اپنا مستقبل تاریخ کی روشنی میں
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
انسان کی انفرادی زندگی ہو یا معاشرے اور اقوام کے حالات و واقعات ہوں، اگر انہیں ماضی کی زبان میں لکھا اور پڑھا جائے تو اسے’’علم تاریخ‘‘ کہتے ہیں۔ تاریخ کا علم ماضی کے حالات و واقعات، تعلقات، کیفیات، جغرافیے اور میسر امکانات وغیرہ کا ایسا انمٹ اور غیر متبدل علمی احاطہ ہے کہ جسے ماضی میں واپس جا کر تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کو قدرت حاصل ہو کہ وہ واپس ماضی میں سفر کر سکے جیسا کہ آج کل ’’ٹائم ٹریول (Time Travel)‘‘ کا تصور ہے تو تب بھی ماضی کے واقعات کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔
نوع انسان کا گزرے ہوئے ماضی کے وقت پر بس اتنا سا ارادہ و اختیار ہے کہ وہ ماضی کے سارے کرداروں اور حالات و واقعات سے سبق تو سیکھ سکتا ہے مگر انہیں نئے سرے سے رونما نہیں کر سکتا ہے۔ وقت کو واپس لانے یا ریورس کرنے کا خواب دیکھنا افراد اور اقوام میں پچھتاوے اور بے عملی کی بیکار عادات و اطوار پیدا کرتا ہے۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو افراد، معاشرے اور اقوام ماضی میں کھوئے رہتے ہیں یا اپنے آبائو اجداد پر بے جا فخر کرتے ہیں یا ان کے بارے میں غیرضروری تفاخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کا جہاں حال زیادہ قابل فخر نہیں رہتا ہے وہاں ان کا مستقبل بھی مخدوش ہو جاتا ہے۔
یوں تاریخ کا علم زمینی حقائق کے اعتبار سے ایسا ایک سچا آئینہ ہے جس میں اہلِ بصیرت مستقبل کی تصویر بآسانی دیکھ سکتے ہیں، مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ایک ایسا نصابِ تعلیم ترتیب دیا ہے کہ جس میں تاریخ اور جغرافیئے کی بہت کم گنجائش ہے اور اگر ہے تو ہمارا تدریسی نظام اتنا کج رو ہے کہ ہم نے تاریخ سے ذرا برابر بھی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اِس کا نتیجہ بلآخر یہ نکلا ہے کہ ہم قیام پاکستان سے اب تک اندھیروں میں زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں حتی کہ ہماری قوم نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سقوطِ ڈھاکہ جیسے المناک حادثے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور ہم بحیثیت قوم بدقسمتی سے غلطیوں پر غلطیاں دہراتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک مضبوط وفاق ہونے کے باوجود وطن عزیز کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی قیادتیں اور اہم ملکی ادارے مستقبل کی پیش بینی کے جوہر سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کے باعث ہماری ملکی سلامتی، امن و امان اور معاشی و سیاسی استحکام کو ہر طرف سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمارا ملک صحیح معنوں میں ایک بندی گلی میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس اعلی پائے کے وہ محب وطن، اہل اور مخلص لیڈران کا بھی قحط الرجال ہے کہ ان کو قیادت کا موقع دیا جائے تو وہ ملک و قوم کے لئے ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت ہو سکیں۔
ہمارے ہاں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف و حقوق کی عدم فراہمی کی وجہ سے اور خاص طور پر بیڈ گورننس کی بنا پر ملکی مسائل اتنے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہیں کہ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں بظاہر ایک ناختم ہونے والی دہشت گردی کا آغاز ہو چکا ہے جس کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع اور حددرجہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
کئی لحاظ سے ہمارے ملک کا حالیہ سیاسی بحران، 1971 ء کے بحران سے زیادہ سنگین ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال کا سیاسی استحکام اور عدم استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عروج و زوال ایک تاریخ ساز عمل ہوتا ہے جو چند دنوں، مہینوں یا برسوں پر محیط نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کئی برسوں کے حالات و واقعات، اہل اقتدار کی اہلیت، نفسیات اور ان کی کارکردگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ سچی تاریخ سو سال کے بعد لکھی جاتی ہے جب اس کے حقیقی کردار دنیا سے روپوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن زندہ قومیں اپنی تاریخ خود لکھتی ہیں نہ کہ وہ تاریخ نویسوں کو لکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ان تشویشناک حقائق کے تناظر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یعنی مقتدرہ اور سیاسی حکومت کو غیر معمولی طور پر مستقبل بینی سے کام لینا چایئے اور پیش آمدہ حالات کے مطابق بیپایاں تاریخی شعور کا ثبوت دینا چاہیے۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اپنی تقدیر دوسروں کو لکھنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔
