کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی کا بھارت پر انتخابات میں مداخلت کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اوٹاوا: کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی نے بھارت پر انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے۔ پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی ایجنٹوں نے کینیڈا کے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔
کینیڈین سیکیورٹی انٹیلیجنس سروس (CSIS) کے مطابق، بھارت کی مداخلت کے واضح ثبوت ملے ہیں اور وہ کینیڈین کمیونٹیز اور جمہوری عمل کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 کے انتخابات میں بھی بھارتی ایجنٹ فنڈ ریزنگ اور منظم سازش میں ملوث رہے۔
کینیڈین حکومت نے بھارت کے ان اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔
اخبار گلوب اینڈ میل نے بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بھارت کی انتخابی مداخلت کینیڈا کی تمام سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔
کینیڈا کی الیکشن انٹیگریٹی ٹاسک فورس نے خبردار کیا ہے کہ بھارتی ایجنٹ مصنوعی ذہانت (AI)، پراکسی نیٹ ورکس اور آن لائن ڈس انفارمیشن جیسے ٹولز استعمال کر رہے ہیں تاکہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو بھارت کی ان سرگرمیوں کا نوٹس لینا ہوگا تاکہ جمہوری عمل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