میانمار میںشدید زلزلے سے ہلاکتوں کی تعدادایک ہزار سے تجاوزکرگئی
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
میانمار(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 مارچ ۔2025 )میانمار میں شدید زلزلے کے بعد امدادی کاروائیوں کا سلسلہ دوسرے دن بھی جاری ہے اور تباہی کا شکار ہونے والی والی عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے لیے کاروائیاں کی جارہی ہیں 7.7 شدت کے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد1ہزار50تک پہنچ گئی ہے جبکہ3ہزار کے قریب زخمی اور30سے زیادہ لاپتہ ہیں .
(جاری ہے)
امریکی نشریاتی نے یہ اعدادوشمار میانمار کی فوجی حکومت کے حوالے سے بتائے ہیں عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بہت سارے علاقے میڈیا کی رسائی سے باہر ہیں اور معلوم نہیں کہ ان علاقوں میں کتنا نقصان ہوا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے دوبڑے اور گنجان آباد شہروں میں ہر طرف مکمل طور پر یا آدھی گری عمارتیں نظرآرہی ہیں اور ریسکیو آپریشن شروع ہوئے ابھی تک24گھنٹے بھی مکمل نہیں ہوئے ایسی صورتحال میں درست اعدادوشمار کا اندازہ لگانا ممکن نہیں. زلزلے سے ملک کے دوسرے بڑے شہرمنڈالے کے سابق شاہی محل اور متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اگرچہ یہ علاقہ زلزلوں کی زد میں رہتا ہے لیکن یہاں آبادی کم ہے اور زیادہ تر مکانات ایک یا دو منزلہ ہوتے ہیں منڈالے کے جنوب مغرب میں واقع سگائنگ کے علاقے میں ایک 90 سال پرانا پل گر گیا منڈالے کو میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون(رنگون) سے جوڑنے والی شاہراہ کے کچھ حصے بھی متاثر ہوئے . میانمار کے فوجی حکام نے بتایا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں منڈلے میںہوئی ہیںجہاں 694 افراد ہلاک ہوئے دارالحکومت نیپیئی داو میں94، کیاک سی میں30اور ساگائنگ میں18افراد ہلاک ہوئے ہیں منڈلے میانمار کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور زلزلے کے مرکزسے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوا ہے شہرمیں بجلی اور مواصلاتی لائنیں منقطع ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے امدادی کاروائیوں میں مسائل آرہے ہیں. شہر منڈلے میں امدادی کارکن اب بھی ایک بلند عمارت کے ملبے تلے پھنسے سات افراد تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں امدادی کاموں میں شامل ایک شخص کا کہنا ہے کہ انہوں نے رات بھر اس عمارت سے 50 افراد کو زندہ نکالا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم اب بھی باقی پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں بڑی مشینوں کی ضرورت ہے وہ اب بھی چیخ رہے ہیں اور ہم اب بھی ان کی آوازیں سن سکتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں جان پا رہے کہ وہ کہاں ہیں. اس سے قبل ایک امدادی کارکن نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مدد کے لیے پکارتے لوگوں کو بچانے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے ملبے کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لوگ مدد کے لیے چیخ رہے ہیں شہری اپنی مددآپ کے تحت ریسکیو ٹیمیں تشکیل دے کر امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں چین‘بھارت‘تھائی لینڈ سمیت قریبی ممالک سے امدادی ٹیمیوں کے آج میانمار پہنچے کے امکانات ہیں زلزلے میں زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے کہ وہ منہدم ہونے والے ہوٹل کے اندر پھنسے لوگوں کی آوازیں کیسے سن سکتی تھی خاتون ایک ٹیچر ہیں ان کا کہنا تھا میں ان ماﺅں کے رونے کی آوازیں سن سکتی تھی جن کے بچے اب بھی عمارت کے اندر پھنسے ہوئے ہیں ایک اور خاتون نے بتایا کہ منڈلے ایک سانحے کا منظربن گیا ہے یہ کسی تباہ شدہ شہر کی طرح ہے بہت سے لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں. دوسری جانب تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں جاری ہیں ریسکیو عملے کا کہنا ہے کہ ملبے تلے دبے کر لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ کر رہے ہیں زلزلے سے اب بھی کے لیے
پڑھیں:
فرانس، برطانیہ اور کینیڈا حماس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل
فرانس، برطانیہ اور کینیڈا حماس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل نئے اسرائیلی حملوں میں مزید 28 ہلاکتیں غزہ میں امدادی سامان کی نئی کھیپ پہنچ گئی مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کا حملہ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا حماس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اسرائیلاسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے فرانس، برطانیہ اور کینیڈا پر حماس کی مدد کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے رہنماؤں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ میں جاری شدید اسرائیلی عسکری کارروائیوں کے تناظر میں ان ممالک نے دھمکی دی تھی کہ اگر غزہ میں یہ کارروائیاں نہ روکی گئیں تو اسرائیل کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
