Express News:
2025-11-09@02:51:01 GMT

شب قدر خزینۂ رحمت الٰہی

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں، آخری عشرے کی طاق راتوں میں، وہ سعادتوں سے بھری گھڑی جس کا انتظار ہر مسلمان کی آنکھوں میں سجا ہے، جیسے حاصل کرنا ہر روزہ دار کی خواہش و چاہ ہے، وہ رات جو ہر اس دل کا ارمان ہے جو صاحب ایمان ہے، قدرت کا وہ انعام جو پل پل ہمیں نوید دے رہا ہے، باب رحمت کھلا ہے رب مہربان ہے۔

ہمیں شب قدر دی گئی۔ جس طرح رمضان کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ زیادہ افضل ہے اور اس کی عظمت و برتری اس لیے ہے کہ اس میں لیلۃ القدر نہایت ہی قدر و منزلت و خیر و برکت کی حامل رات ہے۔

یہی وہ رات ہے جس میں انسانی زندگی کی راہ نمائی کے لیے خدا کا آخری دستور اور انسانی فلاح کا منشور قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یک بارگی نازل ہُوا۔ اس رات کی فضیلت میں یہی بات کم نہ تھی کہ اس کی فضیلت بیان کرنے کے لیے قرآن پاک میں ایک پوری سورۃ القدر کے نام سے نازل ہوئی جس میں رب العزت نے خود اس کی بزرگی، عظمت و بڑائی بیان کی، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’تم کیا جانو شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں جبرائیلؑ و فرشتے اترتے ہیں رب کے حکم سے ہر کام کے لیے، یہ رات سلامتی ہے طلوع فجر تک۔‘‘

یہ عظیم المرتبت رات ہمیں یوں ہی نہیں نصیب ہوئی، رب کریم کی یہ خاص عنایت، اس عظیم رات کا حصول نبی کریم ﷺ کی امت پر شفقت و غم خواری ہے کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں کس طرح سابقہ امتوں کی عبادت میں برابری کرسکتے ہیں، پس اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی غم خواری دیکھتے ہوئے آپؐ کو شب قدر عطا کی۔ یہ عظیم رات ہمیں سرکار دو عالمؐ کی غلامی کے صدقے نصیب ہوئی۔ یہ رات امت کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ شب قدر اﷲ تعالیٰ نے صرف میری امت کو عطا فرمائی پہلی امتوں کو نصیب نہیں ہوئی۔

سورہ القدر کی نورانی آیات غور سے پڑھیں تو اس کی پہلی آیت میں ارشاد ربانی کہ تم کیا جانو شب قدر کیا ہے! یعنی فیض و برکت والی یہ رات معمولی نہیں کہ اسے سو کر گزار دیا جائے، یہ اﷲ کی حکمتوں کا وہ راز جس کو وہی جانتا ہے اور جسے انسان کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر، وقت کا اس قدر وسیع پیمانہ، اس ایک رات میں سمویا گیا ہے کہ ایک لمحہ کی غفلت ہمیں بخشش کی منزل سے صدیوں دور کرسکتی ہے۔ خدا کے قُرب کے جو مواقع اس رات میں ملتے ہیں وہ ہزار راتوں میں بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔

اس رات فرشتے اس کثرت سے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے اس میں فرشتے اور روح الامین یعنی جبرائیل علیہ السلام امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے زمین پر اترتے ہیں، قرآن نے اس رات کو فیصلوں کی رات کہا ہے۔ اس رات میں حکمت و امور کی تقسیم ہوتی ہے، خاص اﷲ کے حکم سے۔ حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ایک سال کی تقدیر اور فیصلے کا قلم دان فرشتوں کے سپرد کردیتے ہیں۔ شب قدر میں حضرت جبرائیلؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں، زمین پر اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر الٰہی میں مشغول کھڑا یا بیٹھا دیکھتے ہیں اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

