Daily Ausaf:
2025-07-26@22:57:12 GMT

اپنا مستقبل تاریخ کی روشنی میں

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

انسان کی انفرادی زندگی ہو یا معاشرے اور اقوام کے حالات و واقعات ہوں، اگر انہیں ماضی کی زبان میں لکھا اور پڑھا جائے تو اسے’’علم تاریخ‘‘ کہتے ہیں۔ تاریخ کا علم ماضی کے حالات و واقعات، تعلقات، کیفیات، جغرافیے اور میسر امکانات وغیرہ کا ایسا انمٹ اور غیر متبدل علمی احاطہ ہے کہ جسے ماضی میں واپس جا کر تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کو قدرت حاصل ہو کہ وہ واپس ماضی میں سفر کر سکے جیسا کہ آج کل ’’ٹائم ٹریول (Time Travel)‘‘ کا تصور ہے تو تب بھی ماضی کے واقعات کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔
نوع انسان کا گزرے ہوئے ماضی کے وقت پر بس اتنا سا ارادہ و اختیار ہے کہ وہ ماضی کے سارے کرداروں اور حالات و واقعات سے سبق تو سیکھ سکتا ہے مگر انہیں نئے سرے سے رونما نہیں کر سکتا ہے۔ وقت کو واپس لانے یا ریورس کرنے کا خواب دیکھنا افراد اور اقوام میں پچھتاوے اور بے عملی کی بیکار عادات و اطوار پیدا کرتا ہے۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو افراد، معاشرے اور اقوام ماضی میں کھوئے رہتے ہیں یا اپنے آبائو اجداد پر بے جا فخر کرتے ہیں یا ان کے بارے میں غیرضروری تفاخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کا جہاں حال زیادہ قابل فخر نہیں رہتا ہے وہاں ان کا مستقبل بھی مخدوش ہو جاتا ہے۔
یوں تاریخ کا علم زمینی حقائق کے اعتبار سے ایسا ایک سچا آئینہ ہے جس میں اہلِ بصیرت مستقبل کی تصویر بآسانی دیکھ سکتے ہیں، مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ایک ایسا نصابِ تعلیم ترتیب دیا ہے کہ جس میں تاریخ اور جغرافیئے کی بہت کم گنجائش ہے اور اگر ہے تو ہمارا تدریسی نظام اتنا کج رو ہے کہ ہم نے تاریخ سے ذرا برابر بھی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اِس کا نتیجہ بلآخر یہ نکلا ہے کہ ہم قیام پاکستان سے اب تک اندھیروں میں زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں حتی کہ ہماری قوم نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سقوطِ ڈھاکہ جیسے المناک حادثے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور ہم بحیثیت قوم بدقسمتی سے غلطیوں پر غلطیاں دہراتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک مضبوط وفاق ہونے کے باوجود وطن عزیز کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی قیادتیں اور اہم ملکی ادارے مستقبل کی پیش بینی کے جوہر سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کے باعث ہماری ملکی سلامتی، امن و امان اور معاشی و سیاسی استحکام کو ہر طرف سے چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمارا ملک صحیح معنوں میں ایک بندی گلی میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس اعلی پائے کے وہ محب وطن، اہل اور مخلص لیڈران کا بھی قحط الرجال ہے کہ ان کو قیادت کا موقع دیا جائے تو وہ ملک و قوم کے لئے ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت ہو سکیں۔
ہمارے ہاں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور سماجی انصاف و حقوق کی عدم فراہمی کی وجہ سے اور خاص طور پر بیڈ گورننس کی بنا پر ملکی مسائل اتنے پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہیں کہ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں بظاہر ایک ناختم ہونے والی دہشت گردی کا آغاز ہو چکا ہے جس کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع اور حددرجہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
کئی لحاظ سے ہمارے ملک کا حالیہ سیاسی بحران، 1971 ء کے بحران سے زیادہ سنگین ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ قوموں اور ملکوں کے عروج و زوال کا سیاسی استحکام اور عدم استحکام سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عروج و زوال ایک تاریخ ساز عمل ہوتا ہے جو چند دنوں، مہینوں یا برسوں پر محیط نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کئی برسوں کے حالات و واقعات، اہل اقتدار کی اہلیت، نفسیات اور ان کی کارکردگی کا نتیجہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ سچی تاریخ سو سال کے بعد لکھی جاتی ہے جب اس کے حقیقی کردار دنیا سے روپوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن زندہ قومیں اپنی تاریخ خود لکھتی ہیں نہ کہ وہ تاریخ نویسوں کو لکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ان تشویشناک حقائق کے تناظر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یعنی مقتدرہ اور سیاسی حکومت کو غیر معمولی طور پر مستقبل بینی سے کام لینا چایئے اور پیش آمدہ حالات کے مطابق بیپایاں تاریخی شعور کا ثبوت دینا چاہیے۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اپنی تقدیر دوسروں کو لکھنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔
اس بات کو ہم بطور فرد اپنی ذات پر لاگو کر کے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہیں یا ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے ہیں تو ہمارا مستقبل یکسر تباہ ہو جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حالات و واقعات ہے کہ ہم ماضی کے ہوتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں: شکیل خان

شکیل خان—فائل فوٹو

پی ٹی آئی کے رکنِ خیبر پختونخوا اسمبلی شکیل خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر شکیل خان کیخلاف انکوائری کی گئی، گڈ گورننس کمیٹی

’جیو نیوز‘ سے گفتگو میں پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی شکیل خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں تیار ووٹ ملا جو بیلٹ بکس میں جا کر ڈالا۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے بتایا کہ دیگر ووٹرز کو بھی تیار بیلٹ پیرز دیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں بیلٹ پیپرز باہر آنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

ذرائع کے مطابق کسی بھی رکن نے اپنا ووٹ خود پول نہیں کیا، پہلا ووٹ ڈالنے والے رکن اسمبلی نے خالی پرچی بیلٹ بکس میں ڈالی اور اپنا بیلٹ پیپر باہر لا کر وہاں موجود حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو دیا جنھوں نے ان پر نشان اور نمبر لگائے۔ بیلٹ پیپر دوسرے رکن کو دیا گیا جس نےپہلے رکن کاووٹ ڈالا اور اپنا بیلٹ پیر باہر لایا۔

یہ سلسلہ پھر سارا دن چلتا رہا، کسی رکن نے اپنا ووٹ خود نہیں ڈالا۔ تمام عمل میں حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق تھا۔ وزیراعلیٰ نے سب سے آخر میں اپنا ووٹ ڈالا۔

متعلقہ مضامین

  • میں نے سید عباس عراقچی سے کہا کہ ترکیہ آپکا اپنا گھر ہے، ھاکان فیدان
  • ماضی کے لیجنڈ بولرز کے مقابلے میں آج کے بولرز کچھ نہیں، کیون پیٹرسن
  • کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے؟
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات 
  • کیا کرکٹر اعظم خان نے اپنا وزن کم کرلیا؟ شاداب خان نے پول کھول دیا
  • موجودہ حالات کے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں ادارے بھی ہیں، پرویزالہیٰ
  • سینیٹ الیکشن میں ہمیں تیار پرچیاں دی گئیں: شکیل خان
  • سیاح کو ہنزہ میں دیوار پر اپنا نام لکھنا مہنگا پڑگیا
  • اسرائیل کی 60 روزہ جنگ بندی تجویز پر حماس کا جواب سامنے آگیا