(جاری ہے)
نیتن یاہو نے کہا، ’’آپ انسانیت کے بھی غلط طرف کھڑے ہیں اور تاریخ کے بھی ۔‘‘
غزہ میں تباہی اور بھوک کے مناظر عالمی میڈیا میں مسلسل دکھائے جا رہے ہیں، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف رائے عامہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیل کے سابق سفارت کار یاکی دیان نے کہا، ’’امریکہ اور چند یورپی ممالک کو یہ بات سمجھانا مشکل ہو گئی ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ دفاعی جنگ ہے۔‘‘
اسرائیلی حکام خاص طور پر اس بات پر تشویش کا شکار ہیں کہ فرانس جیسے یورپی ممالک اسپین اور آئرلینڈ کی پیروی کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کر لیں، جو خطے میں عشروں پر محیط تنازعے کے دو ریاستی حل کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔
نیتن یاہو کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے خطرہ ہے اور انہوں نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے دو اہلکاروں کے قتل کو، جس میں حملہ آور نے مبینہ طور پر ’فری فلسطین‘ کا نعرہ لگایا، اس خطرے کی مثال قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ’’یہی نعرہ سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملے کے دوران بھی سنائی دیا تھا۔یہ لوگ فلسطینی ریاست نہیں چاہتے بلکہ یہودی ریاست کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
نئے اسرائیلی حملوں میں مزید 28 ہلاکتیں
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے غزہ کے طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ پر رات گئے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے قریب ایک چھوٹے قصبے میں اسرائیلی فضائی حملے میں 11 افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا جب کہ حملے کے زیادہ تر متاثرین بچے ہیں۔ اس حملے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے جن میں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے سے متعلق سامنے آنے والی رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے۔
غزہ میں امدادی سامان کی نئی کھیپ پہنچ گئی
تقریباً تین ماہ طویل امدادی ناکہ بندی کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے فراہم کردہ مزید 107 امدادی ٹرک غزہ پٹی میں داخل ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی اتھارٹی برائے فلسطینی امورCOGAT کے مطابق، ان ٹرکوں میں آٹا، خوراک، طبی آلات اور ادویات تھیں، جو جمعرات کے روز غزہ میں داخل ہوئیں۔
پیر کو اسرائیل نے غزہ پر امدادی سامان کی پابندی ختم کر دی تھی۔ اس سے قبل مارچ کے آغاز سے کسی بھی امدادی سامان کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اسرائیل کا الزام تھا کہ حماس یہ امداد بیچ کر اپنے جنگجوؤں اور اسلحے کے لیے مالی وسائل جمع کر رہی ہے۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں نے غزہ میں قحط کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس ہفتے جو امداد غزہ پہنچی ہے، وہ وہاں کی آبادی کی مشکلات کم کرنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہیومینیٹیرین امور (OCHA) کے مطابق، ’’اشیاء کی لوڈنگ اور ترسیل میں نمایاں چیلنجز بدستور موجود ہیں، جن میں عدم تحفظ، لوٹ مار کا خطرہ، اور اسرائیلی فورسز کی طرف سے فراہم کردہ غیر موزوں راستے شامل ہیں، جو امدادی سامان کی نقل و حرکت کے لیے کارآمد نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کے تقریباً 20 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کرنے کے لیے روزانہ 500 ٹرکوں کا داخل ہونا ضروری ہے۔
مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کا حملہ
مغربی کنارے کے شمال مغربی حصے میں واقع گاؤں بروچین پر جمعے کی رات اسرائیلی آبادکاروں کے حملے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق، درجنوں آبادکار اس گاؤں میں داخل ہوئے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ اسرائیلی آبادکاروں نے پانچ گھروں اور پانچ گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد آٹھ افراد کو طبی امداد دی گئی۔
غزہ جنگ کے آغاز سے مغربی کنارے میں بھی کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، اس عرصے میں اسرائیلی کارروائیوں، مسلح جھڑپوں یا انتہا پسند آبادکاروں کے حملوں میں 920 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