’’یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے۔‘‘ ہزار مہینوں میں 84 سال اور چار ماہ بنتے ہیں اور جس نے یہ ایک رات عبادت میں گزار دی، اس نے اتنے سالوں کا ثواب حاصل کرلیا۔ فرمان رسول کریمؐ کا مفہوم : ’’جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے گزشتہ سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ جو اس رات فیض پاگیا سمجھ لیں وہ دین و دنیا سنوار گیا۔ قرآن نے اس مبارک رات کی نوید دی اور حضور ﷺ نے یوں اس کی تائید کی۔

حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس رات کی بھلائی و خیر سے وہی شخص محروم ہوسکتا ہے جو حقیقتاً محروم ہو۔‘‘ (ابن ماجہ) جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ (متفق علیہ) یہ عظیم المرتبت رات امت مسلمہ کے لیے رحمٰن رب کریم کا بہت بڑا انعام و تحفہ ہے اس لیے کسی بھی شخص کو اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘

شاید اس لیے بھی تعین نہ فرمایا تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاری جائیں، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ اگر شب قدر نصیب ہو تو کیا دعا پڑھوں تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ! تُو بے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔‘‘

(احمد ابن ماجہ، ترمذی) اور یہی آخری عشرے کی دعا ہے۔ ہر مسلمان کو اس عظیم المرتبت رات سے حسب توفیق فیض یاب ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 آپ بھی ان طاق راتوں میں تھوڑا سا اہتمام کرکے شب بیداری کریں، جیسے حضور ﷺ کرتے تھے۔ یہ رات تو ایسی رات ہے کہ اس رات کی تمام گھڑیاں ہمیں بار بار جگا کر کہتی ہیں میں ہر لمحہ اس کی قربت کی جستجو میں گزرنا چاہیے کیوں کہ ہماری ساری امیدیں اس کی رحمت و رضا سے وابستہ ہیں اس لیے طاق راتوں میں بیشتر حصہ اﷲ کے حضور قیام و صلوٰۃ ، تلاوت و ذکر دعا و استغفار میں گزاریں تو کسی بھی شخص کا شب قدر کی برکات سے محروم رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

زندگی کے اس برق رفتار سفر میں اﷲ نے ماہ رمضان کا پڑاؤ یونہی نہیں عطا کیا اور اس میں ’’شب قدر‘‘ رحمتوں کا باب اس لیے کھولا تاکہ ہم دنیا کے شر سے محفوظ ہوکر اس میں پناہ لیں۔ اپنی بخشش کا سامان اور اپنی آخرت کا اہتمام کریں۔ اﷲ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے قلب و روح کو بالیدگی عطاء کریں اور تقویٰ کی ناقابل تسخیر قوت حاصل کریں، کیا بعید آپ کی رمضان میں کی ہوئی ریاضتوں کے عوض آپ کی دعائیں شرف قبولیت پاجائیں اور ہمیں آگ سے خلاصی کا پروانہ یعنی توشہ آخرت مل جائے۔

دعا ہے پروردگار ہم سب کو شب قدر کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاق راتوں میں ہزار مہینوں اترتے ہیں اﷲ تعالی شب قدر کی اس لیے کے لیے اس رات یہ رات رات کی

پڑھیں:

امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی

ویسے تو امریکی آئین کی نگاہ میں بلاامتیازِ رنگ و نسل و عقیدہ سب شہری برابر ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی امریکی پھنس جائے ، پکڑا جائے یا کسی اور ریاست کے قانون کے مطابق سزا یافتہ بھی ہو جائے تب بھی امریکی انتظامیہ اس کی واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ جرم کسی بھی سرزمین پر ہو مگر مقدمہ امریکی قانون کے تحت امریکی سرزمین پر چلے۔اور اس معاملے کو کئی بار قومی انا کا مسئلہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔

