات میں حکمت و امور کی تقسیم ہوتی ہے، خاص اﷲ کے حکم سے۔ حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ایک سال کی تقدیر اور فیصلے کا قلم دان فرشتوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ شب قدر میں حضرت جبرائیلؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں، زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر الٰہی میں مشغول کھڑا یا بیٹھا دیکھتے ہیں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
’’یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔‘‘ ہزار مہینوں میں 84 سال اور چار ماہ بنتے ہیں اور جس نے یہ ایک رات عبادت میں گزار دی، اس نے اتنے سالوں کا ثواب حاصل کرلیا۔ فرمان رسول کریمؐ کا مفہوم : ’’جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے گزشتہ سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ جو اس رات فیض پاگیا سمجھ لیں وہ دین و دنیا سنوار گیا۔ قرآن نے اس مبارک رات کی نوید دی اور حضور ﷺ نے یوں اس کی تائید کی۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی و خیر سے وہی شخص محروم ہوسکتا ہے جو حقیقتاً محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ (متفق علیہ) یہ عظیم المرتبت رات امت مسلمہ کے لیے رحمٰن رب کریم کا بہت بڑا انعام و تحفہ ہے اس لیے کسی بھی شخص کو اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
شاید اس لیے بھی تعین نہ فرمایا تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاری جائیں، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر شب قدر نصیب ہو تو کیا دعا پڑھوں تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔‘‘
(احمد ابن ماجہ، ترمذی) اور یہی آخری عشرے کی دعا ہے۔ ہر مسلمان کو اس عظیم المرتبت رات سے حسب توفیق فیض یاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آپ بھی ان طاق راتوں میں تھوڑا سا اہتمام کرکے شب بیداری کریں، جیسے حضور ﷺ کرتے تھے۔ یہ رات تو ایسی رات ہے کہ اس رات کی تمام گھڑیاں ہمیں بار بار جگا کر کہتی ہیں میں ہر لمحہ اس کی قربت کی جستجو میں گزرنا چاہیے کیوں کہ ہماری ساری امیدیں اس کی رحمت و رضا سے وابستہ ہیں اس لیے طاق راتوں میں بیشتر حصہ اﷲ کے حضور قیام و صلوٰۃ ، تلاوت و ذکر دعا و استغفار میں گزاریں تو کسی بھی شخص کا شب قدر کی برکات سے محروم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
زندگی کے اس برق رفتار سفر میں اﷲ نے ماہ رمضان کا پڑاؤ یونہی نہیں عطا کیا اور اس میں ’’شب قدر‘‘ رحمتوں کا باب اس لیے کھولا تاکہ ہم دنیا کے شر سے محفوظ ہوکر اس میں پناہ لیں۔ اپنی بخشش کا سامان اور اپنی آخرت کا اہتمام کریں۔ اﷲ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے قلب و روح کو بالیدگی عطاء کریں اور تقویٰ کی ناقابل تسخیر قوت حاصل کریں، کیا بعید آپ کی رمضان میں کی ہوئی ریاضتوں کے عوض آپ کی دعائیں شرف قبولیت پاجائیں اور ہمیں آگ سے خلاصی کا پروانہ یعنی توشہ آخرت مل جائے۔
دعا ہے پروردگار ہم سب کو شب قدر کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طاق راتوں میں ہزار مہینوں اترتے ہیں اﷲ تعالی شب قدر کی اس لیے کے لیے اس رات یہ رات رات کی
پڑھیں:
یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
دنیا کے کیلنڈر پرکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں صرف یاد نہیں دلاتے، جھنجھوڑتے ہیں۔ بیس نومبر بھی ایسا ہی دن ہے، بچوں کا دن۔ یہ دن خوشی کے نعروں، رنگ برنگے غباروں اور مسکراہٹوں کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ہم اپنے گرد دیکھیں، تو یہ مسکراہٹیں کتنی ناپید ہیں۔ یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق ان کی معصومیت اور ان کے مستقبل کی حفاظت کریں مگر کیا واقعی ہم ایسا کر رہے ہیں؟
۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال نومبر کی 20 تاریخ کو عالمی یومِ اطفال منایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا کے بچے صرف کسی ملک یا طبقے کی ذمے داری نہ رہیں بلکہ پوری انسانیت کی امانت ہوں۔
اسی دن ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا اور ۱۹۸۹ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن اپنایا، وہ کنونشن جو آج تقریباً ہر ملک نے دستخط کیا ہے مگر جس کی روح اب تک بے سکونی میں تڑپ رہی ہے۔
یہ دنیا بچوں کی امانت ہے ہمارے پاس مگرکیا ہم نے اس امانت کا حق ادا کیا ہے؟ جب بھی یہ دن قریب آتا ہے، میرے ذہن میں ایک شور اٹھتا ہے۔ وہ بچوں کی ہنسی نہیں، ان کی چیخیں ہیں۔ مجھے غزہ کے بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں اب اسکول کے خواب نہیں دھماکوں کی چمک ہے۔ جن کے بستے ملبے تلے دب گئے اور جن کی انگلیاں قلم کے بجائے اینٹوں کے ٹکڑے تھامے ہوئے ہیں۔