اس بات کو ہم بطور فرد اپنی ذات پر لاگو کر کے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہیں یا ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ہیں تو ہمارا مستقبل یکسر تباہ ہو جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حالات و واقعات ہے کہ ہم ماضی کے ہوتا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-21
کراچی(اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت کی نا اہلی ، ریڈ لائن بی آر ٹی کی مسلسل تاخیر کے باعث لاکھوں شہریوں ، طلبہ و طالبات ، دکانداروں و تاجروں کی مشکلات و پریشانیوں کے خلاف جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کی ریڈ لائن عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت ہفتہ کو امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد سے حسن اسکوائر تک احتجاجی مارچ کیا گیا اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ریڈ لائن منصوبہ فی الفور مکمل اور حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے ۔ روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں ، تاجروں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور منصوبے کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کے دوران جاں بحق و زخمیوں سمیت تمام متاثرین کو ہر جانہ ادا کیا جائے ، مارچ سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان ، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ ، امیر ضلع شرقی نعیم اختر ، ایکشن کمیٹی کے کنونیئر نجیب ایوبی و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔مارچ کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر کراچی دشمنی بند کرو، ریڈ لائن فوری مکمل کرو،اہل کراچی کو ان کا حق دو ، سمیت دیگر نعرے درج تھے ۔ منعم ظفر خان نے حسن اسکوائر پر مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی بد ترین نااہلی اور کرپشن کا امتزاج ہے۔پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاجروں کا روزگار تباہ ہو یا عام شہری اور طلبہ و طالبات شدید مشکلات و اذیت کا سامنا کریں ۔ کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں منصوبے کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاتی۔ منصوبے سے متاثرہ افراد کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ۔ یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور شہریوں کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ، جن لوگوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے انہیں معاوضہ نہیں دیا جارہا بلکہ ٹھیکے والوں کے نام پر جعلی لسٹ بنائی جارہی ہے۔ ریڈ لائن منصوبے کی مسلسل تاخیر سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔ گلشن اقبال کاروباری مرکز ہے، یہاں تعلیمی ادارے اور جامعات ہیں، ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے اربوں روپے کے فنڈز دیے اور 2019 میں منصوبے پر کام شروع کیا گیا لیکن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہر بار نئی تاریخ دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ریڈ لائن بی آر ٹی مکمل کرو مہم کا آغاز کردیا ہے جو تعمیر مکمل ہونے تک جاری رہے گی ، آج کا احتجاج علامتی ہے اگر مسائل حل نہ ہوئے تو اس سے بڑا احتجاج کریں گے۔ جدوجہد اور مزاحمت کو آگے بڑھائیں گے اور شہر کراچی کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔ کراچی کو قابض پیپلز پارٹی کی فسطائیت سے نجات دلانے کے لیے عوام جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 17 سالہ حکومت کراچی کے عوام کے لیے مسلسل مصیبت اور اذیت بنی ہوئی ہے ، پورے کراچی کو کھنڈر بنادیا ہے اور پوری یونیورسٹی روڈ کھدی پڑی ہے ، سندھ حکومت اربوں کھربوں روپے کا فنڈز لینے کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو صرف اور صرف کمیشن کی فکر ہے۔ ریڈ لائن منصوبے سے متاثرہ کسی بھی فرد کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ٹھیکے والوں کی جعلی لسٹیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اصل حق دار کو معاوضہ نہیں دیا جارہا۔نعیم اختر نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ کرپشن اور نااہلی کا شاہکار ہے۔ منصوبہ صرف 6 فیصد لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ پنجاب کے منصوبے مقررہ وقت پر مکمل کردیے جاتے ہیں لیکن بی آر ٹی منصوبہ 3 سال سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بے حس ہوچکی ہے اسے عوام کی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بی آرٹی کی مسلسل تاخیر کے خلاف احتجاجی مارچ کیا جارہا ہے