مگر جب فلسطینی نژاد امریکیوں کا معاملہ ہو یا کسی غیر فلسطینی ( ریچل کوری ) کی ’’ غلطی ‘‘ سے ہلاکت کا سانحہ ہو یا اسرائیل بھولے سے امریکا کے درجنوں فوجی ( یو ایس ایس لبرٹی ) مار دے یا جان بوجھ کر کسی نوعمر امریکی کو قتل یا قید کردے تو امریکا اپنے ہی شہریوں سے لاتعلق ہونے میں دیر بھی نہیں لگاتا۔

مثلاً دوسرے انتفادہ کے عین عروج کے دور میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے وارننگ جاری کی کہ امریکی شہری اسرائیل ، غزہ اور غربِ اردن کے غیر ضروری سفر اور بلامقصد قیام سے پرہیز کریں۔

اس ہدائیت پر عمل کرتے ہوئے جب چار جون دو ہزار بائیس کو چالیس فلسطینی نژاد امریکی شہری وطن واپسی کے لیے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پہنچے تو امیگریشن حکام نے انھیں روک لیا۔ان سے کہا گیا کہ اسکریننگ کے بعد واپسی کی اجازت ملے گی کہ کہیں وہ اسرائیل یا مقبوضہ علاقوں میں اپنے قیام کے دوران کسی ہنگامہ آرائی یا دھشت گردوں سے رابطوں یا ان کی مدد میں تو ملوث نہیں تھے۔امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاویل کو اسرائیل سے ذاتی طور پر سر کھپا کے ان امریکی فلسطینیوں کی گلوخلاصی کروانا پڑی۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے اسرائیل نے امریکی و مقامی کا امتیاز ختم کر دیا ہے۔ جنوری دو ہزار چوبیس میں نیو آرلینز کا رہائشی سترہ سالہ توفیق عبدالجبار کچھ عرصے کے لیے مغربی کنارے میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا۔ ایک روز وہ مسلح یہودی آبادکاروں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا۔اس کا قاتل تین روز بعد ضمانت پر رہا ہو گیا۔

 پام بے فلوریڈا کا رہائشی پندرہ سالہ محمد ابراہیم اپنے والد زاہر اور والدہ مونا کے ہمراہ تعطیلات گذارنے اس سال فروری میں مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں مزرا الشرقیہ پہنچا۔اس گاؤں کو مغربی کنارے کا میامی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر باشندے ریاست فلوریڈا میں رہتے ہیں۔

ایک رات گھر کا دروازہ ٹوٹا ، مسلح اسرائیلی فوجی گھس آئے اور محمد ابراہیم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے فوجی گاڑی میں پٹخا اور بندوق کے بٹوں سے مارتے ہوئے اوفر ملٹری کیمپ میں لے گئے۔

فوجیوں نے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں بتایا کہ بچے کا جرم کیا ہے۔اوفر کیمپ سے محمد ابراہیم کو تھانے میں منتقل کیا گیا۔جہاں اس سے ایک نقاب پوش افسر نے تفتیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اعتراف نامے پر دستخط نہ کیے تو تمہیں اور مارا جائے گا۔محمد نے مزید تشدد کے خوف سے اعتراف نامے پر دستخط کر دیے۔اس میں اقرار کیا گیا کہ میں نے چند دیگر بچوں کے ہمراہ سڑک پر ایک آبادکار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا ( اسرائیلی قانون کے مطابق پتھراؤ کی سزا بیس برس قید ہے ) ۔

محمد ابراہیم کو قید میں لگ بھگ نو ماہ بیت چکے ہیں۔یروشلم میں امریکی سفارت خانہ اس کے والدین کو کئی ماہ سے یقین دلا رہا ہے کہ رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔امریکی کانگریس کے ستائیس ارکان نے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہوکابی کو مشترکہ خط میں محمد ابراہیم کو جلد از جلد رہا کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جیل میں قید محمد کو اب تک نہیں بتایا گیا کہ اس کے بیس سالہ سالہ کزن سعید مسلت اور دوست محمد الشلابی کو گیارہ جولائی کو اسرائیلی آبادکاروں نے المرا قصبے میں زمین پر قبضے کی مزاحمت کرنے پر مار مار کے قتل کر دیا۔

