Islam Times:
2025-11-03@18:24:39 GMT

فلسطینی بچے میرے بچے ہیں اور فلسطین میری سرزمین ہے

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

فلسطینی بچے میرے بچے ہیں اور فلسطین میری سرزمین ہے

اسلام ٹائمز: فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان معصوم بچوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، انہیں بمباری میں شہید کر دیا جاتا ہے، ان کے اسکول تباہ کر دیے جاتے ہیں، اور ان کے خوابوں کو روند دیا جاتا ہے۔ فلسطینی بچوں کے آنسو، ان کی سسکیاں، اور ان کے خواب صرف فلسطین کے بچے ہونے کے ناطے نہیں بلکہ دنیا کے ہر انسان کے بچے ہونے کے ناطے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ان کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان پر ہونے والے مظالم درحقیقت پوری انسانیت پر حملہ ہیں۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

انسانیت کا دفاع کسی ایک قوم، نسل یا سرحد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جہاں کہیں ظلم ہو، وہاں آواز بلند کرنا ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔ مطلب دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و ستم ہو، وہاں انسانیت کے علمبرداروں کا کھڑا ہونا ایک اخلاقی، دینی اور انسانی فریضہ ہے۔ ظلم کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی قوم، مذہب یا نسل پر ہو، وہ ناقابلِ قبول ہے۔ خاص طور پر جب مظلوم بے یار و مددگار ہوں اور ان پر ظلم کرنے والے طاقت اور وسائل سے لیس ہوں تو خاموشی اختیار کرنا بزدلی کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار محض ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ آج فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے جہاں انسانیت کو کچلا جا رہا ہے، بچوں کے خواب چھینے جا رہے ہیں اور زندگی کو ملبے تلے دفن کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں خاموش رہنا محض بے حسی نہیں، بلکہ ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

فلسطین: ایک زخم جو صدیوں سے ہرا ہے
فلسطین نہ صرف ایک جغرافیائی خطہ ہے بلکہ یہ مظلومیت، استقامت اور قربانی کی علامت بن چکا ہے۔ 1948ء میں نکبہ (تباہی) کے نتیجے میں 700,000 سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھر سے بے دخل کردیا گیا اور خاندان منتشر ہوگئے۔ مطلب یہ کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی عوام مسلسل ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بےدخل کر دیا گیا، انہیں پناہ گزین کیمپوں میں دھکیل دیا گیا اور روزمرہ کی زندگی کو ایک جہنم بنا دیا گیا۔ غیر قانونی اسرائیلی بستیاں، گھروں کی مسماری اور فوجی قبضہ مسلسل جاری رہا۔ پچاس لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین اپنے حقِ واپسی سے محروم تھے جو کہ بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ بات ہے۔ غزہ جسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا رہا۔

شدید اقتصادی پابندیوں، خوراک اور ادویات کی قلت اور مسلسل فوجی حملوں کا شکار رہی، مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کی جارحیت جاری تھی جسے عالمی برادری کی خاموش حمایت حاصل تھی، فلسطینی عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم و مجبور تھے، یہاں تک کے طاقتور ممالک کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں مسلسل ظلم و جبر کا سامنا تھا۔ ایسے میں 7 اکتوبر 2023ء کو القسام کے بے خوف انسانی لشکر نے صیہونی حکومت کے خلاف اقدام کر ڈالا اور سینکڑوں صیہونی فوجیوں کو اپنے ساتھ لے گئے تاکہ اس ظلم و جبر و استبداد کی صورتحال کو روکا جا سکے اور اپنے جائز انسانی حقوق کی دنیا کے سامنے مانگ رکھی جا سکے لیکن صیہونی افواج نے ردِعمل میں تاریخ کی بدترین نسل کشی کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسرائیل نے 70 ہزار سے زائد انسانوں کو قتل کر ڈالا جن میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ہسپتالوں، اسکولوں، سویلین آبادیوں کو تباہ کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 45 ہزار سے زائد معصوم بچے شہادت کا جام نوش کر چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے اپنی جگہ ہر باضمیر انسان کی رائے یہ ہے کہ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ناکامی ہے، جب ہم معصوم بچوں کے قتل پر خاموشی اختیار کر رہے ہوتے ہیں تو نہ صرف ہم اپنے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر رہے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار سے یقیناً گر چکے ہیں۔

فلسطینی بچے میرے بچے کیوں ہیں؟
جب میں کسی فلسطینی بچے کی آنکھوں میں خوف دیکھتا ہوں تو وہ میرے اپنے بچے کا عکس لگتا ہے، ان کی مسکراہٹیں جو کسی بھی بچے کی طرح ہونی چاہئیں جنگ کی گونج میں دب چکی ہیں۔ ایک باپ کے لیے اس کے بچے سب سے قیمتی ہوتے ہیں، اگر کوئی ظالم ان پر ظلم کرے، انہیں مارے، ان کی نسل کشی کرے، تو کیا باپ خاموش رہ سکتا ہے؟ یقیناً نہیں! فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان معصوم بچوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، انہیں بمباری میں شہید کر دیا جاتا ہے، ان کے اسکول تباہ کر دیے جاتے ہیں، اور ان کے خوابوں کو روند دیا جاتا ہے۔