مجھے سوڈان کے بچے یاد آ جاتے ہیں جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے جو جنگ اور بھوک کے درمیان زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک سوال لکھا ہے کیا ہمارا بچپن اتنا سستا ہے کہ طاقتوروں کی لڑائیوں میں برباد کر دیا جائے؟
پھر میں اپنے وطن کی طرف دیکھتی ہوں، جہاں کروڑوں بچے اب بھی اسکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یونیسیف کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً ۲۳ ملین بچے (یعنی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً ۴۴ فیصد بچے) تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔
بلوچستان میں تقریبا 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ سندھ میں غربت زدہ خاندانوں کے بچوں میں سے نصف اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ گواہی ہیں کہ ہمارا نظام طبقاتی بنیادوں پر بچوں کو تقسیم کر چکا ہے۔
کچھ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں آئی پیڈ پر پڑھتے ہیں اورکچھ دھوپ میں اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ پھر بھوک کا المیہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ۱۰ ملین بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔
تقریباً ۱۸ فیصد بچے شدید غذائی قلت (Severe Acute Malnutrition) میں مبتلا ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے ایک المناک اشارہ ہے۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ایک بھوکے بچے کے لیے دنیا کیسی ہوتی ہے؟ اس کے خواب کیسے اندھیری رات میں دفن ہو جاتے ہیں؟
یہ سب محض اتفاق نہیں یہ نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتوروں کو اور طاقتور امیروں کو اور امیر اور غریبوں کے بچوں کو ہمیشہ محتاج بنائے رکھتا ہے۔ بائیں بازو کا نکتہ نظر یہ کہتا ہے کہ بچوں کے حقوق محض رحم یا خیرات کا مسئلہ نہیں یہ سماجی انصاف کا سوال ہے۔
اگر ریاست تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنائے اگر علاج سرمایہ دار کی ملکیت ہو اگر روزگار کی تقسیم میں ناانصافی ہو تو پھر بچہ چاہے کسی بھی ملک میں پیدا ہو وہ اسی غلامی کی زنجیر کا حصہ بن جائے گا۔
بچوں کا دن صرف ہیپی چلڈرنز ڈے کہہ کر گزر جانے کا موقع نہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی برابری کی لڑائی بچپن سے شروع ہوتی ہے، اگر ایک بچہ بھوکا ہے، غیرتعلیم یافتہ ہے یا ظلم کے نیچے کچلا جا رہا ہے تو ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، چاہے ہم خاموش ہی کیوں نہ رہیں۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں لکھا ہے کہ ’’ ہر بچہ زندگی، تعلیم، تحفظ اور ترقی کا حق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن آج دنیا کے کئی خطوں میں بچہ صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزہ ہو یا سوڈان یا کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بچہ جو شیشے صاف کرتا ہے سب کی ایک ہی چیخ ہے ایک ہی سوال ہے، کیا ہم واقعی بچوں کا دن منانے کے قابل ہیں؟
میں سوچتی ہوں شاید ہم اس دن کو جشن نہیں احتجاج بنا دیں۔ احتجاج اس نظام کے خلاف جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف جو جنگوں کو استحکام کا نام دیتی ہیں اور احتجاج اپنے ضمیر کے خلاف جو خاموش رہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
یہ دنیا ہمارے پاس بچوں کی امانت ہے، مگر اگر ہم نے اس امانت کو خون بھوک اور خوف میں لپیٹ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کیسے معاف کریں گی؟ یہ دن صرف بچوں کا دن نہیں انسانیت کے ضمیرکا دن ہے۔
ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ کل دیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ جہاں اس کے سر پہ چھت ہو۔ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہا ہو جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں وہ خواب دیکھ سکے۔
لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ پاکستان کے کچھ گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خاموشی کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں، وہ اساتذہ جو پہاڑی علاقوں میں بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ لڑکیاں جو خود مشکلات کے باوجود دوسری بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہم چلاتی ہیں وہ والدین جو اپنی بھوک برداشت کر کے بچوں کو کتاب خرید کر دیتے ہیں۔
یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن سکتے ہیں، اگر ریاست ان چھوٹے چھوٹے خوابوں کا ساتھ دے تو شاید یہ ملک واقعی بچوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن سکے۔
ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایک ایسی دنیا دیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ خوش بھی ہو۔ جہاں وہ خواب دیکھ سکے، محبت پا سکے اور جہاں کسی بچے کی آنکھ آنسوؤں سے نہیں بلکہ روشنی سے بھری ہو۔