سعید مسلت بھی امریکی شہری تھا۔چنانچہ امریکی سفیر مائک ہوکابی کو بادلِ نخواستہ سعید کے گاؤں میں تعزیت کے لیے آنا پڑا۔مگر سفیرِ موصوف نے اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں اپنے شہری کی ہلاکت پر ایک احتجاجی لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔دو امریکی سینیٹروں نے بھی سعید کے گھر جا کر تعزیت کی۔

گذرے ستمبر میں بچوں کی قانونی معاونت کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی وکیل سحر فرانسس کو کئی انتظامی پاپڑ بیلنے کے بعد بالاخر محمد ابراہیم سے ملنے کی اجازت ملی۔سحر کا کہنا ہے کہ دورانِ قید محمد کا وزن تیس پاؤنڈ تک گر چکا ہے۔اس کی کوٹھڑی میں کل آٹھ بچے اور چار بینک بیڈ ہیں۔چوبیس گھنٹے میں دو بار کھانا ملتا ہے۔

یعنی ناشتے میں ایک بڑا چمچ دہی اور بریڈ کے چند ٹکڑے۔ دوپہر کو ایک کپ ابلے چاول ، ایک چھوٹا سوسییج اور کھیرے اور ٹماٹر کے دو تین ٹکڑے دیے جاتے ہیں۔محمد ابراہیم اور دیگر بچوں کو جلدی خارش ہو گئی ہے اور جسم اکثر کھجاتے رہنے سے خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ان سب کو پتلے پتلے سے گدے ملے ہوئے ہیں جن کی کبھی دھلائی نہیں ہوتی۔سیل میں قرآنِ مجید کا ایک نسخہ بھی رکھا ہوا ہے۔ہفتے میں ایک بار نہانے کی اجازت ہے مگر قیدیوں کی قطار اتنی لمبی ہے کہ بہت سے بچوں کی باری نہیں آتی۔

اسرائیلی قید خانوں میں اس وقت اٹھارہ برس سے کم عمر کے لگ بھگ تین سو ساٹھ بچے قید ہیں۔ان میں سے چالیس فیصد پر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی باضابطہ فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی۔بیشتر بچوں کو سزا میں کمی کا لالچ دے کر اعترافی بیانات پر پیشگی دستخط کرانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔نہ ہی انھیں گھر والوں سے رابطے کی اجازت ہے۔

محمد ابراہیم کے مقدمے کی اگلی سماعت نو نومبر کو ہے اور والدین کو قوی امید ہے کہ شاید ان کا بیٹا رہا ہو جائے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر محمد کے والد نے میڈیا سے کہا کہ اگر کوئی اور امریکی شہری اسی طرح وینزویلا کی قید میں ہوتا تو ٹرمپ اب تک چڑھائی کر چکا ہوتا۔

 مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو محمد ابراہیم اور اس کا قتل ہونے والا عم زاد سعید مسلت فلسطینی ہیں۔ لہٰذا وہ امریکی شہری ہیں یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔وہ امریکی ہو کر بھی انصاف کی قطار میں پیچھے ہی رہیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ستائیسویں ترمیم
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ڈپریشن ایک خاموش قاتل
  • ہیں کواکب کچھ
  • ہمیں بچوں کو دل ٹوٹنے جیسے مشکل مراحل کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے : صائمہ قریشی
  • امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی
  • " میری دلی دعا ہے کہ کبھی جنگ نہ ہو   لیکن اگر جنگ ہوئی، تو وہ تباہ کن ہوگی، اور طویل چلے گی، ہوسکتا ہے کوئی مصالحت کار بھی نہ بیچ میں پڑے" ایئرچیف مارشل (ریٹائرڈ) سہیل امان
  • ’لغو‘ کیا ہے؟
  • سیدہ اسماء بنت صدیقؓ
  • دشمن بدلہ لینے کی کوشش کرے گا، جنگ ہوئی تو تباہ کن اور طویل ہوگی، سہیل امان