فلسطینی بچوں کے آنسو، ان کی سسکیاں، اور ان کے خواب صرف فلسطین کے بچے ہونے کے ناطے نہیں بلکہ دنیا کے ہر انسان کے بچے ہونے کے ناطے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انسانیت کی بنیاد پر ان کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان پر ہونے والے مظالم درحقیقت پوری انسانیت پر حملہ ہیں۔ یہ بچے کسی جنگ کے سپاہی نہیں بلکہ مظلومیت کی علامت ہیں، ان کی دنیا کھیل کے میدانوں میں، اسکولوں اور ماں کی گود تک محدود ہونی چاہیئے تھی، مگر آج وہ کھنڈرات میں کھیلنے، ملبے تلے اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھونڈنے اور رات کے اندھیروں میں بمباری کے سائے میں سونے پر مجبور ہیں، کیا یہ ہمارا اجتماعی المیہ نہیں؟

فلسطین میری سرزمین کیوں ہے؟
زمین کسی خاص قوم یا مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ اس پر بسنے والے ہر انسان کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی زمین پر آزادی کے ساتھ زندگی گزارے۔ فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہم السلام نے قدم رکھے، جہاں مسجد اقصیٰ جیسی عظیم عبادت گاہ موجود ہے، جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ اس سرزمین کی حفاظت ہر اس انسان کا فریضہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا جانتا ہے۔ اگر آج ہم فلسطین پر ہونے والے ظلم کو نظرانداز کر دیں تو کل دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں ایسا ظلم ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ ہم ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ زمین فلسطینی عوام کی ہے، ان کی تاریخ، ثقافت اور تشخص کی بنیاد ہے مگر سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے یہ زمین صیہونیوں کی بربریت کا شکار ہے، دیہات و شہر تباہ کردییے اور انتہائی ظالمانہ طریقے سے منظم نسل کشی کی جا رہی ہے۔ لہذا یہ زمین ہماری زمین ہے کیونکہ ہر وہ زمین جہاں انسانی حقوق پامال ہوں، وہ پوری انسانیت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔

ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی برادری نے مظلوموں کے لیے ہمیشہ دُہرے معیار اپنائے ہیں۔ جہاں ان کے مفادات ہوتے ہیں، وہاں وہ انسانی حقوق کے چیمپئن بن جاتے ہیں اور جہاں انہیں فائدہ نہیں پہنچتا، وہاں وہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف سیاسی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک خالص انسانی مسئلہ ہے۔ ظلم جہاں بھی ہوگا، ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ فلسطین ہو، لبنان ہو، یمن ہو, میانمار ہو یا پھر سندھ یا کوئی اور جگہ۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ ہمیں فلسطین کے ساتھ ہمدردی ہے بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا عملی اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔
 
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
شعور بیدار کریں:
فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع استعمال کریں۔ فلسطینی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی خبریں شیئر کریں تاکہ دنیا کو سچ دکھایا جا سکے، فلسطینی عوام کی آواز بنیں۔ بین الاقوامی فورمز، مظاہروں اور احتجاج کے ذریعے فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں۔

بائیکاٹ کریں:
مظالم میں شامل کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں۔ اسرائیلی جارحیت سے منافع کمانے والی کمپنیوں، جیسے پوما، ایئر ٹی این بی، صبرا حمص اور دیگر کے ایف سی، نیسلے، میک ڈونلڈ وغیرہ کا بائیکاٹ کریں اور ان تمام برانڈز کا بائیکاٹ کریں جو اسرائیلی مظالم کی حمایت کرتے ہیں۔

حکومتوں پر دباؤ ڈالیں:
اپنے قانون سازوں کو خط لکھیں، احتجاج میں شامل ہوں اور اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کے خلاف آواز اٹھائیں۔

جھوٹے بیانیے مسترد کریں:
ظلم کو "دفاع" اور مزاحمت کو "دہشتگردی" کہنے والے بیانیے کو بے نقاب کریں۔

مالی اور انسانی امداد:
فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں۔

فلسطین کے عوام کو صرف زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں بلکہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل کسی اور قوم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ظالم کے خلاف بولنا ہوگا اور ہر اُس کوشش میں شریک ہونا ہوگا جو انصاف اور امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطینی بچے ہمارے اپنے بچے ہیں اور فلسطین کی زمین ہماری اپنی زمین ہے، اگر آج ہم خاموش رہتے ہیں تو ہم انسانیت کے دفاع میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ عظیم فلسطینی شاعر محمود درویش نے کہا تھا: "کھڑے ہو جاؤ تاکہ دنیا دیکھے کہ ہم اب بھی زندہ ہیں"۔ ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے، آواز بلند کرنی ہے اور آزادی کے اس سفر میں فلسطینی عوام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے بچے ہونے کے ناطے پر ہونے والے مظالم آواز بلند کرنا فلسطینی بچوں فلسطینی عوام پوری انسانیت بائیکاٹ کریں کے خلاف آواز فلسطینی بچے دیا جاتا ہے ظلم کے خلاف انسانیت کی کھڑا ہونا نہیں بلکہ فلسطین کے اور ان کے جاتے ہیں ہیں بلکہ زمین ہے جہاں ان دنیا کے ہیں اور بچوں کے کے ساتھ تباہ کر بچوں پر دیا گیا کسی بھی کے لیے فرض ہے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-3

 

پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • اداکارہ خوشبو خان کا ارباز خان سے طلاق کے بیان پر یوٹرن
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • میرے کیریئر کو سب سے زیادہ نقصان وقار یونس نے پہنچایا: عمر اکمل کا سابق ہیڈ کوچ پر سنگین الزام
  • شوبز کی خواتین طلاق کو پروموٹ نہ کریں: روبی انعم
  • چند سال قبل چوری شدہ موٹر سائیکل کا ای چالان اصل مالک کے گھر پہنچ گیا
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور